
زیر نظر کتاب کا بنیادی خیال امریکی صحافی اور تجزیہ کار Joel Andreas کی تصویری کتاب Addicted to War سے ماخوذ ہے۔
امریکی سرزمین پر بسنے والوں نے ۱۷۷۶ء میں جب آزاد فضا میں سانس لینا شروع کیا تب اِس کے بانیان کی آنکھوں میں بہت سے خواب تھے۔ یہ خواب اُن کی اُمنگوں کے آئینہ دار تھے۔ زیادہ سے زیادہ طاقت اور خوش حالی کا حصول ہر دور کے انسان کی خواہش رہا ہے۔ اِنسانی فطرت کے اِسی پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکا کی جنگِ آزادی کے مرکزی کرداروں نے شبانہ روز محنت کے ذریعے آزادی کا ایسا فرمان جاری کیا، جس میں ریاست کے تمام مقاصد بھی سمائے ہوئے تھے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے مُحرّکات بھی کماحقہ بیان کردیئے گئے تھے۔ فرمانِ آزادی کے اجراکا بنیادی مقصد یہ تھا کہ امریکا یا اُس سے باہر کسی کے ذہن میں نئے امریکا کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ امریکی فرمانِ آزادی کا مُسوّدہ صدر تھامس جیفرسن نے تیار کیا تھا۔ اُنہوں نے لکھا۔ ’’تاریخ پر نظر دوڑایے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی یہ لازم سا ہو جاتا ہے کہ معاشرے یا افراد ایک دوسرے سے تعلق ختم کریں اور زیادہ سے زیادہ طاقت کا حُصول یقینی بنانے کے لیے نئی اور بڑی اِکائی کھوجیں یا قائم کریں۔‘‘ یعنی یہ لازم سا ہوگیا کہ امریکا نئے دوست تلاش کرے، نئے حلیفوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھے۔ امریکا کے اوّلین قائدین نے دنیا بھر کے حالات کا جائزہ لے کر یہ طے کردیا کہ اِس نئی آزاد ریاست کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ اور اِس قائدانہ کردار کے لیے زبردست تیاری بھی کرنا تھی۔ امریکی فرمانِ آزادی کا بغور مطالعہ کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلے ہی میں ملک کی نئی سمت کا جامعیت کے ساتھ تعیّن کردیا گیا تھا۔ یہ سمت اپنی طاقت میں بے حساب اضافے کے ساتھ دوسروں اور بالخصوص کمزوروں کو زیادہ سے زیادہ کچلنے کے سِوا کچھ نہ تھی۔
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا امریکیوں کے لیے آسان نہ تھا۔ یہ مقصد بہت بڑے پیمانے پر قُربانیاں مانگتا تھا۔ اور قُربانیاں دی بھی گئیں۔ امریکی انقلابی برطانوی شہنشاہ جارج کی فوجوں کے مقابل ڈٹ گئے۔ وہ اپنی دھرتی کو ہر قیمت پر آزاد کرانا چاہتے تھے۔ امریکی انقلابیوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اُسے اپنے مستقبل کے تعیّن کا حق دلاکر ہی دم لیں گے اور اُنہوں نے واقعی ایسا کردکھایا۔
امریکا کو غلامی کے شکنجے سے نکالنا ایک عظیم مقصد تھا، جس کے لیے غیر معمولی جذبے کے ساتھ برطانوی افواج کا سامنا کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ امریکا میں بہت کچھ الٹ پلٹ گیا۔ بہت سی ہنستی گاتی بستیاں اُجڑ گئیں۔ معیشت غیر متوازن ہوگئی۔ معاشرہ شدید عدم استحکام سے دوچار ہوا۔ جب قتل و غارت اور عدم استحکام کی گرد بیٹھی تو امریکا آزاد ہوچکا تھا۔ امریکیوں نے برطانوی راج کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کی حیثیت سے دُنیا کے سامنے پیش ہوکر زندگی کا نیا سفر شروع کیا۔ یا یُوں کہہ لیجیے کہ نئی زندگی کی ابتداء کی۔
