زیر نظر کتاب کا بنیادی خیال امریکی صحافی اور تجزیہ کار Joel Andreas کی تصویری کتاب Addicted to War سے ماخوذ ہے۔
یہ کہانی جمعہ کی شام کو ایک امریکی گھر میں شروع ہوئی۔
مسز اینڈرسن کو آفس سے ہفتہ وار تنخواہ کا جو چیک ملا تھا اُس میں ٹیکس کی اضافی کٹوتی بھی شامل تھی۔ ٹیکس منہا کیے جانے کے بعد جو کچھ مسز اینڈرسن کی جیب میں آرہا تھا وہ اِتنا کم تھا کہ وہ چیک ملتے ہی بڑبڑانے لگیں کہ یہ ہفتہ کیسے گزرے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ویسے ہی جینا حرام کر رکھا ہے۔ کون سی چیز ہے جس کی وصولی بھرپور انداز سے نہیں کی جاتی؟ حکومت اگر تمام بنیادی سہولتیں فراہم کر رہی ہے تو کوئی احسان نہیں کر رہی۔ عوام کو ہر چیز کا پُورا پُورا بھگتان کرنا پڑتا ہے۔ صحتِ عامہ کے اخراجات دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سرکاری سطح پر اگر صحت کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں تو کیا ہوا؟ تنخواہ کے ہر چیک سے اِن اخراجات کی بھرپور کٹوتی بھی تو کی جاتی ہے۔
اِضافی ٹیکس کی کٹوتی کو اپنا مقدر سمجھ کر مسز اینڈرسن نے خود کو ’’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘ کی آس دلائی۔ پھر گھر کے کاموں میں جُت گئیں۔ پہلے رات کے جُھوٹے برتن دھوئے۔ پھر پورے گھر کی صفائی کرکے کھانا پکایا۔ تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ بیٹے کا انتظار کرنے لگیں۔ عام طور پر وہ دوپہر کا کھانا اسکول سے بیٹے کی واپسی پر کھاتی ہیں۔
دن کے دو بجے جوزف اسکول سے آیا تو اُس کا چہرہ خاصا بُجھا ہوا تھا۔ اسکول سے چُھٹّی ملنے گھر واپس آتے ہوئے بچوں کے چہروں پر جو خوشی اور بے فکری سی ہوتی ہے وہ نہیں تھی۔ مسز اینڈرسن کے لیے یہ بات عجیب تھی کیونکہ عام طور پر جوزف اسکول سے واپسی پر لہکتا چہکتا گھر میں داخل ہوتا تھا اور آتے ہی ماں سے لپٹ جاتا تھا۔ آج ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مسز اینڈرسن نے جوزف سے پوچھا۔ ’’کیا اسکول میں کسی سے جھگڑا ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔ ایسی تو کوئی بات نہیں‘‘۔ جوزف نے مُردار سے لہجے میں جواب دیا۔
’’اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟ اور لہجے میں تازگی یا گرم جوشی کیوں نہیں؟‘‘ مسز اینڈرسن نے پوچھا۔
’’اسکول والے کہہ رہے تھے کہ وہ چیرٹی سیل لگا رہے ہیں۔ ہمیں بھی اِس سیل میں حصہ لینا ہے یعنی کچھ خریدنا ہے‘‘۔ جوزف نے ’’راز‘‘ فاش کر ہی دیا۔
’’چیرٹی سیل کیوں لگائی جارہی ہے؟ ایسی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ کیا فنڈز ختم ہوگئے ہیں؟‘‘ مسز اینڈرسن نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’پتا نہیں۔ ہمارے پرنسپل بتا رہے تھے کہ اسکول کے پاس ٹوائلیٹ پیپرز نہیں ہیں۔ چیرٹی سیل کے ذریعے جو رقم جمع ہوگی اُس سے ٹوائلیٹ پیپرز خریدے جائیں گے‘‘۔ جوزف نے ایک اور انکشاف کیا۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟ اب کیا اسکول کے لیے ٹوائلیٹ پیپرز خریدنے کی رقم بھی والدین کی جیب سے نکلوائی جائے گی؟ یہ تو ظلم ہے۔ مسز اینڈرسن سوچ میں پڑگئیں۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ پیر کو اسکول جاکر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ سے بات کرنی پڑے گی۔ مسٹر اینڈرسن دن بھر دفتر میں ہوتے تھے اِس لیے جوزف کے کسی بھی معاملے پر بات کرنے کے لیے اسکول جانے کی ذمہ داری مسز اینڈرسن کی تھی۔ اور اِس ذمہ داری سے وہ خوشی خوشی عہدہ برآ ہوتی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ کتابوں کا ٹنٹا کیا کم تھا کہ اب ٹوائلیٹ پیپرز کا معاملہ بھی والدین کے سَر منڈھا جارہا ہے۔ اُن کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر تھا۔ جب حکومت کئی طرح کے ٹیکس تنخواہ سے منہا کر ہی لیتی ہے تو پھر ہر چیز کے لیے الگ سے وصولی کیوں؟
