ویت نام پر لشکر کشی کی بھاری قیمت خود امریکا کو بھی ادا کرنا پڑی۔ ویت نام پر مُسلّط کی جانے والی اِس جنگ میں ۶۰ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجی ۳ لاکھ سے زائد تھے۔
غیر جانب دار ماہرین اور مبصرین کے تجزیوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکی لڑاکا طیاروں نے ویت نام میں جو بم برسائے اُن کے بارود کا مجموعی وزن ۷۰ لاکھ ٹن تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ویت نامی باشندے پر اوسطاً ۳۵۰ پاؤنڈ بارود برسایا۔ اِس چھوٹے سے ملک پر امریکیوں نے چار لاکھ ٹن نیپام بم بھی برسائے۔ ایجنٹ اورنج اور دیگر انتہائی خطرناک کیمیکلز کی بارش سے ویت نام میں کروڑوں ایکڑ زرخیز اراضی اور جنگلات کو تباہ کردیا گیا۔ اِتنے بڑے پیمانے پر بارود کے استعمال سے ویت نامیوں کا کیا حشر ہوا ہوگا، یہ بات تو وہی بتا سکتے ہیں جو انسانی جسم پر بارود کے اثرات کا درست ترین اندازہ لگانے کے ماہر ہیں۔
ویت نام کے کیس میں امریکی فوج کے لیے انتہائی شرمناک بات یہ ہوئی اُس کی بھرپور قوت اور مہارت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک انتہائی کمزور اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں پر مشتمل غیر تربیت یافتہ فوج نے شدید مزاحمت کی اور بالآخر امریکی فوج کو اِس قدر کمزور، غیر منظّم اور غیر تربیت یافتہ فوج کے ہاتھوں شکست کی ذِلّت سے دوچار ہونا پڑا۔
انڈو چائنا کو غیر مستحکم کرنے کی امریکی کوششیں بہت حد تک بارآور ثابت ہوئیں۔ امریکا نے ویت نام پر جو لشکر کشی کی تھی وہ دراصل چین کو دباؤ میں لینے کے ہتھکنڈے کے سِوا کچھ نہ تھی۔ امریکا چین سمیت پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ وہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر کسی بھی خِطّے میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ویت نام کی تباہی سے خِطّے کے تمام ممالک خوفزدہ ہوگئے۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ امریکا کے خلاف جانے کی صورت میں اُنہیں بھی بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔
ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں امریکا نے اپنے اثرات کو توسیع دینے کی جو کوششیں کی ہیں وہ اگرچہ مکمل طور پر تو کامیاب نہیں ہوسکیں تاہم پالیسی کے مقاصد نُمایاں حد تک حاصل ہوئے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ مختلف خِطّوں پر یہ جتادے کہ ضرورت پڑنے پر وہ کسی بھی معاملے میں طاقت کے بھرپور مظاہرے سے اجتناب نہیں برتے گا۔ انڈو چائنا کی جنگ میں چین کی قیادت کے لیے واضح پیغام تھا۔
انڈو چائنا سے فراغت پاکر امریکا نے مشرق وسطیٰ کو اپنا ہدف بنانے پر توجہ دی۔ لبنان کے سیاسی بحران کی کوکھ سے عسکریت پسندی نے جنم لیا۔ یہ امریکا کے لیے بھرپور موقع تھا جس سے اُس نے پوری طرح استفادہ کیا۔ امریکیوں کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ عرب ممالک لبنان اور اسرائیل کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ وہ ایک طرف تو تصادم کی راہ پر چلنے سے گریز کر رہے تھے اور دوسری طرف اُنہیں یہ فکر بھی لاحق تھی کہ خِطّہ غیر مستحکم ہوگیا تو اُن کے انفرادی مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ امریکا نے حالات کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔
اسرائیل نے جب ۸۳۔۱۹۸۲ء میں لبنان کے خلاف جنگ چھیڑی تب امریکا نے لبنان کی خانہ جنگی میں مداخلت کرتے ہوئے اسرائیل اور فاشزم پر یقین رکنے والی ملیشیا ’’فلانگ‘‘ کی بھرپور حمایت اور مدد کی۔ امریکا کی مداخلت سے فلانگ ملیشیا کو شہہ ملی اور یُوں دو ہزار سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ امریکیوں کو ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بیروت میں امریکی فوجیوں کی رہائشی بیرکس میں ایک ٹرک بم دھماکے سے ۲۴۱ فوجی مارے گئے۔
