گلبدین حکمت یار نے ۱۹۷۴ء میں حزبِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ حزب طویل پابندیوں اور قیادت کی روپوشی کے باوجود آج بھی افغانستان کی ایک اہم اور توانا اسلامی، نظریاتی اور جمہوری جماعت ہے۔
پچھلے دنوں سلیم صافی نے اپنے ٹی وی پروگرام ’’جرگہ‘‘ کے لیے جناب حکمت یار کا انٹرویو لیا، جو ۹ اور ۱۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو ’’جیو نیوز‘‘ پر نشر ہوا۔
س: سب سے پہلے تو یہ بتایے کہ افغانستان میں کیا صورتحال ہے؟ پاکستان میں لوگ جتنا اپنے ملک کے بارے میں بے چین ہیں، اتنے افغانستان کے بارے میں بھی، افغانستان کس طرف جارہا ہے؟
ج: حقیقت یہ ہے کہ جنگ بتدریج اب بھی جاری ہے۔ شروع دن سے لے کر آج تک جنگ پھیل رہی ہے۔ اب بھی تقریباً پچیس فیصد علاقوں میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ تقریباً ۵۶ لاکھ سے زائد افغان آج بھی بے وطن ہیں۔ یعنی اب بھی ہر پانچواں افغانی مہاجر ہے، بے شک وہ ملک کے اندر ہے یا بیرون ملک ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار افغان ہجرت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور افغان حکومت اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ حکومت بے انتہا کمزور ہے۔ حکومت جنگ کے خاتمے اور امن قائم کرنے میں بے بس اور ناکام نظر آتی ہے۔ پہلے جب بیرونی افواج کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی تب بھی حکومت بے بس اور ناکام تھی، اور اب جب یہ تعداد کم ہے ، اب بھی حکومت بے بس اور ناکام ہے۔ مہاجرین کی تعداد میں جوں جوں اضافہ ہوگا جنگ طویل ہوتی جائے گی، حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں کامیابی نظر نہیں آرہی یہ جنگ بیرونی افواج جیت سکتی ہیں نہ ہی ان کے مسلح مزاحمت کار جیت سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ جنگ امریکیوں کو اتحادی افواج سے وراثت میں ملی ہے اور اس جنگ کی حکمت عملی اور ترتیب وہی ہے جو اتحادیوں نے کی تھی۔ امریکا نے بھی نیٹو کے ساتھ مل کر زمینی فوج استعمال کی اور ان کو بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ ماضی میں سوویت افواج کو کرنا پڑا تھا۔ یہ ویسی ہی جنگ ہے جیسی سوویت یونین کی جارحیت کے مقابلے میں لڑی گئی۔ اس سب کے باوجود میں امید اور یقین رکھتا ہوں کہ جنگ کا خاتمہ جلد ہوگا کیونکہ کوئی بھی جنگ مسلسل جاری نہیں رہ سکتی، ایک نہ ایک دن اس کا خاتمہ ہونا ہوتا ہے۔ اور یہ جنگ بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔
س: آپ پچھلے ۱۵، ۱۶ سال میں یہی کہتے رہے کہ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہی جنگ کی بنیادی علّت ہے، اب جبکہ غیر ملکی افواج، ڈونلڈ ٹرمپ نے جو پالیسی اعلان کی ہے اس میں اپنی افواج کے نکالنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا، تو غیر ملکی افواج کے ہوتے ہوئے آپ امن کے لیے کیسے پُرامید ہیں؟
ج: یہ بات صحیح ہے امریکی صدر نے مزید امریکی افواج افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ جنگ جاری رکھنے اور جیتنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے، جیسا کہ پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے نہیں پتا کہ امریکی افغانستان میں کیوں قیام کریں، وہ امریکی افواج کے افغانستان میں رہنے کے قائل نہیں تھے مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران ان کی سوچ میں کیوں تبدیلی آئی اور اب وہ جنگ کی بات کر رہے ہیں اس کے کچھ عوامل ہیں۔ مگر بہرصورت حقیقت یہ ہے کہ انہیں اس جنگ میں کامیابی نہیں ہوگی اور امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی جنگ میں طوالت کا باعث بنے گی۔ اور ان کی موجودگی امریکا کے مخالفین کے لیے تحریک کا باعث ہوگی۔ افغانستان کی صورتحال ایسی ہے کہ امریکا روس کی مدد اور تعاون سے بھی یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ ایران، روس اور پاکستان سب نے امریکا کا ساتھ دیا ہے بلکہ پاکستان نے روس کے خلاف تمام وسائل، افرادی قوت اور زمینی راستوں سمیت امریکا کا بھرپور ساتھ دیا، امریکا روس کے راستے اپنی افواج اور فوجی سازوسامان لایا۔ ایران نے بھی امریکا کو مکمل خدمات فراہم کیں مگر وہ جنگ نہیں جیت سکے۔ اب تو حال یہ ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اسی طرح دیگر ممالک بھی افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی سے خوش نہیں ہیں، ان حالات میں مشکل ہے کہ وہ یہ جنگ جیت سکیں۔
س: لیکن حکمت یار صاحب غیر ملکی افواج کو نکلوانا بھی اس وقت بہت مشکل ہے، آپ نے خود فرمایا کہ افغان حکومت کمزور ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز امریکا کی مدد کے ساتھ طالبان کی مزاحمت کو ختم نہیں کرسکتے تو امریکی افواج کے نکلنے کے بعد تو یہ خطرہ ہے کہ پھر طالبان افغانستان پر قابض ہو جائیں گے یا پھر خانہ جنگی شروع ہو جائے گی تو امریکی افواج کا اس اسٹیج پر نکلنا ممکن ہے؟
ج: ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں اور میرا اندازہ ہے کہ وہ یہ معقول مطالبہ تسلیم کر لیں گے، کیونکہ وہ بھی نکلنا چاہتے ہیں اور مجھے امریکی سفیر نے پہلی بات یہ کہی کہ آپ مطمئن رہیں امریکا زیادہ عرصہ افغانستان میں رکنا نہیں چاہتا۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے موثر اور جامع اقدامات کیے جائیں اور ایک قابل عمل تحریری معاہدہ کیا جائے۔ ایک ایسا تحریری معاہدہ جو افغان ملت کو اطمینان دلا سکے کہ بیرونی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔اگر تمام افغان باہمی صلح کریں تو بیرونی افواج کے افغانستان میں قیام کے بہانے ختم ہو جائیں گے۔ ہم طالبان سے بھی کہتے ہیں آئیں صلح کریں اور ان غیر ملکیوں کا یہ بہانہ ختم کریں، ہم آپس میں مل بیٹھیں جنگ کا خاتمہ کریں کیونکہ جنگ کی صورت میں ہر کسی کو بہانہ مل رہا ہے کہ وہ یہاں قیام کو طوالت دے سکے۔ کیونکہ نہ صرف امریکا بلکہ اس کے مخالفین بھی یہاں قیام چاہتے ہیں اور اپنی جنگیں افغان سرزمین پر لڑنا چاہتے ہیں، ہم طالبان سے کہتے ہیں کہ ان سازشوں کو آشکار کریں اور ان بہانوں کا خاتمہ کریں اور افغان بحران کا آپس میں مل بیٹھ کر حل کریں۔
س: آپ کو غیر ملکی افواج پر اعتراض تھا، طالبان کو بھی تھا، وہ آج بھی ہیں اور آپ لوگ یہ کہتے تھے کہ افغان حکومت بااختیار نہیں ہے، تو پہلے تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ نے اپنی سوچ کیسے بدل لی، آپ کو اپنی مسلح جدوجہد ناکام ہوتی نظر آئی یا کوئی دوسری چیز تھی کہ آپ غیر ملکی افواج کی موجودگی میں کابل میں آکر افغان حکومت کے ساتھ بیٹھ گئے؟
ج: اسلام میں جنگ بھی ہے اور صلح بھی، دونوں میں سے کسی کا انتخاب ہر مسلمان کو دیا گیا ہے۔ جنگ اور صلح دونوں کی اپنی شرائط اور تقاضے ہوتے ہیں۔ ہمارے پیغمبرؐ نے قریش اور یہودیوں کے ساتھ جنگ بھی کی اور صلح بھی۔ ایک گروہ کے ساتھ جنگ کی اور پھر صلح کی اور دوسرے گروہ کے ساتھ پہلے صلح کی اور بعد میں جنگ بھی کی۔ ہمارے مذہب میں یہ دونوں موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے سوویت یونین اور بعد میں امریکا اور نیٹو کے خلاف جنگ کی، سب سے پہلے جہاد کا اعلان ہم نے کیا تھا۔ مگر جب ہم نے یہ محسوس کیا کہ اب غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں، تقریباً ۹۵ فیصد افواج نکل چکی ہیں اور جو باقی ہیں وہ بھی انخلا چاہتے ہیں اور جب افغان صدر نے اعلان کیا کہ ۲۰۱۶ء تک کوئی غیر ملکی افواج افغانستان میں نہیں رہیں گی، تب ہم نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا اور پھر حزب اسلامی اور افغان حکومت نے مذاکرات کیے اور الحمدللہ یہ مذاکرات براہ راست تھے ان میں کوئی اور نہیں تھا۔ یہ معاہدہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا اور اس میں تمام تر شرائط موجود ہیں۔ یہ ایک باعزت معاہدہ ہے، اس معاہدے میں لکھا ہے کہ حزب اسلامی افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں ایک قابل عمل تحریری معاہدہ ہونا چاہیے۔ ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم نے افغان بحران کے حل کے لیے پہلے ایک راستہ (جنگ) اختیار کیا اور اب دوسرا راستہ (صلح) اختیار کیا۔ ہمارا ہدف بھی وہی ہے جو پہلے تھا اور موقف بھی۔
س: یہ جو آپ نے فیصلہ کیا افغان حکومت کے ساتھ صلح اور مفاہمت کا، تو ایک جو آپ کا چند مہینے کا تجربہ ہوا ہے کابل آنے کے بعد تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کا تجربہ کامیاب ہے؟ اور دوسرا فریق یعنی افغان حکومت اپنے وعدوں کو پورا کر رہی ہے؟
ج: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ یہ ہے کہ ہم یعنی حزب اسلامی اس معاہدے پر کاربند ہے اور اپنے لیے باعث عزت سمجھتی ہے، اس کے باوجود کہ حکومت نے بہت سی باتوں پر عمل نہیں کیا کیونکہ ہماری حکومت کمزور ہے اور بہت سی باتوں پر عمل کی سکت نہیں رکھتی، بہت سی باتوں میں وہ لاچار ہے، کئی باتوں پر وہ راضی ضرور ہیں مگر عمل سے قاصر ہیں، باوجود اس کے کہ معاہدہ پر عمل درآمد لازم تھا پھر بھی وہ نہیں کر رہے، حکومت کو ابھی تک یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عمل درآمد کروا سکے۔ ہم اپنی موجودگی کو مفید سمجھتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم متحارب گروپوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے اور انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس کا نتیجہ آئندہ انتخابات میں عوام دیکھیں گے۔
س: اس وقت طالبان یہ کہتے ہیں کہ ہم امریکا سے مذاکرات کے لیے تو تیار ہیں لیکن افغان حکومت کے پاس اختیار نہیں ہے، اس سے مذاکرات کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا، جب آپ خود یہ فرما رہے ہیں کہ افغان حکومت خود بھی کچھ حوالوں سے بے اختیار ہے تو آپ طالبان کو کیا تجویز دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات کریں، تو کس سے کریں اور کیا افغان حکومت جو بے اختیار ہے وہ طالبان کو کوئی گارنٹی کیسے دے گی یا اس کے مطالبات کو منظور کیسے کرے گی؟
ج: میں طالبان دوستوں اور بھائیوں سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ یہ کسی افغان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ افغان قضیے میں کسی تیسرے فریق کو شریک کرے اور وہ امریکا سے بات چیت کیوں کر رہے ہیں؟ افغانستان ان کا گھر ہے، افغان اپنے مسائل خود آپس میں حل کریں۔ میں اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہم نے مذاکرات افغانوں کے ساتھ کیے، بے شک وہ کتنے ہی بے اختیار کیوں نہ ہوں یہ مذاکرات دو افغانوں کے درمیان تھے، یہ ہمارے گھر کا مسئلہ ہے اور ہم یہ مسئلہ گھر میں ہی حل کریں گے۔ قطعاً کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکا سے مذاکرات کیے۔ ہم نے نہ کسی کو ثالث بنایا، نہ کسی کی ثالثی چاہتے ہیں، ہم یہاں موجود ہیں ہمیں کسی کی ثالثی کی ضرورت بھی نہیں۔ ہم طالبان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے راستے کا انتخاب کریں، ہم ان کے تمام مطالبات کی کھلی حمایت کرتے ہیں، چاہے یہ مطالبات غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق ہوں یا ان میں کسی ترمیم یا حکومت کی تبدیلی یا اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ہو یا جو بھی شرعی مطالبہ ہو، ہم ان کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔ طالبان بہت سی شرائط واضح نہیں کر رہے، انہیں چاہیے کہ وہ بھی کابل حکومت کے ساتھ ہماری طرح کا تحریری معاہدہ کریں۔ اگر حزب اسلامی اور طالبان یکساں موقف اختیار کرلیں تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہمارے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔
س: آپ جب کابل تشریف لائے تو جو تقریب ہوئی تھی صدارتی محل میں آپ کے استقبال کے لیے، اس میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ ثالثی کے لیے تیار ہیں اور آپ ثالثی کریں گے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان۔ اس سلسلے میں آپ نے ابھی تک کیا کوششیں کیں اور کیا آپ ثالثی کے لیے آج بھی تیار ہیں، دونوں کے درمیان؟
ج: بالکل ہم تیار ہیں، نہ صرف ہم تیار ہیں بلکہ اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اچھا ہوگا کہ ہم طالبان کی طرف سے افغان حکومت سے بات کریں، طالبان کا موقف آگے پہنچائیں، ہمارے طالبان کے مختلف دھڑوں کے ساتھ مفید رابطے موجود ہیں اور مستقبل میں بھی ان رابطوں کے خواہش مند ہیں۔ میں طالبان کے پیغامات کو دل کی گہرائیوں سے لیتا ہوں۔ طالبان کے موقف میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے اب بھی طالبان کے موثر رہنما صلح کے حق میں ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کو جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ اندرونی اور بیرونی عوامل ایسے تھے کہ طالبان کے پاس جنگ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا، ہم نے حکومت سے بھی کہا ہے کہ طالبان کا مسئلہ حل کیا جائے طالبان بھی یہ احساس کریں کہ ایک باوقار اور باعزت معاہدے کا امکان موجود ہے، حکومت طالبان کے بارے میں اپنے لب و لہجے میں تبدیلی لائے… پہلے حکومتی ذمہ داران کہتے تھے کہ طالبان میں کوئی اچھا اور بُرا نہیں ہے حکومت اپنے بازوؤں میں اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ وہ طالبان کو ختم کرسکے، وہ امریکا سے کہتے ہیں کہ وہ طالبان کا خاتمہ کریں، کاش کہ کابل حکومت کے پاس یہ طاقت ہوتی کہ وہ اپنے مخالفین کا خاتمہ کر سکے۔ یہ دوسروں سے چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کریں ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ طالبان میں اچھا اور بُرا نہیں ہے تو پھر حکومت خفیہ مذاکرات کیوں کر رہی ہے اور خفیہ پیغامات کیوں بھیجتی ہے؟ اس لیے ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ طالبان کے بارے میں اپنا لہجہ تبدیل کرے تاکہ طالبان کو مطمئن کیا جاسکے کہ ان کے تمام جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔
س: امریکی اجازت دے دیں گے افغان حکومت کو کہ وہ طالبان کو اپنے نظام میں جگہ دے دے؟
ج: ان کو آزمانا چاہیے، طالبان ایک بار تجربہ کر لیں اور مذاکرات میں پہل کریں مذاکرات کا آغاز کریں، میں سمجھتا ہوں کہ صلح کی مخالفت ہر ایک کے لیے مشکل ہے۔ ملک کے اندر موجود لوگوں کے لیے بھی اور ملک سے باہر موجود لوگوں کے لیے بھی۔ امریکا کے لیے بھی افغانستان میں صلح کے عمل کی مخالفت کرنا مشکل ہے، طالبان صلح اور مذاکرات چاہیں تو امریکا سمیت کوئی بھی مخالفت کی جرأت نہیں کرے گا۔
س: لیکن آپ کی جماعت جہادی جماعت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت بھی تھی، طالبان کی تنظیم سیاسی نہیں ہے تو کیا وہ موجودہ افغان آئین کو مان سکتے ہیں اور کیا وہ آپ کی طرح انتخابی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں؟