پیر کی صبح مسز اینڈرسن نے جوزف کے اسکول پہنچ کر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ ایڈورڈ شوارٹز سے ملاقات کی۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ اسکول کو اچانک فنڈ کی کمی کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ جاننا ہر شہری کا حق ہے کہ تعلیمی اداروں کو حکومت کی طرف سے ملنے والے فنڈ کس طور خرچ کیے جاتے ہیں اور اگر فنڈ میں کچھ کمی واقع ہو رہی ہے تو کیوں واقع ہو رہی ہے۔
اسکول کی طرف سے چیرٹی سیل کے اعلان کے بعد اور بھی بہت سے بچوں کے والدین اسکول پہنچے ہوئے تھے۔ وہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ اسکول پر ایسی کون سی اُفتاد آن پڑی ہے کہ ٹوائلٹ پیپر خریدنے کے لیے بھی والدین سے جیب ڈھیلی کرنے کو کہا جارہا ہے۔ اسکول کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ نے والدین کو بتایا۔ ’’مقامی ٹیکسز گھٹتے جارہے ہیں۔ ہمیں وفاقی حکومت سے جو فنڈ ملتے ہیں اُن میں بھی غیر معمولی کٹوتی کردی گئی ہے۔ یہ کٹوتی اِس قدر ہے کہ ہم تقریباً کنگال ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب ہمارے پاس یہی ایک راستہ بچا ہے کہ اسکول میں تمام سہولتوں کو یقینی بنانے کے لیے والدین سے کردار ادا کرنے کو کہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم چیرٹی سیل کا بھی اہتمام کر رہے ہیں تاکہ کچھ بیچ کر اُس کے منافع سے اسکول کے لیے کچھ خرید سکیں‘‘۔
مسز اینڈرسن سمیت تمام ہی والدین کے لیے فنڈز میں کمی والی بات بہت پریشان کن تھی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ اب اسکول میں بہت سی سہولتوں کو یقینی بنانے میں اُنہیں اپنی جیب سے کوئی خاص کردار ادا کرنا تھا۔
دوسرے لاکھوں، کروڑوں امریکیوں کی طرح مسز اینڈرسن کے ذہن میں بھی یہ سوال فطری طور پر اُبھرا کہ ہماری حکومت ٹیکسوں کی مد میں جو کٹوتیاں کرتی ہے اُن کا کرتی کیا ہے؟ اُنہوں نے سوچا اُنہیں یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ میری تنخواہ سے منہا کیے جانے والے ٹیکسوں کو حکومت کس طور خرچ کرتی ہے۔
مسز اینڈرسن اور دوسرے لاکھوں، کروڑوں امریکیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی حکومت محصولات کا بڑا حصہ فوج یعنی دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے پر خرچ کرتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی دفاعی صلاحیت سے مُراد لشکر کشی کی صلاحیت ہے۔ امریکی فوج کو کبھی دفاع کے نقطۂ نظر سے مستحکم نہیں کیا گیا بلکہ ہر دور میں اُسے لشکر کشی ہی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بیشتر امریکیوں کو یہ جان کر انتہائی دُکھ ہوتا ہے اور وہ کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں کہ اُن کی حکومت اپنی آمدن (یعنی عوام کی جیبوں سے نکالی ہوئی رقوم) کا تقریباً نصف فوج کو تیاری کی حالت میں رکھنے یعنی پڑوسی ممالک اور دیگر خطوں کی ریاستوں پر لشکر کشی کے قابل بنائے رکھنے پر خرچ کرتی ہے!