لبنان میں مداخلت کا واحد بڑا مقصد یہ تھا کہ خطے کے تمام ممالک کو یہ پیغام دیا جائے کہ کسی بھی قضیے میں امریکا اور اُس کے یورپی ہم نوا صرف اور صرف اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔ عرب دنیا نے پیغام اچھی طرح سمجھ لیا۔ اِس کے بعد خِطّے میں عرب ممالک کا طرزِ عمل خاصا ہچکچاہٹ آمیز ہوگیا۔ یعنی امریکی پالیسی ساز کامیاب رہے۔
امریکی پالیسی سازوں کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ فوج کو کسی بھی طرح سُکون کا سانس نہ لینے دیا جائے یعنی اُسے کہیں نہ کہیں اُلجھاکر رکھا جائے۔ ایک طرف تو امریکا کے بیرونی مفادات کا معاملہ ہے اور دوسری طرف پالیسی ساز یوں بھی متفکر رہتے ہیں کہ انتہائی طاقتور امریکی فوج کہیں ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی راہ پر نہ چل پڑے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ اُسے بیرون ملک کوئی نہ کوئی مشن دیا جاتا رہے تاکہ وہ اُس میں اُلجھ کر ملک پر توجہ دینے کی پوزیشن میں نہ رہے۔
جزائر غرب الہند میں ایک جزیرہ گریناڈا بھی ہے۔ اِس کی آبادی سوا سے ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تقریباً اِتنی ہی آبادی امریکا میں پیوریا الینوئے کی ہے۔ ۱۹۸۳ء میں اُس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن کو اِس چھوٹے سے ملک سے بھی خطرہ محسوس ہوا۔ فوج کو حکم دیا گیا کہ گریناڈا پر قبضہ کرکے وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جائے۔ ۱۹۸۳ء میں اُس وقت کے امریکی وزیر داخلہ نے کہا کہ گریناڈا بہترین قدرتی نظاروں سے مالا مال ہے اور اُس کی زمین انتہائی قیمتی ہے۔ یعنی یہ کہ گریناڈا کو امریکی اثرات کے تحت ہی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ امریکیوں نے گریناڈا کو فتح کرنے کے بعد وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔
گریناڈا میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے ٹاسک سے سبکدوش ہونے کے بعد امریکی فوج پھر فارغ ہوگئی اور لازم ہوگیا کہ اُس کے لیے کوئی نیا مشن ڈھونڈا جائے۔
امریکی پالیسی سازوں کی نظر اب لیبیا پر پڑی۔ لیبیا کو نشانہ بنانا اِس لیے ضروری تھا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا تھا وہ امریکی مفادات کے خلاف تھا۔
لیبیا کے بادشاہ ادریس نے امریکا کی طرف جُھکاؤ دکھاکر اپنا مسندِ اقتدار مضبوط کرنے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ واشنگٹن کو شاہ اِدریس سے بہت محبت تھی اور کیوں نہ ہوتی؟ شاہ اِدریس نے امریکی کمپنی اسٹینڈرڈ آئل کو ملک بھر میں تیل کے کنوؤں اور دیگر متعلقہ تنصیبات پر بھرپور تصرّف سے نوازا۔ کرنل معمر قذّافی کو امریکا اور امریکیوں سے شدید نفرت تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لیبیا میں تیل کی دولت پر امریکا قابض و متصرّف رہے۔ اُنہوں نے شاہ اِدریس کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور لیبیا کے وسائل سے ہم وطنوں کو بھرپور طور پر مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔
واشنگٹن کو کرنل معمر قذّافی اِس لیے سخت ناپسند تھے کہ اُنہوں نے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے شاہ اِدریس کا اقتدار ختم کردیا تھا۔ امریکی قیادت چاہتی تھی کہ لیبیا کے خلاف کچھ کرنے کا موقع ملے۔ ۱۹۸۶ء میں امریکا کو لیبیا میں فوجی کارروائی کا موقع مل گیا۔ ہوا یہ کہ ٹریپولی میں ایک جرمن ڈسکو پر حملہ ہوا جس میں دو امریکی فوجی مارے گئے۔ ’’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘ کے مِصداق امریکا نے ٹریپولی پر بم برسادیے۔ اِس کارروائی کی پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ امریکی بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں لیبیائی فوجی مارے گئے۔ اِس کارروائی کا بنیادی مقصد اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینا نہیں تھا بلکہ امریکا یہ دکھانا چاہتا تھا کہ جہاں جہاں اُس کے مفادات کو خطرات لاحق ہوں گے وہاں وہ بلا روک ٹوک کارروائی کرے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ لیبیا کو غیر مستحکم کرنا بھی مقصود تھا۔ امریکا نے اِس بھرپور کارروائی کے ذریعے لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذّافی کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ اُن کے اقتدار کو کسی بھی وقت خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور وہ کسی بھی وقت اقتدار کے ایوان سے گھسیٹ کر باہر پھینکے جاسکتے ہیں۔
