
اب سوال یہ ہے کہ جنگ اور جنگی جنون اگر ایسی ہی بُری چیز ہے تو پھر جب بھی معاملات خرابی کی نذر ہوتے ہیں تو لوگ جنگ کی حمایت کیوں کرنے لگتے ہیں؟ اِس سوال پر غور کرنا اِس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو جنگ پسند ذہنیت کی طرف دھکیلا جاتا ہے اور اُنہیں مختلف طریقوں سے مجبور کیا جاتا ہے کہ جنگ کو ایک ناگزیر حقیقت سمجھ کر قبول کریں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ امریکا میں نصف سے زائد افراد کبھی سِرے سے جنگ کے حق ہی میں نہیں ہوتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پُرامن زندگی بسر کریں یعنی کہیں سے کسی کے حملے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی پالیسیاں ہی بہت سے معاملات میں اتنی خرابی پیدا کرتی ہیں کہ نوبت مسلح تصادم تک پہنچتی ہے۔ ایک عام امریکی جنگ کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اور یہ بالکل منطقی بات ہے۔ جنگ کسی بھی اعتبار سے ایسا آپشن نہیں جس کے بارے میں پُرامید اور خوش گمان ہوکر سوچا جائے۔ بیشتر امریکی یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جس جنگ میں امریکا ملوث ہو، اس کے طول پکڑنے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ایسے میں وہ کیوں چاہیں گے کہ تباہی اور بربادی کے حق میں رائے دیں؟
اب آیے اِس سوال کی جانب کہ جب لوگ جنگ کو پسند نہیں کرتے تو اُس کے حق میں کیوں سوچنے لگتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ فی زمانہ مین اسٹریم میڈیا کو بھرپور تیاری کے ساتھ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکا سمیت تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اور پس ماندہ دنیا میں بھی میڈیا کو ہی رائے عامہ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہ میڈیا بیرونی دنیا کا ہوتا ہے! میڈیا ہی کے ذریعے رائے عامہ کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ عوام جنگ نہیں چاہتے مگر جنگی جنون پیدا کرکے اس سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے والے سیاست دان باور کراتے ہیں کہ جنگ کے بغیر چارہ نہیں۔ مین اسٹریم میڈیا کو بروئے کار لاکر ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میں لوگ رفتہ رفتہ جنگ کی حمایت کے حوالے سے سوچنے لگتے ہیں۔ جنگی جنون کو پروان چڑھانے اور اس کی حمایت یقینی بنانے کے لیے میڈیا کو اتنی عمدگی، باریکی اور نزاکت سے بروئے کار لایا جاتا ہے کہ عام آدمی کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اُس کے ذہن میں کیا کیا انڈیلا جارہا ہے۔ ماہرین کی مدد سے ایسے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، جن کی مدد سے رائے عامہ کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا ممکن ہو۔ جنگی جنون کی راہ پر گامزن رہنے والے سیاست دان رائے عامہ کو جنگ پسندی کی طرف موڑ کر عوام کو کئی حوالوں سے مجبور کردیتے ہیں کہ وہ دفاعی اور جنگی اخراجات میں اضافے کو بخوشی قبول کریں اور ساتھ ہی ساتھ یہ سوچتے جائیں کہ ملک کی جنگی مشینری کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا اور جنگ کے ’’ثمرات‘‘ بھگتنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیاری کی حالت میں رہنا حب الوطنی کا انتہائی بنیادی تقاضا ہے۔
عوام کے ذہن کو جنگ کی طرف موڑنے میں مرکزی کردار نیوز چینل ادا کرتے ہیں۔ امریکا میں سی این این، این بی سی، اے بی سی، فاکس اور دیگر نیوز چینلوں نے جنگ پسند ذہنیت کو پروان چڑھانے میں ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ تمام چینل اتنے مضبوط اور ماہرین کی خدمات سے اس حد تک مزیّن ہیں کہ اِن کی کہی ہوئی بیشتر باتوں کو لوگ سچ سمجھ لیتے ہیں اور پھر اِس سچ کی کِھڑکی سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ سیاستدان نیوز چینلوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور پھر اُنہیں اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ نیوز چینل معروضیت کے تمام اصولوں اور تقاضوں کو یکسر نظر انداز کرکے وہی راگ الاپنے لگتے ہیں، جو جنگی جنون کی بات کرنے والے سیاست دانوں کی زبان پر ہوتا ہے۔ نیوز چینل کسی بھی ملک کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرتے ہیں تاکہ ملک کی افواج جب اس ملک پر حملہ کریں تو عوام کی طرف سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور انہیں اپنے ضمیر پر بوجھ بھی محسوس نہ ہو۔
امریکی جنگی مشین کو مضبوط کرنے اور جنگی جنون کو پروان چڑھانے میں مین اسٹریم میڈیا کا کردار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ویسے تو ہر دور میں امریکی میڈیا نے جنگ پسند ذہنیت کو فروغ دیا ہے مگر اب یہ معاملہ باضابطہ فن اور پیشے کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ ۱۹۹۱ء میں امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے رکن رچرڈ ہیز نے خلیج کی جنگ کے خاتمے پر ملک کے سرکردہ رپورٹروں اور تجزیہ کاروں کو بلایا اور جنگ کے حوالے سے قومی مفادات کی تکمیل میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ رچرڈ ہیز نے اس جنگ میں ٹیلی وژن کے کردار کو خاص طور سراہا اور اُسے جنگ میں اہم ہتھیاروں میں شمار کیا۔
رچرڈ ہیز نے جو کچھ کہا وہ کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں تھا۔ خلیج کی جنگ کی ۲۴ گھنٹے کوریج کی جاتی تھی۔ اس کوریج کو ایگزون اور جنرل الیکٹرک کی اسپانسر شپ حاصل تھی۔ جنگ کی کوریج پر امریکی محکمہ دفاع کی نظر رہتی تھی اور کوئی بھی چیز اس کی رضامندی یعنی کلیئرنس کے بغیر آن ایئر نہیں کی جاسکتی تھی۔ نیوز چینلوں نے یہ تاثر پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا کہ امریکا کے پاس ایسے جدید ہتھیار ہیں جو دشمن کا غیر معمولی جانی و مالی نقصان یقینی بناتے ہیں اور اپنے نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھتے ہیں۔
بھیانک ترین حقیقت یہ ہے کہ امریکی نیوز چینل کسی بھی منتخب دشمن ملک کے خلاف رائے عامہ کو اس حد تک تبدیل کردیتے تھے کہ عام امریکی چکراکر رہ جاتا تھا۔ جب بھی کسی ملک پر حملے کا منصوبہ تیار کیا جاتا تھا، نیوز چینل اپنا کام شروع کردیتے تھے۔ دشمن ملک کے بارے میں طرح طرح کی بے بنیاد اور الجھی ہوئی رپورٹس تیار کرکے یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ جیسے اس وقت روئے زمین پر تہذیبی و اخلاقی اقدار اور ترقی کے عمل کا اس سے بڑا دشمن کوئی نہیں! سارا زور اس نکتے پر مرکوز رہتا تھا کہ دشمن ملک یکسر غیر مہذب ہے اور اگر اسے برباد نہ کیا گیا یا سبق نہ سکھایا گیا تو پوری تہذیب کی بنیادیں ہل جائیں گی۔
کئی سال تک این بی سی اور پی بی ایس میں نیوز انچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے لارنس گراس مین نے میڈیا کے کردار کو اس طور بیان کیا ہے: ’’صدر کا کام ہے کسی ایجنڈے کا تعین اور ہمارے حصے کا کام ہے، اس ایجنڈے پر عمل کرنا۔‘‘ اس ایک جملے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں جنگ پسند ذہنیت پیدا کرنے میں میڈیا کو کس حد تک استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے۔ خلیج کی جنگ کے دوران اور افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا گیا ہے اس کے دوران امریکی صحافی بھی فوج کے ساتھ Embedded رہے، یعنی اُنہوں نے فوج کے ساتھ رہ کر محاذ سے جنگ کو اُسی طور کور کیا، جس طور فوج اور حکومت چاہتی تھی۔
سیاسی قیادت جو کچھ بھی طے کرتی ہے اُسے میڈیا کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے، عمل کی منڈی میں پیش کیا جاتا ہے۔ جب ایک بار ایجنڈا طے کردیا جائے تو میڈیا کی ذمہ داری صرف اس قدر رہ جاتی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے ہر آؤٹ لیٹ سے ایک ہی پیغام سامنے آتا ہے۔ کسی بھی بڑے میڈیا آؤٹ لیٹ کی اپنی مرضی، کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ صرف سرکاری ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اُن سے کیا کرنے کو کہا جارہا ہے اور اِس کے صِلے میں کیا ملے گا۔ میڈیا کی معروضیت اور بنیادی اصول کب کے ٹھکانے لگائے جاچکے ہوتے ہیں۔ جب تمام بڑے نیوز چینل ایک ہی بات کر رہے ہوتے ہیں تو عوام اُسی بات کو درست ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یوں رائے عامہ کا رخ جنگ پسندی یعنی جنگی جنون کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ میڈیا کو مذموم ریاستی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا ایسا قبیح فعل ہے، جس کی روک تھام اب بہت حد تک ناممکن ہوچکی ہے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب بھی سیاسی قیادت کسی جنگ یا جنگی کارروائی کے لیے فوجیوں کو بیرون ملک بھیجنے کی بات کرتی ہے تو تمام نیوز اور بزنس نیٹ ورکس فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور حمایت شروع کردیتے ہیں! عوام بھی کبھی کبھی حیران رہ جاتے ہیں کہ تمام چینل اور بزنس نیٹ ورکس ایک ہی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا میں جنگ کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ اہتمام اس لیے کیا جاتا ہے کہ کوئی ایک بڑا میڈیا آؤٹ لیٹ بھی اگر جنگ کے خلاف جارہا ہو تو ملک میں کسی حد تک انتشار برپا ہونے کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔ امریکی قیادت جب پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی متعارف کراتی ہے یا طے شدہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتی ہے تب کوئی بھی بڑا، موثر اختلاف برداشت نہیں کرتی۔
امریکا میں مین اسٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام نیوز چینل جنگی جنون کی حمایت کیوں کرتے ہیں اور جب کبھی بیرون ملک فوجی بھیجنے کی بات کی جاتی ہے تو کھل کر اس کے حق میں کیوں بولتے ہیں، یہ جاننے کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ نیوز چینلوں کی پشت پر کون ہے۔
امریکا میں تمام نیوز چینل بڑی کارپوریشنوں کے ہیں۔ این بی سی ’’جنرل الیکٹرک‘‘ کا ہے۔ سی بی ایس کا مالک ’’وِزکام‘‘ ہے۔ اے بی سی کی ملکیت ’’ڈزنی‘‘ کے پاس ہے۔ فاکس نیوز کی ڈور نیوز کارپوریشن کا مالک ’’ریوپرٹ مرڈوک‘‘ ہِلاتا ہے اور سی این این کا کرتا دھرتا ’’ٹائم وارنر‘‘ جیسا ادارہ ہے۔ ان تمام اداروں کے ڈائریکٹر اسلحہ ساز اداروں کے ساتھ ساتھ ان تمام کاروباری اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا بھی حصہ ہیں جن کے مذموم مقاصد اور مفادات ہیں اور جن کے لیے جنگی جنون کا پروان چڑھایا جانا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ان اداروں میں بوئنگ، کوکا کولا، ٹیگزیکو، شیوران، ای ڈی ایس، لیوسنٹ، ڈائملر، کرسلر، سٹی گروپ، زیروکس، فلپ مورس، ورلڈ کام، جے پی مورگن، چیز، راک ویل آٹومیشن اور ہنی ویل وغیرہ شامل ہیں۔
بڑے کاروباری اداروں کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے اور وسعت یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والے نیوز چینل اور اخبارات و جرائد ہی رائے عامہ کو اِن اداروں کی مرضی کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ یہی چینل اور اخبارات و جرائد عوام کو ان کی ضرورت کی ہر چیز بتاتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے ان پر یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ جو کچھ انہیں بتایا جارہا ہے وہی حقیقت ہے، باقی سب تو محض افسانہ ہے۔