معاشروں میں خواہ کتنا فرق ہو، وہ اِنسانوں ہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ امریکی معاشرہ بھی اِنسانوں ہی پر مشتمل تھا۔ دوسرے معاشروں کے انسانوں کی طرح امریکی معاشرے میں بھی اچھے خصائل کے ساتھ ساتھ بُرے اوصاف بھی تھے مگر جب امریکیوں نے غلامی کا طوق اُتار پھینکنے کے لیے ہتھیار اُٹھائے اور برطانوی افواج کا ڈٹ کر سامنا کیا تو دُنیا نے اُنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اُنہیں وہ احترام دیا جو آزادی کے لیے غیر معمولی قُربانیاں دینے والی کسی بھی قوم کے حصے میں آتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکیوں نے آزادی کا حق ادا کیا۔ بہت غور کیجیے اور حقائق کا جائزہ لیجیے تو اِس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ آزادی کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ غلامی کا طوق گردن سے اُتار پھینکنے کے بعد دوسروں کی آزادی کا بھی احترام کرتے ہیں۔ طویل مدت تک دوسروں کے زیرِ دست رہنے سے اُنہیں اِتنا تو اندازہ ہو ہی چکا ہوتا ہے کہ زیر دست رہنا کیا ہوتا ہے اور غلامی کِس عذاب کا نام ہے۔ دنیا بھر میں جن اقوام نے بیرونی تسلّط سے چُھٹکارا پایا ہے اُنہوں نے بعد میں اپنی آزادی کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خود مختاری کی وقعت بھی محسوس کی ہے اور بہتر و مساوی تعلقات یقینی بنانے کے لیے کام کیا ہے۔
امریکا کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا یا شاید بہت کم ہوا۔ جو لوگ آزادی کی دولت پانے کے لیے بہت بے تاب تھے وہ اِس نعمت کو پانے کے بعد اپنے آپ سے اور اپنے رب سے کیے ہوئے تمام وعدے بُھول کر اُسی ڈگر پر چل دیے جس پر استعماری قوتیں گامزن رہی ہیں یعنی کمزوروں کا استحصال کرنے پر تُل گئے اور استحصال بھی ایسا کہ امریکا کو آزادی دلانے کی جدوجہد کے دوران ریاست کے جو مقاصد بیان کیے گئے تھے وہ سب کے سب محض ہدفِ استہزاء بن کر رہ گئے۔
امریکیوں نے اپنی گردنوں سے برطانوی غلامی کا طوق اُتار پھینکنے کے بعد غلامی کو جڑ سے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کے بجائے اپنی بھرپور خوش حالی کے لیے غلامی ہی کو بہترین آپشن کی حیثیت سے اپنانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ اِس بات کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ جس لعنت سے چُھٹکارا پانے کے لیے عشروں تک جدوجہد کی گئی اور گردنیں کٹوائی گئیں اُسی لعنت کو امریکیوں نے دوسروں پر مُسلّط کرنے کا ذہن بنالیا! امریکی معاشرے میں غلامی کی لعنت موجود تھی۔ افریقا سے جن لوگوں کو غلاموں کی حیثیت سے خرید کر لایا گیا تھا اُن کے لیے آزاد اور خوشحال زندگی کو ایک خواب ہی رہنے دیا گیا۔ افریقی نسل کے امریکیوں کو حیوانات کی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ جب اِس سے بھی تشفّی نہ ہوئی تو سفید فام امریکیوں نے غلامی کا دائرہ وسیع کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ جو کچھ کرنا اور حاصل کرنا چاہتے تھے اُس کے لیے محض افریقی نسل کے غلام کافی نہ تھے۔ اب اُنہیں نئے غلام تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اپنے مستقبل کا تعیّن کرنے کی طاقت اور اختیار حاصل کرنے کے بعد امریکی انقلابی سُکون سے نہیں بیٹھے بلکہ دوسری اقوام، معاشروں اور خطوں کا مستقبل مُتعیّن کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اُن پر یہ نشا ایسا چڑھا کہ اب تک نہیں اُترا۔ آزادی کے بعد ابتدائی دور میں پیدا ہونے والی فِکری کجی نے بہت سے پڑوسیوں کا جینا حرام کیا۔ سب کو سیدھا کرنے کے جُنون کا آغاز اپنی ہی سرزمین سے ہوا۔ لاکھوں ریڈ انڈینز کو زندگی کے حق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ افریقی نسل کے امریکیوں کو شدید جبر کے تحت غیر انسانی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا۔