اب تک ہم نے اُن جنگوں کا جائزہ لیا ہے جن میں امریکی افواج براہِ راست شریک تھیں یعنی امریکی فوجیوں کو تعینات کرکے خرابیاں پیدا کی گئیں۔ بہت سی دوسری جنگیں اور مناقشے ایسے بھی ہیں جن میں امریکا پچھلے دروازے سے داخل ہوا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ چونکہ اپنی نوآبادیات کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اِس لیے اُس نے بہت سے ممالک کو آزاد کرنے کا سوچا۔ جن ممالک کو براہِ راست آزادی نہیں دی جاسکتی تھی وہاں کوئی نہ کوئی قضیہ چھوڑ دیا گیا۔ مثلاً برطانوی سلطنت نے مقبوضہ فلسطین کا حلیہ ہی بدل ڈالنے کا فیصلہ کیا اور وہاں اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ جن علاقوں میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا وہاں فلسطینی آباد تھے۔ یہ علاقے صدیوں سے روایتی طور پر فلسطینیوں کا گڑھ کہلاتے تھے۔ اسرائیل کے قیام کا اعلان کرکے ایک ایسے قضیے کی بنیاد ڈالی گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانا ہوتا گیا۔ ہزاروں فلسطینیوں کو اُن کے آبائی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ ایسا کیے بغیر نوزائیدہ اسرائیل میں یہودیوں کو آباد کرنا ممکن ہی نہ تھا۔
اسرائیل کے قیام کا اعلان کرکے برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں شدید عدم استحکام کا ایسا بیج بویا جو آج ایک تناور درخت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ امریکا اور یورپ یہی چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی ایسا قضیہ کھڑا ہو جو پورے خِطّے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھے اور اُن کے مفادات کی تکمیل ممکن بنائی جاتی رہے۔ دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ کی پَٹّی میں اب بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ ہزاروں فلسطینی آج بھی اسرائیل کے ہاتھوں غلاموں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کا وجود امریکا اور یورپ کی بھرپور حمایت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکا ہر معاملے میں اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے۔ کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہو پاتی اور اگر منظوری کے مرحلے سے گزرے تو اُس پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ امریکی حکومت ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد دیتی ہے تاکہ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے مشن میں کامیاب ہوسکے۔ نصف صدی سے بھی زائد مدت سے امریکا نے ہر غلط اقدام میں اسرائیل کا ساتھ دے کر فلسطینیوں سمیت خِطّے کے سبھی انصاف پسند لوگوں کے دِلوں میں اپنے لیے شدید نفرت کی راہ ہموار کی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کے خلاف بھی طاقت کے بھرپور استعمال سے گریز نہیں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانچ عشروں سے اسرائیلی فوج جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے مگر اُس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ امریکا کی ڈِھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی بلاجواز اسرائیلی فوجی کارروائی کی رسمی سی مذمت بھی نہیں کرتا۔