ویسے تو خیر ہر دور ہی میں امریکی فوج کو مضبوط اور مستعد رکھنے کے لیے غیر معمولی تناسب سے فنڈ مختص کیے جاتے رہے ہیں مگر نائن الیون یعنی ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے امریکی حکومت کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ فوج کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کو دیگر تمام اُمور پر واضح فوقیت دے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر امریکی فوج نے دور افتادہ خطوں اور بالخصوص اسلامی ممالک کو نشانہ بنانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اِس پالیسی کے نتیجے میں افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن یکسر غیر مستحکم ہوکر رہ گئے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کسی ملک کے خلاف لشکر کشی کی جائے، اُس کے باشندوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا جائے اور کہیں سے کوئی ردعمل ظاہر نہ ہو؟ ظاہر ہے کہ طاقت کے جواب میں کسی نہ کسی سطح پر طاقت ہی استعمال کی جائے گی۔ امریکا نے بھی طاقت کے استعمال پر طاقت ہی کا سامنا کیا ہے۔
نائن الیون کے حوالے سے بہت سی کہانیاں سُننے کو ملتی ہیں۔ مغرب میں بہت سے محققین نے یہ ثابت کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا کہ امریکا نے یہ سانحہ خود کرایا تاکہ اسلامی ممالک کے خلاف بھرپور لشکر کشی کا جواز پیدا ہوسکے اور امریکا مسلمانوں کی اکثریت والے ممالک یا خطوں میں اچھی طرح قدم جماسکے۔ جو کچھ ۱۱ ستمبر کو ہوا وہ امریکا کی پالیسیوں کے بارے میں امریکی عوام کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھا۔ اور اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی اِس بات کی طرح کُھلا اشارا تھا کہ امریکا اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے، کچھ بھی کرسکتا ہے۔ افغانستان اور عراق میں امریکا نے جو کچھ کیا وہ ہر امن پسند ملک کی آنکھیں کھولنے اور اُس اپنے تحفظ کے لیے فکر میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا۔
امریکا کے پاس دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ سریع الحرکت فوج ہے۔ تمام بڑے سمندروں میں امریکی جنگی جہازوں کا دبدبہ قائم ہے۔ امریکی لڑاکا طیارے اور میزائل دنیا بھر میں کسی بھی مقام کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کے ہزاروں فوجی دنیا بھر میں تعینات ہیں۔ عسکری اُمور پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ عسکری مہم جوئی کے تناظر میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ امریکی فوج پر غیر معمولی دباؤ ہے یعنی وہ ہر اعتبار سے over-stretched ہیں۔
امریکا نے مختلف خطوں میں عسکری مہمات جاری رکھی ہیں۔ چند برس کا وقفہ گزرتا ہے کہ امریکا کسی نہ کسی ملک میں عسکری مہم یا مکمل جنگ شروع کردیتا ہے۔ جنگیں لڑتے لڑتے امریکی فوج کی اجتماعی ذہنیت داستانوں میں پائے جانے والے اُس دیو کی سی ہوگئی ہے جو کہتا تھا۔ ’’مجھے کوئی نہ کوئی کام دیتے رہو یعنی مصروف رکھو ورنہ (مالک ہی کو) کھا جاؤں گا!‘‘