جس غلام معاشرے نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی اُس نے اچانک یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اِس دُنیا کے خالق نے اُسے پورے شمالی امریکا پر حکمرانی کے حق اور اختیار کے ساتھ آسمان سے اُتارا ہے! اِس معاملے میں امریکیوں کی سوچ ایسی راسخ ہوتی گئی کہ کچھ ہی مُدّت بعد اُن کے ذہنوں میں اِس حوالے سے کوئی اِشکال یا ابہام نہ رہا۔ یعنی اُنہیں ’’از خود نوٹس‘‘ کے تحت یقین ہوگیا کہ حکم چلانا اُن کا پیدائشی استحقاق ہے اور اُن کے ہر حکم کی تعمیل کرنا دوسروں (غیر سفید فاموں) کا مقدور! اِسی کو اُنہوں نے اپنے لیے غیر ارضی یا فقید المثال مستقبل قرار دیا۔ اور پھر اِس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے راہِ عمل پر چل پڑے۔
جو کچھ امریکا کے سفید فام اپنے لیے حاصل کرنا چاہتے تھے وہ بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور خون خرابے کا طالب تھا۔ دوسروں سے کچھ چھیننے کی خواہش ہو تو مزاحمت کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ امریکی سرزمین پر بھی یہی کچھ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سفید فام امریکیوں کے ذہنوں میں حکمرانی کا کیڑا پروان چڑھتا گیا اور دوسری طرف غیر سفید فام نسلوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا چلا گیا۔
امریکی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں (ایوان نمائندگان) میں میری لینڈ سے منتخب ہونے والے Giles نے امریکی انقلابیوں کو ایک الگ ہی راہ دکھائی۔ اُن کا کہنا تھا۔ ’’ہمیں ایک بحر سے دوسرے بحر تک (یعنی پوری دنیا پر) مارچ کرنا چاہیے (یعنی حکم چلانا چاہیے) کہ گوروں کا یہی مقدور ہے، استحقاق ہے‘‘۔
اِس ایک جُملے سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ جو ملک اِنسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار کے تحفظ اور سیاست کے بہترین آئیڈیلز کو یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ آزاد کرایا گیا تھا اُسی نے صریح نسل پرستی کی راہ پر گامزن ہونے کی ابتداء کی۔ امریکا نے جیسے ہی غلامی کی جادو نگری کو ختم کیا، قائدین نے یہ طے کرلیا کہ غلامی کے جادو ہی سے آگے بڑھنا ہے، ترقی کرنی ہے اور دُنیا کو زیرِ نگیں رکھنا ہے۔
سفید فام امریکیوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی کہ اُنہیں اِس دنیا میں صرف اِس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ غیر سفید فام یعنی ’’کلرڈ‘‘ اقوام پر حکومت کریں، اُنہیں ہمیشہ اپنے زیرِ نگیں رکھیں، ضرورت پڑے تو اُن کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کریں اور جہاں جہاں ناگزیر ہوں نسلی تطہیر سے بھی گریز نہ کریں۔ اگر گوروں کو یہ ثابت کرنا تھا کہ اُنہیں دُنیا بھر کی (ظاہر ہے غیر سفید فام) اقوام پر حکمرانی کے لیے نازل کیا گیا ہے تو پھر لازم تھا کہ بہت سوں کا راج ختم کرکے اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹادیا جاتا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی کیا گیا۔ ایسا کیے بغیر سفید فام نسل کی حکمرانی قائم ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ فقیدالمثال اور آسمانوں میں طے ہونے والا مستقبل حقیقی اور یقینی بنانے کے لیے حقیقت کی دنیا میں ابتداء امریکی سرزمین کے قدیم باشندوں یعنی ریڈ انڈینز سے کی گئی۔ امریکی فوج نے ریڈ انڈینز کی بڑی بڑی آبادیوں کو اُن کے گھروں اور علاقوں سے بے دخل کرکے اُن کی زمینوں پر قبضہ کیا اور تمام مکینوں کو مغرب کی طرف کوچ کرنے پر مجبور کیا۔ امریکا کے جن قدیم باشندوں نے اِس ظلم اور زیادتی کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اُنہیں انتہائے سَفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سفید فام امریکیوں کی نظر میں ہر اُس اِنسان کی کچھ بھی وقعت نہ تھی، جو اُن کے مقاصد کی راہ میں رُکاوٹ بنتا ہو یا بن سکتا ہو۔ جب اِنسانوں کا کوئی گروہ خود کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے تمام اُصولوں اور اقدار کو بالائے طاق رکھ دے تو صرف یہی ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ طاقت زیادہ سے زیادہ استعمال کی جائے اور مخالفین کو جس قدر کچلا جاسکتا ہے، کچلا جائے۔
دنیا بھر میں ایسی اقوام کی کمی نہیں جو دوسری اقوام کو زیرِنگیں کرتی ہیں، ریاستیں اور سلطنتیں قائم کرتی ہیں، اپنی طاقت اور لیاقت کا لوہا منواتی ہیں، دنیا سے بہت کچھ لیتی اور اُسے جواب میں بہت کچھ دیتی ہیں اور اِس پُورے عمل میں ایک طرف تو وہ بدنامی اور تذلیل سے دوچار ہوتی ہیں اور دوسری طرف اُن پر داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے ہیں۔ ہر دور کی بڑی طاقتوں نے دُنیا سے بہت کچھ چھینا اور اُسے بہت کچھ دیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ظالم و جابر ریاستوں میں شدید اندرونی ردعمل کے مظہر کے روپ میں اصلاح پسند اُٹھے اور اُنہوں نے دنیا کو بہتر زندگی کے آداب سکھائے۔ دوسروں پر راج وہی قوم کرسکتی ہے جو خود کچھ ہو اور اپنی لیاقت کو طاقت میں تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو۔ مگر راج کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جسے زیرِ نگیں کیا جائے اُس کا وجود ہی مٹادیا جائے یا ثقافتی و علمی شناخت ختم کردی جائے۔ سفید فام امریکیوں نے ریڈ انڈینز کو کچلنے کے معاملے میں رحم اور کرم کے تصور کا ہر جُز اپنے ذہنوں سے کُھرچ کر پھینک دیا۔ انقلاب کے بعد کی پہلی صدی میں امریکا کے اصل باشندوں کو چُن چُن کر ختم کیا گیا۔ اُن کے علاقے چھین لیے گئے، زمینوں پر قبضہ جمالیا گیا۔ جو تھوڑے بہت لوگ رہ گئے تھے اُنہیں ’’ریزولیوشنز‘‘ کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ آج امریکی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے بھی نہیں جانتے کہ کتنے ریڈ انڈینز کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اِس حوالے سے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں مُستند ریکارڈ کسی کے پاس نہیں۔ یہ ریکارڈ آئے بھی کہاں سے؟ جب ریڈ انڈینز کو تباہی سے دوچار کیا جارہا تھا تب اُن سے وابستہ ہر چیز، ہر تصور کو ختم کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی گئی۔
