
امریکا کے لیے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے علاقائی ممالک کو کمزور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ جنوبی اور وسطی امریکا کے بیشتر ممالک کو امریکا نے کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس حوالے سے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور محکمۂ دفاع نے مل کر کام کیا ہے۔ سی آئی اے نے ہر اُس حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس سے امریکی مفادات کو ذرا بھی خطرہ لاحق ہو۔ ان دونوں اداروں نے مل کر ایسی کئی حکومتیں گرائی ہیں جن سے امریکا کو کچھ پریشانی لاحق ہوسکتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اِنہوں نے کئی ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ۱۹۶۱ء میں امریکا نے کیوبا میں انقلابیوں کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا اور ایک نجی آرمی تیار کرکے بحری جہازوں کے ذریعے بھیجی جو ’’بے آف پِگز‘‘ میں لنگر انداز ہوئی۔ بیسویں صدی میں یہ کیوبا پر پانچواں امریکی حملہ تھا۔ اِس بار امریکا کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
امریکا سے شکست ہضم نہیں ہوتی۔ کیوبا کے معاملے میں بھی ایسا ہوا۔ جب گھی ٹیڑھی اُنگلی سے بھی نہ نکلا تو امریکا نے اُنگلی کو زیادہ ٹیڑھا کرلیا۔ مگر کامیابی پھر بھی اُس کا مقدر نہ بن سکی۔
دنیا بھر کے ممالک میں خانہ جنگی کو ہوا دینے میں بھی امریکا مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ بہت سے ممالک میں جب بھی چھاپہ مار کارروائیاں شروع ہوئیں اور حکومتوں کے جبرکے خلاف لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تو امریکا نے متعلقہ حکومتوں کی حمایت اور مدد کی اور اگر کہیں امریکی مفادات کا خیال نہ رکھنے والی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی تو سی آئی اے اور پینٹاگون نے باغیوں کی بھرپور مدد کی۔ اِس طریق کار پر عمل کرنے کے نتیجے میں کئی ممالک شدید عدم استحکام سے دوچار ہوئے۔ امریکی پالیسیوں کی مخالف حکومتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے والوں کو چھاپہ مار جنگ کی تربیت دینے کے ساتھ اسلحہ اور مالی امداد بھی دی گئی۔
سامراجی عزائم کے حوالے سے امریکا اور یورپ ایک ہی پیج پر رہے ہیں۔ امریکا نے کوشش کی ہے کہ جہاں جہاں یورپی طاقتیں اپنی نوآبادیوں کو برقرار رکھنے میں مشکلات سے دوچار ہیں وہاں اُن کی بھرپور مدد کی جائے۔ افریقا میں نوآبادیاں برقرار رکھنے میں امریکا نے پرتگال کی عشروں تک مدد کی۔ انگولا اور موزمبیق میں آزادی کی تحریک اُٹھی تو امریکا حرکت میں آیا اور اِسے کچلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پرتگال نے افریقا میں نو آبادیاں اِس لیے برقرار رکھی تھیں کہ خود اُس کے آنگن میں بھی جمہوریت نہیں تھی۔ پرتگالی عوام مطلق العنانیت کے شکنجے میں تھے۔ ۱۹۷۵ء میں پرتگال میں جمہوری انقلاب برپا ہوا۔ جب جمہوری اقدار پرتگالیوں پر پوری طرح روشن اور واضح ہوگئیں تب اُنہوں نے امریکا سے دامن کش رہنے میں عافیت محسوس کی۔
محکموں پر ظلم ڈھانے اور اُنہیں کچل کر رکھنے کی روش سے پرتگال باز آگیا مگر امریکا باز نہ آیا۔ اُس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ سَر سے پاؤں تک ایسی پالیسیوں میں بندھا ہوا تھا جن کا مقصد ہی خرابیاں پیدا کرنا تھا۔ اگر وہ اِس راہ سے ہٹتا تو خود اُس کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے۔
امریکا نے جنوبی افریقا کی نسل پرست انتظامیہ سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت انگولا میں منتخب اور خود مختار حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے نجی آرمی بھیجی گئی۔ ایک اور معاہدے کے تحت نجی فوج کے ذریعے موزمبیق میں ہزاروں نِہتّے کسانوں کو قتل کرایا گیا۔
