
جنگی جنون کو پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ جنگی مشین بھی بڑی ہو۔ انفرادی سطح پر استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے علاوہ بم اور میزائل برسانے کے لیے مشینری بھی درکار ہے اور عملہ بھی۔ یعنی محض ہتھیاروں کی تعداد بڑھانا کافی نہیں، تربیت یافتہ فوجیوں کی بڑی تعداد بھی بڑی جنگی مشین کی بنیادی ضرورت ہے۔ امریکا میں جن لوگوں نے جنگی جنون کو پروان چڑھایا ہے، وہ اس بات کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ ہو، کیونکہ اسی صورت جنگی مشین کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ فوجیوں کی بھرتی کا عمل جاری رکھنے اور انہیں بہترین سہولتوں سے ہمکنار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالا جائے یعنی ان سے وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کا بڑا حصہ فوج پر خرچ کردیا جائے۔
امریکا میں ہر سال دفاعی بجٹ کو بہانہ بناکر مجموعی طور پر ہزاروں ارب ڈالر محکمہ دفاع کے نام کردیے جاتے ہیں۔ فوج کا اپنا بجٹ تو جو ہے سو ہے، کسی بھی ملک پر قبضہ برقرار رکھنے یعنی اُسے ’’جمہوریت سکھانے‘‘ کی مد میں بھی ہزاروں ارب ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ افغانستان اور عراق پر قبضہ برقرار رکھنے اور ان دونوں ممالک کی حکومتوں کو امریکی مفادات کے تابع رکھنے پر اب تک تین ہزار ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے جاچکے ہیں۔
امریکا میں جنگی جنون پانچ عشروں سے بھی زائد مدت سے پروان چڑھتا آیا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے بعد سے اب تک امریکا نے اپنی جنگی مشین کو برقرار رکھنے اور اہل جہاں کو وقتاً فوقتاً اپنی بھرپور طاقت دکھاتے رہنے پر کم و بیش ۱۵؍ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جنگی جنون نے امریکا کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی دیکھ لینا کافی ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی سے وصول کیے ہوئے ٹیکسوں کی مدد سے فوج اور اسلحہ خانے کو جو کچھ دیا جاتا رہا ہے اس کی مالیت ملک کے تمام اثاثوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں جتنے پل، سڑکیں، واٹر سسٹم، اسکول، ہسپتال، اسٹڈیم، مکانات، شاپنگ مال، گھریلو آلات، سرکاری مشینری، گاڑیاں اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں ان کی مجموعی مالیت بھی اس خطیر رقم سے زیادہ ہے، جو اب تک فوج پر خرچ کی جاچکی ہے۔
امریکا میں تمام جوہری تنصیبات محکمہ توانائی کے کنٹرول میں ہیں۔ ۱۰۰ سے زائد جوہری پلانٹ یہ محکمہ چلا رہا ہے۔ اس مد میں جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے، وہ بھی اس قدر ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر بہبودِ عامہ کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ تمام فوجی تنصیبات، فوجی عملے اور سابق فوجیوں کی بہبود کے کھاتے میں جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے، وہ سالانہ ۸۰؍ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ صرف اس ایک مد میں ایک منٹ میں ۱۰ لاکھ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ امریکا کے ہر گھر سے سالانہ ۴۴۰۰ ڈالر محض اس لیے وصول کیے جارہے ہیں کہ فوج کو پالا جاسکے۔
جنگی جنون نے عام امریکیوں کو شدید پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ بہبودِ عامہ کے منصوبوں کے لیے مختص رقوم میں کٹوتی کی روایت سی پڑگئی ہے۔ لوگ اپنے لیے سہولتیں تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔ وہ بہت سی بنیادی سہولتوں کے حصول میں اب شدید مشکلات محسوس کرنے لگے ہیں۔ ملک بھر میں پُل، فلائی اوور، سڑکیں، ہسپتال، اسکول اور دیگر عمارات خستگی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ بہت سے پُلوں، سڑکوں اور عمارات میں دراڑیں پڑچکی ہیں مگر حکومت کے پاس مرمت کے لیے فنڈ نہیں۔ فوج کو دینے کے لیے سرکاری خزانے کے منہ کُھلے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت نے ماس ٹرانزٹ سسٹمز کے لیے فنڈنگ روک دی ہے، جس کے نتیجے میں بڑے شہروں کی حدود میں لوگوں کو بس کے سفر کے لیے اب زیادہ کرایا ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی اور افلاس کے ہاتھوں عذاب سے دوچار افراد کے لیے یہ نیا عذاب ہے۔ اسکولوں کا حال بہت برا ہے۔ بڑے شہروں میں سرکاری سطح کے اسکولوں میں پڑھائی ترک کرکے کام دھندے سے لگ جانے والے بچوں کی تعداد ۸۰ فیصد ہے۔ امریکا بھر میں خواندگی کی شرح گر رہی ہے۔ ۲۰ فیصد سے زائد امریکی کوئی بھی چیز ڈھنگ سے نہیں پڑھ سکتے۔ اور بعض تو ایسے ہیں جو سائن بورڈ پڑھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ امریکا میں تین عشروں کے دوران تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقوم میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
طب کا شعبہ بھی غیر معمولی توجہ کا طالب ہے۔ اس وقت امریکا میں ۶ کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں میڈیکل انشورنس کی سہولت میسر نہیں۔ یہ لوگ کسی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہونے پر ڈھنگ سے علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی بیماری طبی عملے کی بھرپور توجہ نہ ملنے پر پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جاتی ہے اور یوں لاکھوں افراد اپنی ناداری کے ہاتھوں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے سرکاری ہسپتالوں میں مطلوبہ سہولتیں میسر نہیں۔ فنڈنگ کی کمی کے باعث سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کا علاج انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں عوام سخت پریشان ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
امریکا بھر میں مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے اور دوسری طرف افلاس کی سطح اتنی بلند ہوئی ہے کہ بہت سے غریب گھرانوں کی متوقع مائیں بہتر نگہداشت حاصل نہیں کر پاتیں۔ بہت سی خواتین زچگی سے قبل اور بعد چونکہ مطلوبہ نگہداشت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں اس لیے نومولودوں کی شرح اموات بھی خاصی بلند ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں نومولودوں کی شرحِ اموات کے لحاظ سے امریکا سرفہرست ہے۔ یہ شرح اموات جاپان کی شرح اموات سے دگنی ہے۔ امریکا میں ہر پچاسویں منٹ پر ایک بچہ بھوک یا افلاس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ کانگریس دفاعی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے تو متحرک رہتی ہے مگر سماجی بہبود اور بالخصوص تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے معاملے میں شرمناک حد تک غفلت اور تساہل کا مظاہرہ کرتی ہے۔
شہروں میں ایک طرف مکانات کے کرائے بڑھتے جارہے ہیں اور دوسری طرف اجرتوں کی سطح گرتی جارہی ہے۔ لاکھوں گھرانے شدید افلاس کے باعث انتہائی پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بُرے حالات نے انہیں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ چھوٹے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد فٹ پاتھ اور سڑکوں پر آگئے ہیں۔ شدید افلاس کی کوکھ سے جرم پسندی جنم لیتی ہے اور لوگ پست معیار کی زندگی کو اپنا مقدر سمجھ کر اپناتے جاتے ہیں۔ منشیات اور شراب کی لت میں مبتلا ہوکر لاکھوں افراد شرمناک حد تک گِرے ہوئے معیار کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر حکومت متوجہ ہونے کے لیے تیار نہیں۔ منشیات کی لت میں مبتلا افراد کو دوبارہ عمومی زندگی کی طرف لانے کے لیے قائم کیے جانے والے مراکز کا بُرا حال ہے۔ فنڈنگ نہ ہونے کے باعث ایسے مراکز کی کارکردگی خطرناک حد تک غیر متاثر کن ہوچکی ہے۔ لوگ ان کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور پھر جو تھوڑے بہت مرکز کام کر رہے تھے، ان میں سے بھی کئی ایک بندش کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
امریکا کی جنگی مشین کو متحرک رکھنے کے لیے بہت کچھ درکار ہے۔ اس وقت امریکا کے پاس بارہ طیارہ بردار جہاز ہیں۔ ایک طیارہ بردار جہاز کم و بیش ایک ارب ڈالر کا پڑتا ہے۔ اس رقم سے ۱۷ ہزار مکانات تعمیر کرکے ۶۷ ہزار سے زائد افراد کو بہتر ڈھنگ سے بسایا جاسکتا ہے، سال بھر میں ۱۶ لاکھ خواتین کو زچگی سے قبل کی بہتر نگہداشت فراہم کی جاسکتی ہے، اور اس کے نتیجے میں نومولودوں میں شرح اموات کو نیچے لایا جاسکتا ہے۔ ایک سال میں ۳ لاکھ ۳۴ ہزار بچوں کو اسکول جانے کے قابل بنایا جاسکتا ہے یعنی انہیں اسکول کی سہولت فراہم کی جاسکتا ہے، سال بھر میں ۳ لاکھ ۳۳ ہزار افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے یا ایک سال میں ۵ لاکھ بچوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔
یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ جنگی جہازوں کو متحرک رکھنے کے لیے تو حکومت کے پاس ہزاروں ارب ڈالر ہیں مگر عوام کو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے فنڈ کی کمی ہے؟
امریکی محکمۂ توانائی کے تحت چلائے جانے والے جوہری پلانٹس سے خارج ہونے والے تابکار مواد سے لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں ہے۔ ان پلانٹس میں کام کرنے والوں کے علاوہ ان کے قرب و جوار میں رہنے والوں میں بھی طرح طرح کی جسمانی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ خطرناک امراض کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔ ان پلانٹس سے صحتِ عامہ کو لاحق نقصانات اتنے ہیں کہ حقائق سامنے لائے جائیں تو شدید ہنگامہ برپا ہو مگر حکومت نے سب کچھ رازداری کے پردے میں لپیٹ رکھا ہے۔ رازداری کا بہانہ گھڑ کر افق کو اس قدر دھندلا کردیا گیا ہے کہ کوئی بھی چیز واضح دکھائی نہیں دے رہی۔
امریکا میں جوہری پلانٹس سے جو تابکار مواد خارج ہوتا رہا ہے، اس نے آس پاس کے پورے ماحول کو انتہائی آلودہ کردیا ہے۔ اس ماحول میں سانس لینا اور وہاں کا پانی پینا بھی انتہائی خطرناک ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ تابکاری کے اثرات ختم کرنے کے لیے ۳۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنے ہوں گے۔ اور یہ بل کون ادا کرے گا؟ ظاہر ہے، عوام!
امریکا نے ۶ عشروں کے دوران جوہری تجربات کے ذریعے کم و بیش ۴ لاکھ ۸۰ ہزار فوجیوں کو تابکار مواد کے سامنے کھڑا کیا ہے۔ ان میں سے بہت سوں کی صحت کے لیے انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ہزاروں امریکی فوجی سرطان میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوئے۔ فوجیوں کو دلاسے دیے گئے کہ حفاظتی انتظامات مکمل اور بے داغ ہیں اور یہ کہ تجربات سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا مگر ایسا نہیں تھا۔ جوہری تجربات کے مقامات پر تعینات فوجیوں کے لیے بھی تابکار مواد خطرناک ہی تھا۔
جوہری تنصیبات پر تعینات فوجی اور دیگر عملے کے علاوہ قرب و جوار میں رہنے والے شہری بھی صحت کے حوالے سے بہت سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ لاکھوں شہریوں کو تابکار مواد کے ہاتھوں کئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے شہری بھی سرطان کی زَد میں آئے اور ان کی زندگی بھی داؤ پر لگی۔ جوہری تنصیبات سے خارج ہونے والے پلوٹونیم کے ذرّے عشروں تک متحرک رہتے ہیں۔ ان ذرّات کی زَد میں آنے والوں کی صحت کے زوال پذیر ہونے کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔
بہت سے مقامات پر تابکار مواد کو دفن کیا جاتا رہا ہے۔ ان مقامات کو ڈمپنگ گراؤنڈ کہا جاتا ہے۔ تصور یہ کیا جاتا ہے کہ کسی جگہ تابکار مواد کو دفنانے سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا مگر ایسا نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تابکار مواد زمین میں گھلتا جاتا ہے اور پھر پورے ماحول کا حصہ بن کر صحتِ عامہ کے لیے شدید پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہو پاتا اور ان کے پینے کے پانی کے ذخائر میں تابکار مواد شامل ہوتا جاتا ہے۔ ڈمپنگ گراؤنڈز کے قرب و جوار کی فضا اس قدر آلودہ ہوچکی ہوتی ہے کہ اس میں سانس لینا بھی عمومی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
امریکا بھر میں تابکار مواد اور دیگر فضلے دفنانے کی جگہیں ۱۱ ہزار سے زائد ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگر حکومت ان تمام جگہوں یعنی ڈمپنگ گراؤنڈز کو صاف کرنے پر مائل ہو اور قرب و جوار کے ماحول کو صحت بخش بنانے پر توجہ دے تو تربیت یافتہ افراد کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی۔ ان تربیت یافتہ افراد کی تنخواہوں، سہولیات، مشینری اور سپلائیز پر کم و بیش ۲۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے!
نائن الیون کے بعد سے امریکا میں ہوم لینڈ سیکورٹی کا غلغلہ رہا ہے۔ داخلی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کے نام پر لوگوں کی جیب ہی خالی نہیں کرائی جارہی بلکہ ان کی آزادی بھی داؤ پر لگادی گئی ہے۔ شہریوں کو میسر آزادیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن عام امریکی کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ہوم لینڈ سیکورٹی یعنی اندرون ملک زیادہ سے زیادہ سلامتی یقینی بنانے کے نام پر عام امریکی کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی کے سابق سربراہ ٹام رِج کہتے ہیں کہ اگر ہم نے دوسروں کو نشانہ بنانے میں بھرپور دلچسپی اور بے تابی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو دوسرے بھی ہمیں نشانے پر لینے میں اتنی سرگرمی نہ دکھاتے۔ ٹام رِج مزید کہتے ہیں کہ اگر ہم دوسروں پر حملے کرتے رہیں گے تو ہمیں کہیں سے بھی کسی بھی طرح کے حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
یہ بات امریکی عوام بھی جانتے ہیں کہ قومی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکا سے نفرت کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر امریکا کہیں حملہ کرے گا تو ردعمل بھی ہوگا۔ افغانستان اور عراق سے امریکا نے جو سلوک روا رکھا ہے، اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے لیے بھی امریکا کو تیار رہنا چاہیے۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ کیپٹل ہل کے مکین تو جو جی میں آئے وہ کر گزرتے ہیں، بھگتنا عوام کو پڑتا ہے۔ اگر امریکی فوجی کہیں کچھ کرتے ہیں تو جواب میں ان پر حملے کم ہوتے ہیں اور عام، نہتے امریکی کو زیادہ اور آسانی سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکی عسکری مہم جوئی کے اخراجات اور نتائج دونوں ہی عوام کو جھیلنے پڑتے ہیں۔
ڈک چینی جیسے لوگوں نے امریکا کو جنگی جنون کی بند گلی میں پھنسادیا ہے۔ اب اگر قیادت اس بند گلی سے نکلنا چاہے تو اسے بہت کچھ چھوڑنا اور دوسرا بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑے گا۔ امریکی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے، جنگی جنون کو پروان چڑھانے والوں کے سامنے یہ بات کیجیے تو وہ طنزیہ کہتے ہیں کہ ہم نے کب کہا تھا کہ یہ قیمت ادا نہیں کرنا پڑے گی۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سپر پاور ہونے کی کچھ نہ کچھ تو قیمت ہوتی ہے۔
اپنی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر امریکا نے جو کچھ بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ امریکا میں عام آدمی کی مشکلات اور الجھنوں میں غیر معمولی، بلکہ تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ شہری آزادی داؤ پر لگ گئی ہے۔ عام امریکی کی زندگی میں سرکاری یا ریاستی مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ڈھنگ سے جینا آسان نہیں رہا۔ ایسے قوانین نافذ کیے جاچکے ہیں، جن کا مقصد شہریوں کی آزادی کو محدود کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان قوانین کے خلاف آواز اٹھانا بھی آسان نہیں۔ قومی سلامتی کے نام پر شہریوں سے کسی بھی معاملے میں، کسی بھی اقدام پر، کسی بھی قانون کے حوالے سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروپوں کو بھی موثر طور پر کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کل تک جو ادارے سیاست دانوں پر نظر رکھتے تھے، وہ اب شہریوں کو بھی مانیٹر کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے نام پر کسی بھی شہری کو مقدمہ درج کیے بغیر غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جاتا ہے۔ پولیس، ایف بی آئی اور سی آئی اے تینوں کو کسی بھی شہری کی عمومی ڈاک اور ای میل پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی وقت گھر میں گھسنے کا حق بھی دے دیا گیا ہے۔
امریکی معاشرے میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ سکونت پذیر ہیں، اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ نائن الیون کے بعد داخلی سلامتی یقینی بنانے کے لیے امریکی قیادت نے جو اقدامات کیے، ان کے نتیجے میں مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے تارکین کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ امریکا نے مسلم دنیا میں جو کچھ کیا ہے، اس کے منطقی نتیجے کے طور پر دنیا بھر میں امریکی مفادات کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ جن مسلم ممالک کو امریکی پالیسیوں نے تباہی سے دوچار کیا ہے، ان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد امریکا میں رہتے ہیں۔ ان سے امریکی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ گھڑ کر قومی سلامتی کے ادارے زیادہ سے زیادہ امتیازی پالیسیاں اختیار کرتے جارہے ہیں۔ عام امریکی بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلم تارکین وطن سے امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم بڑھ رہی ہے۔ جو مسلمان تین چار عشروں سے امریکا میں آباد ہیں، انہیں بھی کسی جواز کے بغیر شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی جو نسل امریکا ہی میں جوان ہوئی ہے، وہ بھی مشکوک ٹھہری ہے۔ یہ امتیازی سلوک امریکی معاشرے کے لیے کسی بھی اعتبار سے بہتر علامت نہیں۔ مسلمانوں سے انتہائی پریشان کن سوالات کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہر جواب کو شک کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کو بلاجواز پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔
امریکی جنگی جنون کی قیمت ویسے تو خیر پورے معاشرے ہی نے ادا کی ہے، مگر سب سے زیادہ خسارے میں وہ فوجی رہے ہیں جنہیں بیرونی محاذوں پر ڈیوٹی دینا پڑی ہے۔ جنوبی کوریا میں فوجیوں کی تعیناتی سے اب تک امریکا کے ایک لاکھ سے زائد فوجی بیرونی مہمات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لاکھوں امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت سے زندگی بھر کے لیے اپاہج بھی ہوچکے ہیں۔ خلیج کی پہلی جنگ کے بعد ہزاروں امریکی پراسرار بیماری میں مبتلا پائے گئے۔ اس بیماری کو گلف وار سنڈروم کہا جاتا ہے۔ گلف وار سنڈروم میں مبتلا ہونے والوں کے لیے معمول کی زندگی بسر کرنا ممکن نہیں رہا۔
ہزاروں امریکی فوجی جنگ کی ہولناکیوں کے ہاتھوں نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوکر بہت بُری اور تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ویت نام کی جنگ میں لاکھوں امریکی فوجیوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے بہت سوں کو عجیب و غریب نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے امریکی فوجیوں نے بعد میں ذہنی الجھن سے نجات پانے کے لیے خود کشی کرلی۔ ویت نام میں سَفّاکی اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو بعد میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا، جو ان کے لیے سوہانِ روح ہوگئے۔ معصوم اور نہتے انسانوں بالخصوص خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانے پر امریکی فوجی بعد میں احساسِ جرم سے ایسے پریشان ہوئے کہ ان کے لیے معمول کی زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہا۔ بہت سے امریکی فوجی پاگل ہوئے اور دوسرے بہت سے فوجیوں نے ضمیر کے خنجر سے لگنے والے وار سہنے پر موت کو ترجیح دی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہزاروں امریکی فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوئے کہ اُن کا آخری وقت سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گزرا۔ معاشرہ ذہنی پیچیدگیوں کے ساتھ انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔
خود کشی کا رجحان صرف ریٹائرڈ امریکی فوجیوں میں نہیں پایا جاتا۔ بہت سے حاضر سروس فوجی بھی بیرون ملک اور بالخصوص وار زون میں ڈیوٹی دیتے وقت جن سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں بعد میں شدید ذہنی الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔ اور یہ ذہنی الجھنیں انہیں موت کی طرف لے جاتی ہیں۔ امریکا اور عراق میں ڈیوٹی کے دوران جن امریکی فوجیوں کو شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ، گولا باری یا بمباری کا حکم دیا گیا وہ بعد میں اپنے کیے پر ایسے نادم ہوئے کہ مزید زندہ رہنے پر موت کو گلے لگانا ان کے لیے زیادہ قابلِ ترجیح ٹھہرا۔
کوئی بھی شخص پیدائشی طور پر لڑائی بھڑائی کو پسند نہیں کرتا۔ امریکا میں جنگی جنون پروان چڑھانے والے بھی اس نکتے کو اچھی طرح جانتے ہیں، اس لیے وہ معاشرے میں ہر طرف ایسی چیزیں عام کرتے ہیں جن سے بچوں کو چھوٹی عمر ہی سے اندازہ ہوجائے کہ اس دنیا میں اگر ڈھنگ کا کوئی کام ہے تو وہ ہے لڑنا بھڑنا۔ ٹی وی چینلوں پر، وڈیو میں اور سوشل میڈیا پر بھی ایسے رجحانات عام کیے جاتے ہیں، جو لڑائی بھڑائی پر مشتمل ہوں۔ فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں تشدد آمیز مناظر شامل کیے جاتے ہیں تاکہ بچے لڑنے بھڑنے کو زندگی کا جُز سمجھنے لگیں۔ بازار میں ایسے کھلونوں کی بھرمار ہے، جنہیں استعمال کرنے سے بچوں میں جنگ پسندی کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔
اسکولوں اور کالجوں کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے سابق فوجیوں کو گارڈ کی حیثیت سے ملازمت دی جاتی ہے۔ یہ ریٹائرڈ فوجی نئی نسل کے ذہنوں میں فوج کو پسند کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ پھر یہی فوجی نئی نسل کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک دیتے ہیں۔ انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ فوج میں جانے سے ان کے لیے مزے ہی مزے ہوں گے۔ نئی نسل بہتر مستقبل کی تلاش میں فوج کا رخ کرتی ہے اور کچھ ہی عرصے کے بعد حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ پھر جب وہ فوج سے نکل بھاگنے کا سوچتے ہیں تو انہیں ڈرا دھمکاکر روکا جاتا ہے۔
امریکا میں بعض کمیونٹیز میں بڑھتی ہوئی غربت نے نوجوانوں کو فوج کی طرف دھکیلا ہے۔ افریقی اور میکسیکن نسل کے امریکیوں کے علاوہ ریڈ انڈینز میں بھی غربت زیادہ پائی جاتی ہے، اس لیے وہ فوج کا رخ کرتے ہیں۔ امریکا میں افریقی نسل کے سیاہ فام باشندے ۱۲ فیصد سے زائد نہیں مگر ویت نام کی جنگ میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں میں ۲۲ فیصد سیاہ فام تھے۔
سب سے بڑی نا انصافی یہ ہے کہ جنگ شروع کوئی کرتا ہے، اور اس کا خمیازہ کسی اور کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا جو شخصیات جنگ کی باتیں کرتی ہیں، ان کا جنگ سے عملی تعلق صفر کے مساوی ہوتا ہے۔ وہ جنگ چھڑتے ہی الگ ہوجاتے ہیں اور سب کچھ انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے، جن کا اس پورے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ چار پانچ عشروں سے ہو رہا ہے مگر سلسلہ کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا۔
Leave a Reply