
امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں دستخط شدہ امن معاہدے کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہونے پائی کہ چند روز کے بعد ہی اس کے تاروپود بکھرتے نظر آرہے ہیں، حالانکہ اس کی تعریف وتوصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اکیسویں صدی میں امریکی خارجہ پالیسی کے تحت طے پائے اس کمزور تر سمجھوتے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ اس کے تانے بانے بننے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کردار ادا کیا ہے اور قطر نے بین الاقوامی سمجھوتا طے پانے کے عمل میں ایک ’’سہولت کنندہ مصالحت کار‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔
قطر برسوں سے اپنے انتہا پسند دوست رجیم کے ناقدین کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اس کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ طالبان، حماس، الاخوان المسلمون، اسلامی جمہوریہ ایران اور خود کو مغرب کا دشمن قرار دینے والی ایسی ہی دوسری انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ مفاہمانہ طرزعمل اپنایا جائے۔ لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے لیے ثالث کاری یا کسی سمجھوتے کے لیے جب جب قطر پر انحصار کیا ہے تو یہ ہمارے مخالفین ہی ہیں جن کا ہاتھ ہمیشہ بالادست رہا ہے۔ قطر ایک کمزور مصالحت کار ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ امریکا کے دشمنوں کا تعصب کی حد تک طرف دار ہے اور تاریخ یہ بات ثابت کرچکی ہے۔
قطر نے عرب بہار سے تعلق رکھنے والے بہت سے فریقوں کے درمیان مصالحت کے لیے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا کی اتحادی حکومتوں کا دھڑن تختہ ہوگیا اور ان کی جگہ اسلام پسند بااختیار بن بیٹھے۔ قطر نے امریکا اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے بھی ایک سمجھوتا کرایا تھا۔اس کے تحت صرف ایک امریکی فوجی کے بدلے میں’’پانچ طالبان‘‘ کو رہا کیا گیا تھا۔
جب طالبان کے پانچ قیدی قطر کے حوالے کردیے گئے تو وہ دوحہ کی مصالحت کے نتیجے میں طے شدہ معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدے سے مُکر گئے۔انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کے خلاف کارروائیاں نہیں کریں گے،اس کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔بہت سے مواقع میں سے یہ صرف دو مواقع ہیں جب امریکا کے سمجھوتے قلیل المدت ثابت ہوئے ہیں۔
جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو جب سے دوحہ طالبان کا سیاسی مرکز قرار پایا ہے، قطری حکومت ان کے ساتھ مسلسل شاہی حکمرانوں جیسا سلوک کررہی ہے۔طالبان کے لیڈر دوحہ میں ایک پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں،انھیں مفت میں گھر ملے ہوئے ہیں اور قطر کے حکمران خاندان نے انھیں کھلی چیک بُک دے رکھی ہے۔ قطر خطے میں امریکا کے دوسرے اتحادیوں کے برعکس طالبان کی ترجیحی سیاسی منزل تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قطر میں ان کے لیے کہیں بھی سرخ جھنڈی نہیں لہرائی گئی۔اس انتہا پسند گروپ کو اس طرح وہاں جائے پناہ ملی ہے کہ اس نے قطر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ہے۔
اب ہم ذرا ۲۹ فروری کے دن کا تذکرہ کرتے ہیں جب امریکا اور طالبان کے درمیان سمجھوتا طے پایا تھا۔ اس کے فوری بعد طالبان کے ارکان دوحہ کی سڑکوں پر نکل آئے تھے اور انھوں نے جشن منایا تھا۔وہ بظاہر اس سمجھوتے کو اپنی فتح قراردے رہے تھے جبکہ امریکی سفارت کارتب الجھاؤ کا شکار نظر آرہے تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے دوحہ سے ایک رپورٹ میں بتایا کہ: ’’ہفتہ کے دن کا آغاز ہوتے ہی فتح کی خوشی منانے کا منظر نظر آرہا تھا اور طالبان کے لیڈروں اور ارکان نے دست خطوں کی تقریب سے قبل ہی دوحہ کی شاہراہوں پر ایک چھوٹا سا مظاہرہ بھی کردیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے قطر کے بطور ثالث کردار کو سراہا تھا‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا تھا: ’’قطر نے یہ جان لیا تھا کہ دنیا اب زیادہ محفوظ جگہ بن چکی ہے،اس لیے اب افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سیاسی سمجھوتے پر پیش رفت کا وقت آگیا ہے۔قطر،ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کا افغانستان میں امن کی حمایت کرنے پر شکریہ‘‘۔