نکارا گوا میں امریکا نے جو کچھ کیا وہ اُس کی ہی نہیں، جدید سیاسی تاریخ کا انتہائی المناک باب ہے۔ امریکیوں نے طے کرلیا تھا کہ نکارا گوا کے عوام کو کسی بھی حال میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے نہیں دیں گے۔ ۱۹۷۴ء میں نکارا گوا کے عوام نے امریکی حمایت سے حکومت پر قابض ساموجا اور اُس کے خاندان کو اقتدار کے ایوان سے نکال پھینکا۔ امریکا کے لیے یہ کسی بھی طور قابل برداشت نہ تھا۔ سی آئی اے نے نکارا گوا کی وحشی ملیشیا نیشنل گارڈ کا ہاتھ تھاما اور اُسے ہتھیاروں سے مکمل طور پر لیس کرنے کے ساتھ ساتھ خطیر رقوم دے کر دوبارہ نکارا گوا بھیجا تاکہ وہ پورے ملک کو لُوٹ کر آگ لگاسکے اور جہاں تہاں قتلِ عام کرسکے۔
نکارا گوا میں جن لوگوں نے امریکا نواز حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھائے تھے اُن کے خلاف بھی کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ایک آرمی کھڑی کردی گئی جو ’’کونٹرا‘‘ کہلائے۔ یہ سب امریکا کا کیا دھرا تھا۔ ۱۹۸۵ء میں اُس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے کہا۔ ’’میں کونٹرا ہوں۔ کونٹرا اخلاقی اعتبار سے ہمارے بانیانِ ملک سے بہت ملتے جلتے ہیں۔‘‘
۱۹۷۹ء میں افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ امریکا کے لیے ’’بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ سے کم نہ تھا۔ سابق سوویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کرکے کابل میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کی۔ یہ امریکا کے لیے خِطّے میں اپنا کردار بڑھانے کا بہترین موقع تھا۔ اور اِس موقع سے امریکا نے کماحقہ فائدہ بھی اُٹھایا۔ سابق سوویت یونین کو سبق سِکھانے کے لیے امریکا نے افغانستان میں مجاہدین کو کھڑا کیا۔ سی آئی اے نے اُنہیں تربیت دی، اُن کے ہاتھوں میں جدید ترین ہتھیار تھمائے اور خوب فنڈنگ بھی کی۔ اِس معاملے میں پاکستانی اور سعودی حکومت نے بھی سی آئی اے کی بھرپور مدد کی۔
سوویت یونین کو شاید اندازا نہیں تھا کہ افغانستان پر لشکر کشی کے بعد اُسے امریکا کی منصوبہ بندی سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ راتوں رات ہوا۔ امریکی پالیسی ساز مل بیٹھے اور مجاہدین کو محاذ پر کھڑا کردیا۔ ایک عشرے تک افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ سوویت یونین کی تائید و حمایت اور مدد کے ساتھ کام کرنے والی کٹھ پتلی حکومت نے امریکا اور اُس کے حلیفوں کی کھڑی کی ہوئی طاقت یعنی مجاہدین کا سامنا کیا مگر چونکہ ملک پر سوویت فوج نے قبضہ کیا تھا اور عوام بھی مزاحمت کے لیے تیار تھے اِس لیے مجاہدین کی طاقت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔
امریکا اور اُس کے حلیفوں کی بھرپور مدد سے مجاہدین نے دس سال کی گھمسان معرکہ آرائی کے بعد سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا۔ اور معاملہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست تک نہیں محدود نہیں تھا۔ افغانستان میں ہونے والی شکست نے سوویت یونین کی بساط ہی لپیٹ دی۔ مجاہدین کے ہاتھوں ایک سُپر پاور کا دھڑن تختہ ہوا۔
امریکا نے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اپنے دفاعی بجٹ کو کئی گنا کردیا۔ سوویت یونین کو مختلف محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ دفاعی معاملات میں امریکا کی برابری کرنا اُس کے لیے ممکن نہ رہا۔ سوویت یونین راتوں رات اپنا بجٹ کئی گنا تو کیا، دُگنا بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ساتھ ہی جدید ترین ٹیکنالوجیز کے میدان میں بھی اُسے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ رونالڈ ریگن کی پالیسی کارگر ثابت ہوئی اور سوویت یونین کی دفاعی قوت تیزی سے گھٹتی چلی گئی۔ روسی معیشت پہلے ہی ڈانواڈول تھی۔ معاشی میدان میں اور دفاعی محاذ پر سوویت یونین کے لیے مشکلات اِتنی بڑھیں کہ وہ امریکا کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہا۔ یوں افغانستان سے شروع ہونے والی بھرپور لڑائی نے امریکا کو ہتھیاروں کی دوڑ اور سرد جنگ دونوں میں فتح سے ہمکنار کیا۔
افغانستان سے سوویت افواج رخصت ہوئیں تو مجاہدین کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ جب افغان سرزمین پر سوویت افواج تعینات تھیں تب سعودی ارب پتی ’’اُسامہ بن لادن‘‘ نے مجاہدین کو ہتھیاروں کی فراہمی اور مالی وسائل کے حصول میں سی آئی اے کی معاونت کی۔ افغانستان میں مجاہدین کی شاندار کامیابیوں نے مسلم دنیا میں انقلابی تحریک کی راہ ہموار کی۔ سامراجی قوتوں کی حمایت یافتہ حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی سوچ پیدا ہوئی۔ نوجوانوں میں اپنی سرزمین کو غیر ملکی اثرات سے پاک کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ افغانستان پر سوویت یونین نے لشکر کشی کرکے اپنی ہم نوا یعنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی تھی۔ یہی مسئلہ بہت سے دوسرے مسلم ممالک کا بھی تھا۔ کئی مسلم ممالک میں امریکا کی پِٹّھو حکومتیں قائم تھیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اگر افغانستان میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت غلط تھی تو دوسرے ممالک میں امریکا نواز حکومتیں کیوں غلط نہیں؟
افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے والے مجاہدین نے جب امریکا اور یورپ کے سامراجی عزائم کے خلاف آواز بلند کی تو سی آئی اے اور پینٹاگون کو بہت بُرا لگا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ مجاہدین اور اُن کے ہم خیال لوگوں نے روس کی طرح امریکا کو بھی اسلامی دنیا کا دشمن قرار دینا شروع کیا۔ جب تک مجاہدین سوویت یونین کے خلاف متحرّک تھے، وہ قابل قبول تھے۔ جب مجاہدین نے امریکا اور یورپ کے خلاف آواز بلند کی تو مغربی دُنیا نے اُنہیں دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر اُن سے گلو خلاصی کی طرف جانے کی کال دی۔
جب تک مجاہدین صرف سوویت یونین کو دشمن گردانتے تھے تب تک اُن سے امریکا اور یورپ کو کسی قسم کی شکایت نہ تھی۔ جب اُن کا رُخ امریکا کی طرف ہوا تو معاملات بگڑنے لگے۔ مجاہدین میں غیر معمولی جوش اور جذبہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی دنیا کو ہر طرح کے دشمنوں سے پاک کردیں۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ جو خامیاں اور خرابیاں سوویت یونین میں پائی جاتی تھیں وہی امریکا اور اُس کے حلیفوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اُسامہ بن لادن نے اسلامی دُنیا کو تمام سامراجی قوتوں سے پاک کرنے کی کال دی تو امریکا نے اُسے بھی دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کردیا۔
جب سرد جنگ ختم ہوئی اور سوویت یونین کی تحلیل واقع ہوگئی تب عالمی سطح پر امن اور استحکام کی باتیں کی جانے لگیں۔ انعامات اور اعزازات تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُنہیں دنوں امریکی ایوان صدر اور محکمۂ دفاعی میں بہت سے اُمور پر مشاورت کا سلسلہ جاری تھا۔ تب لوگوں کو اندازہ نہ ہوسکا کہ کیا کِھچڑی پکائی جارہی ہے۔
دنیا سمجھ رہی تھی کہ سوویت یونین ختم ہوگیا تو اب جنگ کی ضرورت بھی ختم ہوگئی۔ یعنی اب ہر طرف سُکون ہوگا، استحکام کے درشن ہوں گے۔ یہ سوچ سادہ لوحی پر مبنی تھی۔ امریکی پالیسی سازوں کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا۔ وہ جنگ کے ایک نئے اور خاصے طویل دور کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اِس بار دُنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی تیاری کی جارہی تھی۔
Leave a Reply