ٹیلی وژن انڈسٹری کو کنٹرول کرنے والے کاروباری ادارے اسلحہ ساز اداروں سے مکمل طور پر جڑے ہوئے اور ہم آہنگ ہیں۔ یعنی امریکا کے تمام بڑے کاروباری اداروں کا حقیقی مفاد اس امر سے وابستہ ہے کہ ملک ہر وقت حالتِ جنگ میں رہے اور وہ وقت ہی نہ آئے جب دنیا میں ہر طرف امن ہو اور بیرون ملک امریکی فوجی بھیجنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ امریکی اسلحہ ساز ادارے بڑی کاروباری کارپوریشنوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ مختلف خطوں میں حالات دگرگوں رہیں، شدت پسند گروہوں اور حکومتوں کو اسلحے کی ضرورت محسوس ہوتی رہے اور یوں اسلحہ سازی جاری رہے۔
جنرل الیکٹرک کا شمار امریکا کے بڑے ملٹری کنٹریکٹر میں ہوتا ہے۔ یہ ادارہ فوج کی ضرورت کے مطابق کئی چیزیں بڑے پیمانے پر تیار کرتا ہے۔ آیے، جنرل الیکٹرک کی میڈیا ایمپائر کا جائزہ لیں۔ جنرل الیکٹرک نے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ امریکی محکمہ دفاع سے اس سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔ یہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے منشور پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔
جنرل الیکٹرک ملک کا تیسرا بڑا ملٹری کنٹریکٹر ہے۔ اُسے ہر سال اربوں ڈالر کے ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ جنرل الیکٹرک امریکا کے ہر جوہری ہتھیار کے پُرزے، امریکی ایئر فورس کے لڑاکا طیاروں کے انجن اور امریکی محکمہ دفاع کے لیے زیادہ سے زیادہ کارگر اور منافع بخش الیکٹرانک آلات تیار کرتا ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جس نے امریکی ریاست واشنگٹن میں ہینفرڈ کے جوہری مرکز سے انتہائی تابکار مواد خارج کیا اور جس کے تیار کیے ہوئے ناقص جوہری بجلی گھر دیہی علاقوں میں آج بھی آپریشنل ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل الیکٹرک ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں کس مقام پر ہے اور جنگی جنون کو پروان چڑھانے میں اس ادارے کا کردار کیا رہا ہے۔
جنرل الیکٹرک کے ٹاپ ایگزیکٹیو کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر اسے محکمہ دفاع سے ہر سال اربوں ڈالر کے کنٹریکٹ حاصل کرتے رہنا ہے تو لازم ہے کہ میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں کیا جائے تاکہ عوام کو یہ ماننے پر مجبور کیا جائے کہ ملک کو زیادہ سے زیادہ دفاعی اخراجات کی ضرورت ہے۔ ۱۹۵۰ء میں اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جنرل الیکٹرک کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین چارلس ولسن کو آفس آف ڈیفنس موبلائزیشن کا سربراہ مقرر کیا۔ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد چارلس ولسن نے نیوز پیپر پبلشر ایسوسی ایشن کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اگر میڈیا کے ذریعے عوام کو یقین نہ دلایا جائے کہ آزاد دنیا تباہی کے خطرے سے دوچار ہے تو کانگریس کبھی اُن غیر معمولی جنگی اخراجات کی منظوری نہیں دے گی، جن کے حوالے سے سفارشات منتخب ایوانوں میں رکھی گئی ہیں۔ پریس نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ بے فکر ہوکر ہدف کی طرف بڑھیں۔ اب یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کہ عوام کو یہ باور کراتے رہیں کہ اگر حقیقی تباہی کو امریکی سرزمین سے دور رکھنا ہے تو لازم ہے کہ امریکا کی دفاعی قوت میں مستقل بنیاد پر اضافہ یقینی بنایا جاتا رہے‘‘۔
جنرل الیکٹرک کے بورڈ آف ڈائریکٹر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر امریکا میں جنگی جنون پروان چڑھتا رہا اور دفاعی اخراجات کے نام پر خطیر رقوم معاشرتی بہبود کے پروگراموں سے منہا کرکے دفاعی بجٹ میں شامل کی جاتی رہیں تو ان میں سے معتدبہ حصہ جنرل الیکٹرک کو بھی ملے گا۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے جنرل الیکٹرک نے خود بھی میڈیا بزنس میں قدم رکھا۔ عوام کے ذہن جنگ پسندی کی طرف موڑنے کے لیے جنرل الیکٹرک نے اس وقت کے معروف اداکار رونالڈ ریگن کی خدمات حاصل کیں۔ ریگن کو جنرل الیکٹرک کا کارپوریٹ ترجمان مقرر کیا گیا۔ رونالڈ ریگن کو، جو بعد میں دو اداوار کے لیے امریکا کے صدر بھی منتخب ہوئے، خصوصی ٹی وی شو بھی دیا گیا جس کا نام جی ای تھیٹر تھا۔ بس اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، جنرل الیکٹرک نے رونالڈ ریگن کو جنگی جنون پروان چڑھانے والے پیغام ’’دی اسپیچ‘‘ سے مُزیّن کرکے ملک کے کونے کونے میں بھیجا تاکہ وہ کمپنی کا پیغام عوام تک پہنچائے اور انہیں جنگ پسند ذہنیت اپنانے کی ترغیب دے۔
جنرل الیکٹرک نے میڈیا بزنس کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد محض رونالڈ ریگن کی خدمات حاصل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ملک بھر میں ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن خریدنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ ادارہ راتوں رات میڈیا انڈسٹری کا نو گزا پیر بننا چاہتا تھا۔ راتوں رات بھرپور کامیابی اسی طور حاصل کی جاسکتی تھی۔ امریکا بھر کے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن خریدنے کے بعد جنرل الیکٹرک نے ۱۹۸۶ء میں اپنا باضابطہ نیوز چینل شروع کیا، جس کا نام ’’این بی سی‘‘ رکھا گیا۔
جنرل الیکٹرک اور دیگر بڑے کاروباری ادارے میڈیا ہاؤسز بھی چلاتے ہیں۔ یہ ادارے اپنے میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے جو خبریں اور تجزیے پیش کرتے ہیں، وہ کسی بھی صورت غیر جانبدار نہیں ہوسکتے۔ سب کچھ بہت پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتا ہے۔ ایسے میں غیر جانب دار رہنے کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے؟ جنگ، امن یا کسی اور معاملے کے حوالے سے جو بھی خبر ہم تک پہنچتی ہے، وہ ان تمام بڑے کاروباری اداروں کے فلٹر سے ہوتی ہوئی آتی ہے۔ ایسے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ یہ ادارے اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے والا کوئی آئٹم آن ایئر جانے دیتے ہوں گے۔ یہ ادارے ہر خبر اور تجزیے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مگر خیر، ایسا نہیں ہے کہ ہر اعتبار سے مایوس ہوکر گوشہ نشینی اختیار کی جائے۔ مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے جو زہر ذہن کی رگوں میں اتارا جارہا ہے اس کا تریاق تلاش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
امریکا بھر میں ایسے گروپ موجود ہیں، جو جنگ پسند ذہنیت کے تریاق کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اِن گروپس کو اندازہ ہے کہ اگر اِنہوں نے اپنا کام نہ کیا اور جنگ پسندی کے خلاف دیوار بن کر کھڑے نہ ہوئے تو رفتہ رفتہ پوری سیاست صرف جنگ پسندی کی سیاست ہوکر رہ جائے گی اور بہبودِ عامہ کے منصوبوں پر لگانے کے لیے برائے نام بھی رقم نہیں بچے گی۔ جنگ کے خلاف کام کرنے والے گروپ امریکا بھر میں سرگرم ہیں اور بنیادی طور پر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے اپنی بات عوام تک پہنچاتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو جنگ سے نفرت کی تحریک دیتی ہیں تاکہ رائے عامہ میں تبدیلی رونما ہونے پر سیاسی و عسکری قیادت کو بھی پالیسی کے حوالے سے کسی حد تک دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔ جنگ پسندی کے خلاف کام کرنے والے گروپ اب تک اتنے کامیاب نہیں ہوئے کہ ملک میں کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما ہو مگر خیر، مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ گروپ اپنا کام کر رہے ہیں اور ان کا ساتھ دینے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ حامیوں میں اب سابق فوجی بھی شامل ہیں، جو ریاستی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور اس بات کو کھل کر بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کے انتہائی قابل نوجوانوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکا جارہا ہے۔
Leave a Reply