سیکرٹری آف اسٹیٹ نے ایک اور بیان میں کہا کہ ’’وہ قطر کا افغانستان میں قیامِ امن اور مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے پر بہت زیادہ شکر گزار ہیں‘‘۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قطر نے امریکا کے لیے درحقیقت کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ایک مرتبہ پھر امریکا کے خارجہ پالیسی سازوں کو دھوکا دیا ہے، لیکن فی الوقت یہ واضح نہیں ہے۔ اس سمجھوتے کو طالبان امریکا کے ہتھیار ڈالنے سے تعبیر کررہے ہیں۔اس گروپ نے بظاہر ان تمام نکات کو مسترد کردیا ہے، جن پر انھوں نے دستخط کیے تھے۔اس معاہدہ میں بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ جو کاغذ پر تو بہت اچھی لگ رہی ہیں۔ جیسا کہ طالبان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ القاعدہ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں رکھیں گے۔
تاہم طالبان کے نزدیک اس کاغذ کی کوئی قدر وقیمت نہیں کہ جس پر انھوں نے دستخط قلم بند فرمائے ہیں۔ وہ القاعدہ سے ناتا نہیں توڑیں گے، کیونکہ انھوں نے بدنیّتی سے مذاکرات کیے ہیں اور قطری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں،وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ ایک کھیل کھیل رہے تھے۔ انتہا پسند نظاموں کے نزدیک محض دستخطوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے اور ان کے موجودہ افعال نے اس بات کو ثابت کردیا ہے۔
طالبان کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل تو دستخطوں کی تقریب تھی۔امریکا کے اعلیٰ عہدے داروں نے طالبان کے ان راہنماؤں کے ساتھ مصافحے کیے، تصاویر کھنچوائیں، ویڈیو بنوائیں، جنہوں نے لاتعداد امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی ذمے دار فوجوں کی کمان کی تھی۔ یہ تصاویر طالبان کے لیے پروپیگنڈا کا ایک انمول تحفہ اور خزینہ ہیں۔
ہم پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ یہ سمجھوتا کاغذ پر تو بہت ہی شائستہ نظرآتا ہے۔اس میں طویل مدت کے لیے تشدد میں کمی لانے اورافغان حکومت کی فورسز کے ساتھ جنگ بندی کو برقرار رکھنے کا وعدہ موجود ہے لیکن پھر کیا ہوا۔اس سمجھوتے پر دستخط ہوئے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ یہ رپورٹس منظرعام پر آنا شروع ہوگئیں، جن میں یہ بتایا جارہا تھا کہ طالبان کے فوجی یونٹوں نے ملک بھر میں افغان فوج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
مزید برآں طالبان نے ایسے بیانات جاری کیے ہیں، جو دوحہ سمجھوتے سے بالکل متصادم ہیں۔یہ واضح ہوچکا ہے کہ انتہا پسند گروپ امریکا، طالبان سمجھوتے کی اپنے انداز میں تشریح کررہا ہے،اس کے ساتھ ایک خالی چیک کا معاملہ کررہا ہے کہ انھیں اپنی مرضی کے مطابق سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ نیز اس کے پاس اس سمجھوتے کی صورت میں پروپیگنڈے کا ایک آلہ بھی ہاتھ لگ گیا ہے، جو اس کو اب مغرب کے خلاف اعلانِ فتح کے لیے بروئے کار لا سکے گا۔
امریکا اس طرح دوحہ سے لوٹا ہے کہ اس کے پاس ’’افغان امن مذاکرات‘‘ اور سمجھوتوں کے بارے میں دنیا کو دکھانے کو کچھ نہیں ہے۔ قطری اس مَن چاہے بھاشن کی تشہیرکرتے رہیں گے کہ وہ بین الاقوامی ثالث کار کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔طالبان نے پروپیگنڈے کے محاذ پر اپنی فتح اور بین الاقوامی قانونی جواز حاصل کر لیا ہے جبکہ امریکا کا محکمہ خارجہ قطر سے خالی ہاتھ لوٹا ہے۔ ان کے درمیان طے شدہ سمجھوتے کو افغانستان کے دیرینہ جنگی سردار پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔
یہ اندازہ کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قطر ہمارے سمجھوتوں کے لیے ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے تو پھر ہمارے ہاتھ کچھ بھی کیوں نہیں آتا ہے؟دوحہ کے حکمران ہمارے دشمن کے طرف دار ہیں اور وہ ان کے حق میں ایک نظریاتی تعصب کے حامل ہیں۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۱۰؍مارچ ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply