
دو ہزار سال قدیم طلائی اشیاء کا ذخیرہ جو نفیس دستکاری کا نمونہ ہے اب امریکا اور افغانستان کے اشتراک عمل اور توجہ کا نیا مرکز ہے اور دونوں ملک ‘ افغانستان کے اس ثقافتی ورثے کے مطالعے اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے مل کر کام کررہے ہیں۔
فنون کا قومی وقف (National Endowment for the Humanities-NEH) اس سلسلے میں اقدامات کررہا ہے۔ کابل کے عجائب گھر کے اس ’’پراسرار ‘‘ ذخیرے کے مطالعے کے لئے تیس تیس ہزار ڈالر کی تین گرانٹس مہیا کی گئی ہیں۔ حال ہی میں دوبارہ دریافت ہونے والے ان ذخائر میں وسط ایشیا کی قدیم Bactrian سلطنت کی طلائی اشیاء شامل ہیں۔ ۳۰ سال سے زیادہ عرصے سے ان ذخائر کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ ذخائر گم یا تباہ ہوگئے ہیں۔
NEH کے ڈپٹی چیئرمین Munson نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا ہے‘ جہاں انہوں نے افغانستان کے اطلاعات و ثقافت کے وزیر سے ملاقات میں افغانستان اور امریکا کے درمیان ثقافت کے شعبے میں اشتراکِ عمل اور تعاون بڑھانے کے بارے میں بات چیت کی۔ NEH کی گرانٹس سے ان طلائی ذخائر کا مطالعہ کرنے اور ان کی درجہ بندی اور فہرست مرتب کرنے میں مدد ملے گی‘ جس سے ان ذخائر کو مستقبل میں دنیا بھر کے عجائب گھروں میں لے جانے میں سہولت ہو گی۔
Munson نے کہا کہ ’’اگر امریکیوں کو یہ اشیا دیکھنے کا موقع ملے تو یہ ان کے لیے افغانستان کی حقیقی تاریخ اور ثقافتی لحاظ سے مالا مال تاریخ دیکھنے کا بہترین ذریعہ ہو گا‘‘۔ امریکا میں NEH نے حال ہی میں ’’افغانستان کی دریافتِ نو‘‘ کے سلسلے میں اقدامات کا اعلان کیا ہے تاکہ افغانستان کے بارے میں تحقیقی‘ تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں کو فروغ دیا جائے۔
افغانستان کی Bactrian دور کی ان طلائی اشیا کا شمار دنیا کے انتہائی قدیم نوادرات میں ہوتا ہے‘ ان کی دریافت نو کا سہرا افغانستان کی نئی حکومت کے سر ہے۔ یہ نوادرات اگست ۲۰۰۳ء میں افغانستان کے شمالی شہر شبرغان سے ملے۔ ان نوادرات کے بارے میں تصور کیا جاتا تھا کہ طالبان نے انہیں تباہ کر دیا ہے یا انہیں لوٹ کر بلیک مارکیٹ میں بیچ دیا ہے۔ دو ہزار سال قدیم Bactrian تہذیب سے تعلق رکھنے والا یہ ذخیرہ تقریباً ۲۱۰۰۰ اشیا پر مشتمل ہے‘ جن میں نفیس ڈیزائن کی جڑائو اور مرصع اشیا شامل ہیں۔ ان میں بالوں کے لیے دو جڑائو اژدھوں کی شبیہ والا زیور‘ موتیوں کے پھل والا طلائی درخت‘ سونے کے نازک اور نفیس جوتے اور تاج‘ روم اور بھارت کے غیرمعمولی سکے اور عنبر ‘فیروزہ اور عقیق سے مرصع ہار اور گلے کے زیور شامل ہیں۔
Bactrain دور کے یہ طلائی نوادرات‘ سوویت یونین کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ۱۹۷۸ء میں دریافت کیے تھے‘ ان نوادرات کی تاریخ بھی ان کے وطن کی تاریخ کی طرح غیریقینی ہے۔ Bactrain کی قدیم سلطنت کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ سلطنت جو زراعت کا مرکز اور شاہراہ ریشم کا حصہ تھی‘ شمالی افغانستان میں کوہ ہند کش میں دریائے OCE کے کنارے واقع تھی۔ یہ طلائی نوادرات متمول کسان خانہ بدوشوں کے چھ دفینوں سے ملے تھے۔ اس دفینے کو نکال کر اور اس کی فہرست مرتب کرنے کے بعد سوویت ٹیم نے یہ نوادرات ۱۹۷۹ء میں کابل افغانستان کے قومی عجائب گھر کے حوالے کر دیے تھے۔
یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ سوویت حملے کے بعد نوادرات لوٹ لیے گئے ہیں۔ بعد میں ۱۹۸۹ء میں صدر نجیب اﷲ نے یہ نوادرات بیرونی سفارت کاروں کو دکھائے تھے۔ یہ آخری موقع تھا جب یہ نوادرات دیکھے گئے تھے۔ اس کے بعد دس سال تک ان کا کچھ پتا نہیں چلا۔ ۱۹۹۶ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد قومی عجائب گھر بند کر دیا تھا۔ ۲۰۰۱ء میں جب عجائب گھر دوبارہ کھولا گیا تو Bactrain دور کے یہ طلائی نوادرات غائب ہو چکے تھے۔
اگست ۲۰۰۳ء میں صدر حامد کرزئی نے افغانستان کے سنٹرل بینک کو دوبارہ کھولا اور اس کی تجوریاں توڑ کر کھولنے کی خصوصی اجازت دی۔ ایک تجوری کے اندر ٹوٹے پھوٹے صندوقوں میں Bactrain کا پورا طلائی خزانہ موجود تھا۔ نوادرات کی شناخت کے لیے امریکی ماہر آثارِ قدیمہ فریڈ Hiebert اور عجائب گھروں کی ایک ماہر کار لاگرس مین کو افغانستان بھیجا گیا‘ ان کے اخراجات جزوی طور پر NEH نے برداشت کیے۔
Hiebert اور Grissrnan ان نوادرات کی شناخت اور ان کی فہرست کی تیاری کے علاوہ ان نوادرات کے بارے میں ۳۰ سال پہلے سوویت ٹیم کے لیڈر وکٹر Sariyannidis کے شروع کردہ جائزے اور مطالعے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ابتدائی جائزے کے بعد Sariyannidis نے بتایا تھا کہ بیشتر نوادرات مقامی ساخت کے ہیں‘ جس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کی حیثیت شاہراہ ریشم پر محض پڑائو کی نہیں تھی بلکہ وہ اپنی جگہ ایک فعال اور خوشحال مرکز تھا۔
صدر کرزئی واشنگٹن کے حالیہ دورے میں Ereer اور Sackler گیلریز دیکھنے کے لیے گئے تو انہیں سکندرِ اعظم کے دور کے دو طلائی سکے پیش کیے گئے تھے۔ اگرچہ یہ دونوں سکے‘ Bactrain طلائی اشیا کا حصہ نہیں تھے‘ البتہ یہ ان دوسرے ۳۰۰۰۰ سکوں میں شامل تھے جو ۱۹۸۹ء میں افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی کے بعد خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کابل کے عجائب گھر سے چرا لیے گئے تھے‘ جنہیں بعد میں امریکی فوجیوں نے برآمد کیا تھا۔
Munson جنہوں نے واشنگٹن میں تقریب میں تقریر کی تھی۔ اس سال کے آخر میں افغانستان واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جہاں وہ افغانستان سے ثقافتی اداروں کی تعمیرِ نو میں NEH کے کردار کے بارے میں مزید تبادلۂ خیال کریں گے۔ اس وقت امریکا‘ افغانستان کے عظیم ثقافتی ورثے‘ آثارِ قدیمہ اور نوادرات کو محفوظ رکھنے میں افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ Bactrain دور کے طلائی نوادرات اس مشکل راہ میں ایک بڑی کامیابی کی علامت ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’خبر و نظر‘‘۔ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ‘ اسلام آباد)
Leave a Reply