جنگ چھیڑنا کوئی نئی ذہنیت نہیں۔ بہت سے ممالک جب اچھی خاصی طاقت جمع کرلیتے ہیں تو اُنہیں دوسروں کے خلاف طاقت کے استعمال کی یعنی جنگ کے ذریعے اپنے مفادات کو مزید تقویت فراہم کرنے کی سُوجھتی ہے۔ مگر طاقت کے استعمال کے حوالے سے جو ذہنیت امریکی قیادت کی رہی ہے وہ کسی اور ریاست کی نہیں۔ چشمِ فلک نے ایسی کئی ریاستیں دیکھی ہیں جو بہت بڑی فوج رکھتی تھیں مگر اُس فوج کے ذریعے اپنی جغرافیائی حُدود اور سیاسی و ثقافتی برتری کو وسعت دینے کے لیے زیادہ منصوبہ بندی نہیں کرتی تھیں۔ امریکا اِس معاملے میں خاصا انوکھا ہے۔ وہ صرف بڑی فوج ہی نہیں رکھتا بلکہ اُسے زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول کے لیے بروئے کار لانے میں ہچکچاہٹ سے کام بھی نہیں لیتا۔ امریکا ویسے تو تینوں ہی مسلح افواج سے کام لیتا ہے تاہم بحری اور فضائی افواج پر انحصار زیادہ ہے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔ بَرّی افواج کو بہت دیکھ بھال کر، خاصی احتیاط سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بیرونی مہمات سے بہت سے امریکی فوجیوں کو گھر واپس پہنچنا نصیب نہیں ہوتا۔ بہترین اور انتہائی اعلیٰ معیار کے حفاظتی اقدامات کے باوجود ہر بڑی جنگ میں ہزاروں امریکی فوجی مارے جاتے ہیں۔ خود کو پہلے ہی سے فاتحِ عالم سمجھ کر جو خوشی خوشی عسکری مہمات پر روانہ ہوتے ہیں وہ تابوتوں میں واپس آتے ہیں۔
ایک حقیقت تو یہ ہوئی کہ امریکا غیر معمولی عسکری قوت کا حامل ہے اور اِس قوت کو عمدگی سے اور بروقت بروئے کار لاکر اپنے زیادہ سے زیادہ مفادات کا حصول یقینی بناتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت کا حامل ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ امریکی فوج کا خرچ انتہائی غیر معمولی ہے۔ امریکی قیادت کو بہت زیادہ بلکہ بہت کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج کو ہر وقت تیاری کی حالت میں اور مستحکم رکھنے میں فنڈنگ ہی اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ فنڈ عوام کی جیب سے آتے ہیں۔ کوئی بھی ملک جتنی بھی عسکری مہمات چلاتا ہے اُن کا پورا بھگتان عوام ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ملک انتہائی پس ماندہ ہو یا انتہائی ترقی یافتہ، ہر دو صورت میں دفاع (اور جارحیت) کے تمام اخراجات عوام ہی کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ عسکری مہمات کے اخراجات بڑھتے ہیں تو عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے۔
دفاعی اخراجات کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈ مختص کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولتوں میں کمی کردی جائے۔ امریکا اور یورپ کے بہت سے ممالک میں چند عشروں کے دوران یہی کیفیت رہی ہے۔ صحتِ عامہ اور تعلیم سمیت کئی بنیادی سہولتوں میں مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عمومی معیارِ زندگی میں گراوٹ آئی ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں میں اضافے کے لیے شور مچانے، احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکا میں ایک طرف تو عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کیا جارہا ہے اور دوسری طرف اندرونی یا قومی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کے نام پر عوام کو میسر آزادی پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا میں ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی قائم کیا گیا، جس نے عوام کی آزادی کو محدود کردیا۔ کسی بھی شہری کو کسی بھی وقت تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کرنے کی اجازت نے اندرونی سلامتی سے متعلق اداروں کے اختیارات غیر معمولی حد تک بڑھا دیے ہیں۔ اس کا نتیجہ معاشرے میں عمومی انتشار کی صورت برآمد ہوا ہے۔ دُنیا بھر میں جنہیں دفاعی اخراجات کہا جاتا ہے اُنہیں امریکا کے حوالے سے جنگی اخراجات کہنا زیادہ موزوں ہوگا، کیونکہ امریکی بجٹ میں جو رقم افواج کے لیے مختص کی جاتی ہے وہ جنگ کے لیے ہوتی ہے نہ کہ دفاع کے لیے! لشکر کشی کے رجحان میں اضافے سے امریکا نے دُنیا بھر میں جو تباہی پھیلائی ہے وہ پلٹ کر اُس کی سرزمین تک بھی آئی ہے۔ سوال صرف دشمنوں کی جارحیت یعنی ’’دہشت گردی‘‘ کا نہیں۔ امریکا کے دشمن جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں۔ اُنہیں ایسا کرنے سے روکا بھی نہیں جاسکتا مگر تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ جنگی اخراجات پورا کرنے کے نام پر عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کے طریق نے عمومی معیارِ زندگی گرادیا ہے۔ معاشرتی اور معاشی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ عوام کو دی جانے والی بنیادی سہولتوں میں کمی اور شہری آزادیوں پر قدغن کی صورت میں امریکی قیادت نے اپنے ہی معاشرے کو جو مجموعی نقصان پہنچایا ہے وہ کوئی غیر ملکی فوج بھی نہیں پہنچا سکتی۔
اگر امریکی عسکری مہمات کے نتیجے میں عوام کو ملنے والی سہولتوں میں کمی لانا پڑے اور اُنہیں میسر آزادی پر قدغن لگائی جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر اِس سے ایک قدم آگے جاکر معاملہ یہ ہے کہ امریکا کے دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا نے دنیا میں کہیں بھی اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر لشکر کشی اور جارحیت کی جس روش پر گامزن رہنا پسند کیا ہے وہ اُسے شدید ردعمل کا سامنا کرنے کی طرف بھی لے گئی ہے۔ جن ممالک کا سبھی کچھ داؤ پر لگادیا جائے وہ بھلا امریکا کے خلاف کسی نہ کسی طرح طاقت کے استعمال سے کیوں اور کیونکر باز رہیں گے؟ یہی سبب ہے کہ امریکا کو کبھی کبھی شدید ردعمل یعنی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ سبب؟ اِس کے سوا کیا کہ امریکا کی طرف سے بھی تو لشکر کشی اور جارحیت کا سلسلہ جاری رہا ہے! یہ اور بات ہے کہ ’’تم کہو تو سچ، ہم کہیں تو جھوٹ، تم کو سب معاف، ظلم ہو کہ لُوٹ‘‘ کے مِصداق امریکا اگر کسی ملک پر حملہ کرے تو وہ درست لیکن اگر جواب میں طاقت استعمال کی جائے تو وہ دہشت گردی! یہ تو صریح دُہرا معیار، بلکہ دوغلا پن ہے۔
امریکا نے بہت سا بگاڑ پیدا کیا ہے اور خود اُس کے شہریوں کو بھی بہت کچھ سہنا پڑا ہے مگر اِس کے باوجود پالیسیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی۔ صدر خواہ کوئی ہو اور وزیر خارجہ کا منصب خواہ کسی کے پاس ہو، امریکا جنگ کے الاؤ کو دہکاتا رہتا ہے۔ جنگ کو پسند کرنے اور دوسروں پر مُسلّط کرنے کی ذہنیت دم نہیں توڑ رہی۔ ایک جنگ ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع کردی جاتی ہے اور کبھی کبھی تو ایک عسکری مہم جوئی کے بطن سے دوسری عسکری مہم جوئی برآمد ہوتی ہے۔ ہر امریکی حکومت کا یہی وتیرہ اور نعرہ رہا ہے کہ یکے بعد دیگر جنگ کیے جاؤ۔
اب تک آپ نے جو کچھ بھی پڑھا ہے اُس کی روشنی میں یہ سوال ضرور ذہن میں گردش کر رہا ہوگا کہ امریکا آخر یکے بعد دیگرے جنگیں کیوں لڑتا رہا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ امریکی قیادت جنگیں شروع کرتی چلی جاتی ہے اور پھر اُنہیں ختم کرنے کے نام پر بھی قوت ہی کا سہارا لیا جاتا ہے؟ امریکی قیادت جنگ کی راہ پر گامزن رہنے کو دیگر تمام امور پر ترجیح کیوں دیتی ہے؟ امن برقرار رکھنے اور دوسروں کو بھی امن و سکون سے رہنے دینے کی خواہش امریکی قائدین کے دِلوں میں کیوں پیدا نہیں ہوتی یا کیوں پروان نہیں چڑھتی؟
اِن تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں امریکی تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا۔ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے امریکا کے منصۂ شہود پر آنے کے مُحرّکات کو سمجھنا ہوگا۔ عہدِ غلامی یا نوآبادیاتی دور کے امریکا کو سمجھے بغیر ہم امریکا کی موجودہ پالیسیوں کے تمام پہلوؤں کو بہتر انداز سے سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
سو دو سو سال قبل امریکا بحرِ اوقیانوس کے مغربی ساحل پر 13 ریاستوں (صوبوں) کا مجموعہ تھا۔ آج امریکا کا دبدبہ پوری دنیا پر قائم اور مُسلّط ہے۔ اِس کی دھاک ایسی جمی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ رعب ایسا چھایا ہوا ہے کہ ماضی کی کوئی سُپر پاور اِس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔
امریکا نے محض سوا دو سو سال میں اپنی ساری پسماندگی اور جہالت ترک کرکے ہر معاملے میں انتہائی اعلیٰ معیارات کی راہ ہموار کرکے بلا مبالغہ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے تسلیم نہ کرنا اور ستائش سے اجتناب برتنا زیادتی اور بے عقلی پر محمول ہوگا۔ ہر دور کے امریکی قائدین ایک طے شدہ راستے پر چلتے رہے ہیں۔ اور یوں محض دو صدیاں گزرنے پر ایک پسماندہ خطہ غیر معمولی قوت کے ساتھ اُبھر کر واحد سُپر پاور کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ اقوام کی تاریخ میں سو دو سو سال کی کوئی وقعت نہیں ہوتی بلکہ یہ تو کوئی مدت ہی شمار نہیں ہوتی۔ ایسے میں امریکا کا غیر معمولی قوت کے ساتھ اُبھرنا اور دنیا کی طاقتور ترین ریاست بن جانا انتہائی حیرت انگیز اور قابل غور ہے۔ امریکا نے محض دو صدیوں کے سفر ہی میں ہر دور کی طاقتور ترین ریاست کی حیثیت سے خود کو منوایا ہے تو ظاہر ہے کہ بہت کچھ ایسا بھی کیا ہوگا جس کے نہ کرنے سے بات کا بننا دشوار ہوجاتا۔ امریکا کے لیے واحد اور فقید المثال طاقت و اثرات والی سُپر پاور بننے کا راستہ یقیناً امن سے تو مُزیّن نہیں رہا ہوگا۔ اور ایسا ہی ہے۔ سُپر پاور بننے کے لیے امریکا کو بہت کچھ کرنا اور جھیلنا پڑا ہے۔ آگے بڑھنے اور غیر معمولی طاقت کا حصول یقینی بنانے کے لیے جو چند شرائط انتہائی بُنیادی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ اچھے بُرے اور جائز و ناجائز کا فرق بُھلادیا جائے، نظر انداز کردیا جائے۔ جب کسی کو ترقی کے راستے میں رُکنا اور سوچنا پڑے تو سفر دُشوار ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے لیے ہچکچاہٹ کو ایک طرف ہٹاکر وہی کچھ کرنا ہوتا ہے، جس کے نہ کرنے سے پیچھے رہ جانے کا خدشہ ہو۔ امریکا کو بھی ایسے بہت سے اقدامات کرنے پڑے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول اور پسندیدہ نہیں تھے۔ جن ریاستوں کو تیزی سے آگے بڑھنا اور زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانا ہوتا ہے، اُن کے قائدین کو یہ بات اپنے ذہنوں سے کُھرچ کر پھینک دینا پڑتی ہے کہ کوئی ملک یا خطہ اُن کے پیروں تلے کچلا بھی جاسکتا ہے۔ ایسا تو ہونا ہے اور ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے۔ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
Leave a Reply