سوال ایک اسرائیل کا نہیں ہے، امریکا نے ہر خِطّے میں اپنے حاشیہ برداروں کی بھرپور مدد اور حمایت کی ہے۔ امریکی قیادت چاہتی ہے کہ ہر خِطّے میں اُس کے حاشیہ بردار اقتدار میں رہیں۔ جن ممالک میں امریکا کو عوام کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں وہ اپنی مرضی کے حکمران لاتی ہے اور اُنہیں پوری قوت فراہم کرتی ہے کہ عوام کو کچلیں۔ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی یہی کہانی ہے۔ امریکا کے لیے یہ بات کسی بھی طور قابل برداشت نہیں کہ اُس کی فوج یا سیاسی قیادت کی پالیسیوں کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک پروان چڑھے۔ جن حلیف یعنی حاشیہ بردار ممالک میں امریکا کو عوام کی طرف سے خفیف سی بھی مزاحمت کا خطرہ دکھائی دیتا ہے وہاں وہ اپنے ہم نواؤں کو بھرپور امداد دیتا ہے تاکہ وہ مزاحمت کے سامنے بند باندھ سکیں۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں کے دوران وسطی امریکا کی بہت سی ریاستوں نے امریکی مداخلت کے خلاف آواز بلند کی۔ اِن ممالک کے لوگ چاہتے تھے کہ اُن کی حکومت کسی بھی معاملے میں امریکا سمیت کسی بھی ملک کو مداخلت کی اجازت نہ دے۔ جب امریکی قیادت نے دیکھا کہ نکارا گوا، گوئٹے مالا اور ایل سلواڈور میں عوام امریکی مفادات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو اُنہوں نے اِن ممالک کی فوج کو ضروری تربیت اور مطلوبہ ہتھیار دیے تاکہ وہ عوام کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت کا سَر کچل سکیں۔ اِن تینوں ممالک کی فوج نے امریکا سے تربیت اور ہتھیار پاکر نِہتّے کسانوں کو بُھون ڈالا۔ امریکیوں نے تینوں ممالک کی فوج سے کہا کہ جو لوگ مزاحمت کر رہے ہیں اُن کی شکلوں سے دھوکا نہ کھاؤ کیونکہ کسان جیسے دکھائی دینے والے دراصل دہشت گرد ہیں۔
وسطی امریکا میں جن فوجی افسران نے اپنے ہی عوام پر سب سے زیادہ مظالم ڈھائے اُنہوں نے امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون کے توسّط سے جارجیا کے اسکول آف امریکاز (فورٹ بینن) میں تربیت پائی۔ علاقائی ممالک کے اِن اعلیٰ فوجی افسران کی برین واشنگ کی گئی۔ اِن کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی کہ جو لوگ احتجاج اور مزاحمت کرتے ہیں وہ دراصل قومی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ موقع ملتے ہی ایسے تمام لوگوں کو کچل دیا جائے جو کسی بھی مطالبے کو منوانے کے لیے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
’’اسکول آف امریکاز‘‘ میں جنوبی امریکا کے فوجی افسران کو بھی تربیت دی جاتی ہے۔ برین واشنگ کے اِس ادارے میں پسماندہ ممالک کے فوجی افسران کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کسی بھی دشمن کو تڑپا تڑپاکر مارا جائے تاکہ اُس کا بُرا انجام دیکھ کر پھر کسی میں احتجاج یا مزاحمت کی ہمت ہی پیدا نہ ہو۔ فوجی تربیت کے امریکی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے اعلیٰ فوجی افسران نے اپنے اپنے ممالک میں انتہائی سخت پالیسیاں اختیار کیں اور بعد میں موقع ملتے ہی اقتدار پر قبضہ بھی کیا۔
امریکا نے ویت نام، جزیرہ نُما کوریا، نکارا گوا اور دیگر ممالک پر جنگیں مُسلّط کیں اور اِن تمام ممالک کو تباہی سے دوچار کیا۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جنگ ختم ہوجانے پر سارے دکھ ختم ہوگئے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور جنگ ختم کہاں ہوئی ہے؟ کولمبیا، میکسیکو، پیرو، فلپائن اور دیگر ممالک میں آج بھی ایسے لوگ اقتدار میں ہیں جو اپنے ہی لوگوں کو پوری قوت سے کچلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اقتدار پر قابض ہوجانے والے لوگ امریکا کے حاشیہ بردار ہیں۔ وہ ہر معاملے میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں اور اِس پر معمولی سی بھی شرمندگی تک محسوس نہیں کرتے۔ کولمبیا میں کرائے کے امریکی ٹٹوؤں نے حزب اختلاف اور مزدور انجمنوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں رہنماؤں کے علاوہ ہزاروں کسانوں اور مزدوروں کو بھی انتہائی سَفّاکی سے قتل کیا ہے۔ کولمبیا اور جنوبی امریکا کے دیگر ممالک میں ’’ڈرگ مافیا‘‘ کے خلاف لڑائی میں حکومتوں کی مدد کرنے کے نام پر امریکا نے معاملات کو مزید بگاڑا ہے اور پورے خِطّے کو شدید عدم توازن اور عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔ امریکا نے ڈرگ مافیا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے نام پر اربوں ڈالر کا اسلحہ متعلقہ ممالک کو دیا ہے۔ یہ صورت حال ایسی اُلجھی ہے کہ اب اِن ممالک میں مستحکم حکومت قائم کرنا ممکن نہیں رہا۔
Leave a Reply