
امریکا پوری دنیا پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا اور اب بھی اس کی یہ خواہش پوری آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک نے اپنی غیر معمولی طاقت کو آلہ کار بناکر پوری دنیا کو مُٹّھی میں لینا چاہا، صرف خرابیاں اُبھر کر سامنے آئیں۔ ایسا کرنے کے نتائج بھی سب جانتے تھے مگر اِس کے باوجود اِس خواہش کو عملی شکل دینے سے کبھی گریز نہیں کیا گیا۔ اِنسانی فطرت کا یہی پہلو سب سے بھیانک ہے۔
سوویت یونین کی تحلیل نے امریکا کو معلوم تاریخ کی سب سے بڑی سُپر پاور کا درجہ دے دیا۔ امریکی قیادت کے لیے اب ناگزیر ہوگیا کہ سوویت یونین کے بعد کی یعنی یک قطبی دنیا میں کچھ ایسا کر دکھائے کہ دُنیا تعریف کرتے نہ تھکے۔ اُس پر عالمی سطح پر استحکام برقرار رکھنے کی غیر معمولی ذمہ داری آ پڑی۔ امریکی قیادت کے لیے بہت سے معاملات میں اپنا ریکارڈ بہتر بنانے کا یہ بہت اچھا موقع تھا۔ یورپ کچھ خاص مداخلت کے قابل نہ رہا تھا۔ ایسے میں اگر امریکی قیادت کچھ اچھا کرنے جاتی تو کسی بھی طرف سے مخالفت یا مزاحمت کا خطرہ نہ تھا۔ اگر کوئی ملک برابری کا ہوتا تو کسی بھی معاملے میں رکاوٹ کھڑی بھی کرتا۔ یورپ مجموعی طور پر امریکا کا حلیف رہا ہے اور بیشتر معاملات میں اُس کی پالیسیوں کو قبول کرتا رہا ہے۔ امریکی قیادت اگر چاہتی تو کئی خِطّوں میں حقیقی استحکام کی راہ ہموار کرتی۔ اور وہ خِطّے مستحکم ہو بھی جاتے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا نے جو کچھ پانچ عشروں کے دوران کیا ہے اُس کا تقاضا تھا کہ بہتری کی کچھ کوشش کی جاتی، اِسرائیل کو کسی حد تک لگام دینے پر توجہ دی جاتی تاکہ اسلامی دنیا کے تحفظات کم ہوتے اور شکایات کے انبار کو ٹھکانے لگایا جاسکتا اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی طرف قدم بڑھانا ممکن ہو پاتا۔ دوسری طرف ایشیا و بحرالکاہل کے خِطّے میں بھی امریکا ایسا بہت کچھ کرسکتا تھا جو اُس کے امیج کو بہتر بناتا، خرابیوں کا بوجھ کچھ کم کرتا۔
یہ سب تو پسماندہ اور کچلے ہوئے ملکوں کی خوش فہمی یا خام خیالی تھی۔ امریکی قیادت نے جب دیکھا کہ سوویت یونین کی شکل میں راستے کی آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے تو وہ عالمی سیاست کا ہر کھیل اپنی مرضی کے مطابق کھیلنے کی راہ پر گامزن ہوئی۔ جس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئی دُنیا معرضِ وجود میں آئی تھی بالکل اُسی طرح سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھی ایک نئی دُنیا اُبھری۔ اِس نئی دُنیا کے تقاضے بھی نئے تھے۔ امریکا اور یورپ کی راہیں کِسی حد تک الگ ہوچکی تھیں۔ یورپی یونین بیشتر معاملات کو عسکری سطح پر درست یا بہتر بنانے کے حق میں نہ تھی۔ اُس کی نظر میں محض طاقت ہی سب کچھ نہیں رہی تھی۔ یورپ کی بیشتر بڑی معیشتوں نے اب اپنا راستہ الگ کرلیا تھا۔ چین کی طرح یورپ بھی اب ’’نرم قوت‘‘ پر یقین رکھتا ہے یعنی لشکر کشی کے ذریعے کسی کو مطیع بنانے کے بجائے عُلوم و فُنون اور معیشت کے میدان میں مقابلہ کیا جائے اور اپنی پوزیشن اِتنی بہتر بنالی جائے کہ مخالفین کچھ زیادہ کر دکھانے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔
امریکا چاہتا تو دُنیا کو سب کے لیے بہتر بنانے کی طرف چل دیتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہو جاتا؟ سوویت یونین کو ایک عشرے کی محنت سے شکست دینے والوں کے لیے یہ دُنیا ایسی تھی جیسے کسی نے جواہرات سے بھرا تھال سامنے رکھ دیا ہو۔ امریکی قیادت نے سوچ لیا کہ صورتِ حال سے بھرپور استفادہ نہ کرنا ’’کُفرانِ نعمت‘‘ سے کم نہ ہوگا۔ یُوں امریکا نے ایک بار پھر دُنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کا عمل شروع کیا۔
سوویت یونین کی تحلیل پر اُس وقت کے امریکی صدر جارج ہربرٹ بُش نے قومی سلامتی کے مُشیروں اور معاونین سے مشاورت کی۔ سب اِس بات سے بہت خوش تھے کہ روس سمیت اب کوئی بھی ملک امریکا کو آگے بڑھنے سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سب نے اِس نکتے پر زور دیا کہ امریکا کو اپنی عسکری قوت کا بھرپور مظاہرہ کرکے پوری دُنیا پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ اب وہ اپنی مرضی کے مطابق دُنیا کو چلائے گا۔ امریکی ایوانِ صدر چاہتا تھا کہ ایسی فتوحات تیزی سے یقینی بنائی جائیں جن کے ذریعے دُنیا میں چند نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں۔
امریکی قیادت کا تاج اُن لوگوں کے سَروں پر سجا ہوا تھا جنہیں دُنیا neocons کے نام سے جانتی ہے۔ یہ نئے دور کے رجعت پسند تھے اور امریکا کو مذہبی بُنیاد پر ایسے مقام تک لے جانا چاہتے تھے جہاں کوئی بھی ملک اُس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ ۱۹۸۹ء کی امریکی قومی سلامتی کونسل کی دستاویزوں میں یہ بیان بھی ملتا ہے کہ امریکا کو اب دنیا بھر میں کمزور دشمن تلاش کرنے ہیں تاکہ اُن کے خلاف تیزی سے فتح حاصل کی جاسکے۔ قومی سلامتی کے مُشیروں نے اِس نُکتے پر زور دیا کہ امریکا کو اپنے تمام کمزور دشمنوں پر محض فتح حاصل نہیں کرنی بلکہ اِس تیزی سے اُنہیں ہرانا ہے کہ وہ خود بھی حیران رہ جائیں۔ دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کی یہی ایک صورت تھی۔
امریکا نے جن دشمنوں کو کمزور قرار دیا اُن میں پاناما سَرِ فہرست تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ پاناما کے خلاف کوئی بھی کارروائی کس بنیاد پر کی جائے۔ کوئی نہ کوئی بہانہ تو درکار تھا۔ کوئی کتنا ہی طاقتور اور ظالم ہو، کوئی نہ کوئی جواز تو گھڑتا ہی ہے۔ پاناما کے بہت سے لوگوں کا تعلق ڈرگ مافیا سے ہے۔ یہی کافی تھا۔ امریکی قیادت نے ایک بڑے ڈرگ ڈیلر کو گرفتار کرنے کے نام پر پاناما کے خلاف کارروائی کی۔ امریکا کے جنگی جہازوں نے پاناما کی بندر گاہوں پر لنگر اندازی کی تو امریکی فوجیوں کو بڑے پیمانے پر دخل اندازی کا لائسنس مل گیا۔