ریڈ انڈینز پر ڈھائے جانے والے مظالم زیادہ بھیانک اِس اعتبار سے بھی تھے کہ اُن کے قتلِ عام پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اُن کی پوری ثقافتی شناخت ہی ختم کردی گئی۔ انقلابی یعنی سفید فام امریکی طاقت اور برتری کے نشے میں ایسے چُور تھے کہ کمزور اور بُجھی ہوئی رنگت کا ہر اِنسان اُن کے نزدیک زندہ رہنے کا حقدار ہی نہ تھا۔ نسل پرستانہ تصور کے ساتھ یہ برتری کے جُنون کا انتہائی درجہ تھا۔
’’اپنوں‘‘ سے فارغ ہونے کے بعد امریکی انقلابیوں نے اڑوس پڑوس پر نظریں جمانا شروع کیا۔ جو کچھ ریڈ انڈینز کے ساتھ کیا گیا تھا وہی کچھ میکسیکو کے باشندوں سے بھی روا رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ میکسیکو سے زیادہ سے زیادہ زمین ہتھیانے کا عمل شروع کیا گیا جو نصف صدی تک جاری رہا۔ امریکا ۱۸۴۸ء تک میکسیکو کی نصف سے زائد زمین ہتھیاچکا تھا۔ میکسیکو میں کئی نسلیں آباد تھیں۔ اِن تمام نسلوں سے امریکا نے کم و بیش وہی سُلوک کیا، جو ریڈ انڈینز کے مقدر میں لکھا تھا۔ کوئی بھی قوم یا نسلی گروہ اپنی زمین آسانی سے کہاں چھوڑتا ہے؟ ریڈ انڈینز کی طرح میکسیکو میں آباد نسلوں نے بھی امریکی طوفان کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ امریکیوں کی طاقت زیادہ تھی۔ وہ زیادہ منظّم بھی تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنہیں ہر قیمت پر اپنے ملک کی سرحدوں اور طاقت کو وسعت دینا تھی۔ اور یہ قیمت اُنہیں ادا کرنا تھی جنہیں امریکا کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا تھا۔
میکسیکو میں صدیوں سے آباد نسلوں کے لیے امریکی توسیع پسندی نے موت کے پیغام کا کردار ادا کیا۔ اِس توسیع پسندی کی بھینٹ چڑھنے والوں میں میکسیکو کے باشندے بھی نمایاں تھے۔
امریکی لکوٹا برادری کے مذہبی پیشوا اور جنوبی ڈکوٹا میں انتہا پسند تنظیم ’’وُنڈیڈ نِی‘‘ (Wounded Knee) کے جان لیوا حملے میں بچ جانے والے بلیک ایلک نے کہا تھا۔ ’’مجھے اب بھی عورتوں اور بچوں کی لاشوں اور باقیات کے ڈھیر یاد ہیں۔ میں نے یہ ڈھیر جوانی میں دیکھے تھے۔ خُوں رنگ مِٹّی میں لاشوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ دفن ہوگیا۔ جن بے گناہوں کو سَفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتارا گیا اُن کے ساتھ اُن کے سپنے بھی ہمیشہ کے لیے مِٹّی میں مل گئے۔ دھاگا ٹوٹا تو مالا کے سارے موتی بکھر گئے‘‘۔
امریکا کے انقلابیوں اور امریکا کی سرحدوں کو ہر حال میں وسعت دینے پر یقین رکھنے والوں نے جو کچھ میکسیکو میں کیا وہ ہر اُس اِنسان کو آزردہ کرنے کے لیے کافی تھا، جس کے سینے میں دھڑکنے کے ساتھ ساتھ تڑپنے والا دِل بھی ہو۔ مگر امریکا میں کم ہی لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ اُنہوں نے کسی سے کوئی بُرا سلوک روا رکھا ہے۔ میکسیکو کے باشندوں پر بھی زمین تنگ کردی گئی، اُن کا جینا دُوبھر کردیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ درست یا جائز تھا؟ ظاہر ہے کہ میکسیکو کے باشندوں پر امریکی انقلابیوں اور آزادی پسندوں کے مظالم کو کسی بھی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا مگر حیرت اور شرم کی بات یہ ہوئی کہ امریکی کانگریس نے میکسیکو میں امریکی کارروائیوں کو بالکل درست، مناسب، حالات سے ہم آہنگ اور بروقت قرار دیا۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر شرم ناک بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا گیا! امریکی قائدین اور اہلِ دانش نے جمہوریت کے آئیڈیلز کو امریکی معاشرے کے لیے لازمے کی سی حیثیت دی تھی۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ امریکا حقیقی آزادی کا مفہوم ساری دُنیا کو سمجھائے گا۔ جمہوریت پسندی کا کلچر متعارف کرانے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ دُنیا کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ امریکا ساری دنیا میں اصلاحات کا پرچم لہرا رہا ہے۔ امریکی اہلِ دانش نے اپنی تحریروں کے ذریعے مساوات، جمہوریت اور باہمی احترام کا درس دیا مگر عملی سطح پر ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ عوام کی حکومت قائم کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا اُس کی پُشت پر زیادہ سے زیادہ زمین اور دولت حاصل کرنے کا مقصد تھا۔ بہت جلد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امریکا جمہوریت چاہتا ہے نہ حقوق کا احترام۔ اور یہ کہ مساوات کے تصور کو عملی شکل دینا بھی اُس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ جو کچھ بھی کیا جارہا تھا اُس کی پُشت پر زیادہ سے زیادہ طاقت کے حُصول کی خواہش کارفرما تھی تاکہ کمزوروں کو دبوچ کر اُن کے وسائل پر قبضہ کیا جاسکے۔
کیا میکسیکو کے خلاف امریکی فوجی کارروائیوں کی راہ میں دیوار بننے والا کوئی نہ تھا؟ کیا تمام امریکیوں کا ضمیر سوگیا تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ ہر معاشرے یا ملک میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی غیر اُصولی اور ظلم پر مبنی بات یا اقدام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حکومتی پالیسیوں کو یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ ایسے باضمیر لوگ امریکا میں بھی تھے۔ میکسیکو میں جب امریکی فوج نے کارروائیوں کا آغاز کیا تو اُسے اپنے ہی عوام کی طرف سے بھی مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی فوج کے پاس آگے بڑھنے اور اپنے قائدین کے طے کردہ مقاصد کے حُصول کا صرف ایک راستہ تھا۔ یہ کہ نہتّے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے، اُن سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جائے۔ امریکی فوج نے جب بے قصور اور نہتّے شہریوں کو قتل کرنا شروع کیا تو بہت سے باضمیر امریکی فوجیوں نے بھی اِس عمل کی مخالفت کی اور شہریوں کو قتل کرنے سے انکار کردیا۔ جمہوریت کی سَر بُلندی اور انسانیت کے اعلیٰ ترین اُصولوں کی پاسداری کے نام پر ہتھیار اُٹھانے والی فوج میں کوئی عام، نہتّے شہریوں پر ہتھیار اُٹھانے اور اُنہیں موت کے گھاٹ اتارنے میں کچھ باک محسوس کرے یہ بات جنرل جیکری ٹیلر سے برداشت نہ ہوئی۔ اُس نے زندگی جیسی نعمت پر نظم و ضبط کو فوقیت دی۔ اُس کے نزدیک ہر حکم کی تعمیل کرنا ہی کسی فوجی کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ حکم کی خلاف ورزی اُس سے بالکل برداشت نہ ہوئی۔ اُس نے میکسیکو کی سرزمین پر لڑنے سے انکار کرنے والے سیکڑوں امریکی فوجیوں کو سزائے موت دے دی۔