امریکا چاہتا تھا کہ پاناما نہر مکمل طور پر اُس کے کنٹرول میں ہو اور اِس چھوٹے سے ملک میں اُس کے فوجی اڈّوں کی تعداد بڑھ جائے۔ یہ سب کرنے کے لیے کسی نام نہاد کارروائی کا سہارا تو لینا ہی تھا۔ پاناما پر حملے سے چند لمحات قبل ہی وہاں ایک امریکی فضائی اڈّے پر نئے صدر کی حلف برداری ہوئی۔ امریکا نے اپنے جس پِٹّھو کو پاناما کے صدر کے منصب پر بٹھایا اُس کا نام گُلِرمو اینڈارا تھا۔ وہ ایک بینک کا مالک تھا اور اُس کا بنیادی دھندا کالے دھن کو سفید کرنا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ پاناما کا بینک ہی کالے دھن کو سفید کرنے کا دھندا چلا تا تھا۔ امریکا کے تمام بڑے تجارتی بینکوں نے پاناما میں اپنی شاخیں کھول رکھی تھیں۔ کیوں نہ کھولتے؟ اُنہیں بھی تو کالے دھن میں اپنا حصہ درکار تھا۔
امریکا نے بیسویں صدی کے دوران کئی بار یہ نعرہ لگایا کہ وہ کھلے بازار کی معیشت پر یقین رکھتا ہے۔ یعنی یہ کہ معاشی سرگرمیوں پر کسی بھی طرح کی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے۔ ایک طرف تو کھلے بازار کی معیشت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی سرگرمی کو کنٹرول نہ کیا جائے اور بازار میں موجود قوتوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اور دوسری طرف کھلے بازار کی معیشت کا ایک مفہوم یہ بھی لیا جاتا ہے کہ در پردہ مذموم اعمال کے ذریعے قیمتوں کو کنٹرول نہ کیا جائے اور کسی بھی چیز کی قیمت کو غیر ضروری طور اِتنا بڑھایا جائے کہ وہ دوسرے بہت سے معاملات پر اثر انداز ہونے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کُھلے بازار کی معیشت پر زور اِس لیے دیتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں کُھلا بازار چاہتا ہے۔ عالمی معیشت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے امریکا نے سیاست اور معیشت دونوں کو بُری طرح استعمال کیا ہے۔ امریکا کی manipulation کبھی کبھی اِتنی بڑھ جاتی ہے کہ بعض چھوٹے اور معاشی اعتبار سے انتہائی کمزور ممالک کی معیشت دم توڑ دیتی ہے اور یُوں معاشرہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔
امریکی تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار ہر معاملے میں بھرپور آزادی چاہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی سیاسی و عسکری قیادت پر زور دیتے رہے ہیں کہ اُنہیں بیرون ملک سازگار حالات فراہم کریں۔ سیاسی اور عسکری قیادت یہ خدمت انجام دیتی ہیں اور پھر اِس کا معاوضہ بھی وصول کرتی ہیں۔ امریکی بینک پاناما میں کسی روک ٹوک کے بغیر کام کرتے تھے۔ کالے دھن اور منشیات کا دھندا خوب پَھل پُھول رہا تھا۔
پاناما میں امریکا نے ڈرگ ڈیلر کو گرفتار کرنے کے نام پر جو کارروائی کی اور وہاں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی اُس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مبنی واقعات بھی رونما ہوئے۔ پاناما میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی کارروائی کے نتیجے میں پاناما میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اِن میں اکثریت اُن شہریوں کی تھی جن کا نہ تو ڈرگ مافیا سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی وہ کالے دھن کو سفید کرنے کے دھندے سے وابستہ تھے۔ امریکا کے ۲۶ ؍اور پاناما کے ۵۰ فوجی مارے گئے۔ پاناما اور کولون خاصے گنجان آباد شہر ہیں۔ اِن دونوں شہروں کے متعدد علاقوں میں امریکی فوج نے بلا جواز کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں بے قصور شہری ہلاک ہوئے۔ قتل و غارت تو اپنی جگہ، یہ بات بھی انتہائی المناک ہے کہ پاناما میں بہت سی لاشوں کو پلاسٹک کے بڑے تھیلوں میں ڈال کر خفیہ طور پر دفنایا گیا۔
پاناما جیسے چھوٹے سے ملک کے خلاف امریکی کارروائی جس قدر افسوس ناک تھی اُس سے زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت، آزادی اور انسان دوستی کے نام پر کیا گیا۔ امریکا جب بھی کسی ملک کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور بلا جواز جنگ اُس پر مُسلّط کرتا ہے تب اُس کی پروپیگنڈا مشینری یہ راگ الاپنا شروع کردیتی ہے کہ امریکی فوج کو آزادی، جمہوریت اور انسانیت کے نام پر میدان میں آنا پڑا ہے۔ پاناما پر مُسلّط کی جانے والی جنگ یا معرکہ آرائی بھی آزادی اور انصاف کا راگ الاپتے ہوئی جاری رکھی گئی۔ دُنیا کو پھر دھوکا دینے کی کوشش کی گئی مگر سبھی جانتے ہیں کہ امریکا کسی بھی ملک یا خِطّے کے خلاف جو کچھ بھی کرتا ہے وہ کیوں کرتا ہے۔ جارج ہربرٹ بُش کے ایک مشیر نے ۱۹۹۰ء میں ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’’کوئی گدھا بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اُس کا صرف ایک مقصد ہے، یہ کہ ہمیں تیل چاہیے‘‘۔
امریکا کی اوّلین ترجیح یہ تھی کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی تیل ہے وہاں اپنی طاقت کا سِکّہ بٹھایا جائے۔ سعودی عرب اور خِطّے میں تیل کی دولت سے مالا مال دیگر ممالک تو پہلے ہی امریکا کے مطیع و فرماں بردار ہیں۔ لازم ہوا کہ دیگر خِطّوں میں بھی تیل کے ذخائر والے علاقوں کو کنٹرول میں لیا جائے۔ اِس سے بہت پہلے امریکی محکمۂ داخلہ نے وسط ایشیا میں تیل کے وسیع ذخائر کے حوالے سے تبصرہ کیا تھا۔ ’’تیل کے ذخائر بہت بڑی طاقت ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس دُنیا میں تیل کے ذخائر سے بڑا تحفہ کچھ ہے ہی نہیں‘‘۔
دنیا بھر میں جس قدر بھی تیل ہے اُس کا ۶۵ فیصد سے زائد مشرق وسطیٰ میں ہے۔ تیل کے اِن ذخائر پر امریکی آئل کمپنیز کا کنٹرول ہے۔ یہاں سے تیل دنیا بھر کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ چین، جاپان اور یورپ تیل کی ضرورت پوری کرنے کے حوالے سے امریکی کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکا چونکہ مشرقِ وسطیٰ سے تیل کی ترسیل کے میکینزم پر بھی متصرّف ہے اِس لیے ایشیا اور یورپ دونوں ہی امریکا کے دباؤ میں رہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کو امریکا اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور یہ بات علی الاعلان کہتا ہے کہ تیل کے اِن ذخائر میں اُن کا بھی حصہ ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے یہ الفاظ بھی ریکارڈ پر ہیں کہ تیل بہت اہم چیز ہے اور اِس انتہائی اہم چیز کو عربوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یعنی کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی عرب باشندہ امریکیوں سے پوچھے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں کیا کر رہے ہیں تو جواب دیا جاسکتا ہے۔ ’’ہم تمہاری زمین میں چھپے ہوئے امریکی مفادات تلاش کر رہے ہیں‘‘!
Leave a Reply