امریکیوں نے سب سے پہلے تو بحر اوقیانوس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی بھرپور طاقت کے مظاہرے کو دیگر تمام اُمور پر ترجیح دی۔ مقصود یہ تھا کہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ ایک سپر پاور اُبھر رہی ہے، جو پوری دنیا پر اپنے اثرات قائم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ جب اِس کنارے سے اُس کنارے تک اپنا راج قائم ہوچکا تب ’’غیر ارضی مستقبل‘‘ کا خواب دیکھنے والے سوداگروں نے اپنی آنکھوں میں ایک عظیم الشان سامراجی یا استعماری اقتصادی ریاست کے قیام کا خواب سمویا۔ گویا بِلّی تھیلے سے باہر آگئی۔ امریکا نے جمہوریت، مساوات، بنیادی حقوق اور انسان دوستی کی جتنی باتیں کی تھیں وہ دکھاوے کے سِوا کچھ نہ تھیں۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی تھی۔ مقصود صرف یہ تھا کہ دنیا دھوکا کھا جائے اور ہر بُرے عمل کو کسی نہ کسی اچھے کی بنیاد پر سمجھ کر اُسی طرح قبول کرلے جس طرح آنکھوں دیکھی مَکّھی نِگلی جاتی ہے۔ امریکا جو کچھ کر رہا تھا وہ واضح طور پر صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ مالی منفعت یقینی بنانے کے لیے تھا۔ اقتصادی معاملات کو توسیع دینا مقصود تھا۔ اِس کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر تھا جو کیا گیا۔ اِس سوچ کے حامل لوگوں کا سربراہ (یعنی سرغنہ) کرنل چارلس ڈینبی تھا جو ایک ریل کمپنی کا مالک بھی تھا۔ اُس کی آنکھوں میں ایک ایسے امریکا کے خواب تھے جو دنیا بھر میں اپنی مرضی کی ہر چیز حاصل کرسکتا ہو، کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے اور دوسری قبور پر اپنا تاج محل تعمیر کرنے کے لیے ایسا ملک درکار تھا جو ہر قیمت پر آگے بڑھنے کا یقین رکھتا ہو۔ اس حوالے سے چارلس ڈینبی کے ذہن میں کوئی ابہام نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ امریکا سُرعت سے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کرے۔ اِس کے لیے عسکری مہم جوئی ناگزیر تھی۔ نوآبادیاتی طاقت بننے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر میدان میں آنے والے ملک کے لیے طاقت کا بے محابا استعمال ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ کرنل چارلس ڈینبی کا کہنا تھا۔ ’’ہمارا ملک جن حالات سے دوچار ہے وہ ہمیں بہتر کاروباری امکانات تلاش کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ اب سرحدوں سے باہر جانے کا سوچیں اور ایک ایسا اقتصادی نظام تشکیل دیں، جس میں ہمارے ملک کے لیے بہت کچھ ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ اشیا تیار کر رہے ہیں۔ اِس فاضل پیداوار کو بہتر انداز سے ٹھکانے لگانے کے لیے اب ہمارے لیے بیرونی منڈیاں تلاش کرنا ناگزیر ہوچلا ہے۔ ہمیں ایک ایسا بازار تلاش کرنا ہے جو سب سے بڑا ہو‘‘۔
کرنل چارلس ڈینبی نے امریکی توسیع پسندوں کے عزائم پوری صراحت کے ساتھ بیان کردیے۔ اُس نے بتادیا کہ امریکا عسکری سطح پر جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ معاشی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ہے۔ امریکی جنگِ آزادی کے دوران جن آئیڈیلز کی تشہیر کی گئی تھی اور لوگوں کو بہتر اور تابناک مستقبل کے خواب دکھاکر جس طور پُرجوش ہوکر میدان میں آنے کی تحریک دی گئی تھی وہ سب کچھ ایک طرف رہ گیا۔ مطمحِ نظر یہ ٹھہرا کہ اپنی طاقت میں غیر معمولی حد تک اضافہ کیا جائے اور نسبتاً کمزور اقوام کو زیر نگیں لانے کے معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔
امریکا آزاد تو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے ہوا تھا جس میں جمہوری اقدار کے پنپنے کی بھرپور گنجائش موجود تھی مگر اِس حوالے سے کیے جانے والے تمام معصومانہ دعوے یا وعدے راتوں رات یُوں غائب ہوگئے کہ لوگ سوچتے ہی رہ گئے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔
Leave a Reply