ج: وہ پہلے یہ بتا دیں کہ افغان آئین میں ایسی کون سی شقیں ہیں جنہیں وہ ماننے کو تیار نہیں، ہم نے بہت سے تحفظات کے باوجود افغان آئین کو تسلیم کیا، ہمیں اس آئین کے مختلف حصوں پر اعتراضات ہیں، میں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ ہم آئین کا متبادل بھی رکھتے ہیں، وہ متبادل آئین پہلے سے تحریر بھی کیا ہے اور اسے مرتب بھی کیا اور وہ ہمارے پاس موجود بھی ہے۔ جب کبھی بھی جرگے میں بنیادی آئین پر بحث ہوئی تو شرکاء جرگہ افغانستان کے موجودہ آئین کے مقابلے میں ہمارے تیار کردہ آئین کو ترجیح دیں گے۔ طالبان بھی اب بہت تجربہ کار ہو چکے ہیں انہوں نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک جنگی قوت ہیں بلکہ ایک سیاسی قوت بھی ہیں۔ اب وہ ایک جنگی، جہادی اور سیاسی قوت کے طور پر مذاکرات میں حصہ لیں گے۔ میں طالبان کی طرف سے آگاہی نہیں رکھتا مگر میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کی طرف بھی آئین کو تسلیم کرنے میں بظاہر کوئی خاص مشکل نہیں، اور اگر ایسا ہے بھی تو آئین میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ مگر ایک اصولی طریقے سے۔ ہم اور طالبان مل کر قومی جرگہ کے سامنے اپنے تحفظات رکھ سکتے ہیں۔
س: یقیناً طالبان کافی تجربہ حاصل کرچکے ہیں لیکن مختلف عالمی طاقتیں اور علاقائی طاقتیں اور پڑوسی ممالک بھی افغانستان میں اپنی پراکسی وار لڑنے کا طویل تجربہ حاصل کر چکے ہیں اکثر آپ لوگ بھی یہ کہتے ہیں، میری بھی اپنی یہ رائے ہے کہ افغانستان میں دوسروں کی پراکسی جنگ پر افغان خون بہا کے، افغانیوں کو لڑا کے، ان جنگوں کو لڑا جارہا ہے۔ تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ جو عالمی اور علاقائی طاقتیں ہیں وہ افغانستان میں جنگ کو ختم ہونے دیں گی، اور اس وقت آپ کس کس ملک کے افغانستان میں کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں، بالخصوص پڑوسی ممالک ؟
ج: اس میں کوئی شک نہیں بہت سے ممالک موجودہ جنگی صورتحال میں شریک ہیں، بہت سے ممالک اپنے مفادات کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں جن میں ہمارے پڑوسی ممالک بھی شامل ہیں اور دیگر ممالک بھی۔ ہمارے پڑوسی کسی قیمت پر اس بات پر آمادہ نہیں ہیں کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو جائے، انہوں نے اپنے تمام تر وسائل اس کوشش میں جھونک رکھے ہیں کہ افغانستان میں جنگ اور بدامنی ہو اور افغان حکومت کمزور ہو، حتیٰ کہ ہماری مختلف قومیتوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔ وہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے حق میں نہیں ہیں۔ گزشتہ تیس چالیس سال سے مرحلہ وار وہ اس جنگی صورتحال کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہمسائے ایران کا افغانستان قضیے میں سب سے منفی کردار رہا ہے، اس نے ہمیشہ افغانستان میں جنگ کو ترجیح دی ہے، اس کی توجہ ہمیشہ اس پر مرکوز رہی ہے، کم ازکم تیس سال سے ایران اس جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ اس جنگ میں اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ پاکستان ہے، پاکستان کے علاوہ اگر کسی نے اس جنگ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ امریکا ہے۔ امریکا نے اس جنگ میں بے پناہ مالی وسائل خرچ کیے ہیں اس نے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں، ہزاروں لوگ اس جنگ میں مارے گئے اور زخمی ہوئے۔میں نہیں سمجھتا کہ امریکا نے اس جنگ سے کچھ حاصل کیا، کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ کیا حاصل کیا۔ اگر کسی ملک نے اس جنگ میں نقصان اٹھایا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان میں ایسے گروہ پیدا ہوگئے جنہوں نے پاکستان ہی کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں، اس کے اثرات کراچی تک پہنچ چکے ہیں۔ کئی سالوں سے پاکستان کو اس جنگ کا سامنا ہے ۔ پاکستان نے افغان مارکیٹ بھی کافی حد تک گنوا دی ہے اور اسے مرکزی حیثیت بھی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان وسطی ایشیا سے توانائی کا حصول چاہتا تھا وہ وہاں سے گیس اور بجلی حاصل کرنا چاہتا تھا وہ بھی اس جنگ کی وجہ سے حاصل نہیں کرسکا۔ آپ کو پتا ہے پاکستان کو اس وقت کن بحرانوں کا سامنا ہے اس میں بجلی کا بحران ہے گیس کا بحران ہے۔ تاپی (TAPI) منصوبہ ایک بڑا منصوبہ ہے۔ پاکستان اس کی تکمیل چاہتا ہے۔ امریکا بھی اس منصوبے کا حامی اور وہ بھی اس کی تکمیل چاہتا ہے صرف ایک ملک ہے جو نہیں چاہتا کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو، اور وہ ایران ہے۔
س: پاکستان کو یہ شکوہ ہے کہ ہندوستان افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو آپ موجودہ حالات میں ہندوستان کو کیا تجویز دیتے ہیں، ایران کو کیا تجویز دیتے ہیں اورپاکستان کو کیاتجویزدیتے ہیں کہ وہ افغانستان سے متعلق کیا پالیسی اپنائیں؟
ج: ہم چاہتے ہیں ہمارے ہمسایہ ممالک ہمارے ملک افغانستان کو ایک حساس علاقے کی نظر سے دیکھیں، انہوں نے اپنے مفادات افغانستان سے وابستہ کر رکھے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی مخالفت اور مزاحمت افغان سرزمین پر منتقل نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دہلی اور اسلام آباد آپس کے اختلافات کو آپس میں حل کریں اور اپنی جنگ افغان سرزمین پر منتقل نہ کریں، ہم ماسکو اورواشنگٹن سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے اختلافات کو کسی اور جگہ پالیں اور اپنی رقابتوں میں افغانستان کو قربان نہ کریں۔ اسی طرح ایران اور عرب ممالک سے بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اختلافات چاہے وہ سیاسی ہوں، امتناہی ہوں، نظریاتی یا مذہبی اختلافات ہوں انہیں افغانستان منتقل نہ کریں، صلح سب کے فائدے میں ہے افغان امن سب کے مفاد میں ہے جنگ میں سب کا نقصان ہے۔ خصوصاً ہمارے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران یہ خیال ذہن سے نکال دیں کہ یہ جنگ ہمیشہ ان کے لیے فائدے کا باعث ہوگی۔ اس جنگ کے شعلے ایک دن ان کے دامن تک پہنچیں گے۔
س: ایران تو بظاہر طالبان کا مخالف ہے اور افغان حکومت چاہے حامد کرزئی صاحب کی ہو یا اشرف غنی صاحب کی، ان کے ساتھ تو ایران کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ایران کس طرح جنگ کو ہوا دے رہا ہے؟
ج: ایران افغان جنگ میں فریق ہے، وہ متحارب گروہوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ جتنا بھی اسلحہ افغانستان آیا ہے وہ ایران کے راستے افغانستان آیا ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں جتنا بھی اسلحہ اور مہم جوئی ہوئی وہ ایران سے ہوئی۔ روسی افواج کے انخلا اور ڈاکٹر نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد جتنا بھی اسلحہ افغانستان آیا ایران کے راستے مشہد سے ہرات اور ہرات افغانستان منتقل ہوا۔ اور ابھی سب کو معلوم ہے کہ طالبان کے بعض دھڑوں کو اسلحہ فراہمی اور کارروائیوں میں ایران مدد کررہا ہے۔
س: آپ کو اگرچہ پاکستان سے کافی شکایت رہی ہیں مختلف اوقات میں عبوری حکومت کی تشکیل جب ہو رہی تھی مجاہدین کی حکومت آنے کے بعد، اس وقت بھی پاکستان نے آپ کے ساتھ زیادتی کی، بعد میں بھی آپ کے ساتھ زیادتی کی، آپ ایک وقت اتنے مجبور ہوئے کہ آپ پاکستان کے بجائے ایران جانے پر مجبور ہوئے ابھی بھی آپ کے شکوے شکایات ہوں گے لیکن ظاہری بات ہے کہ سب سے زیادہ عرصہ جس مجاہد لیڈر نے پاکستان میں گزارا ہے وہ آپ ہیں، پھر ماضی میں جماعت اسلامی جیسی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات رہے ہیں۔ اس وقت جو پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے مابین عدم اعتماد ہے، جو غلط فہمیاں ہیں آپ اس میں کوئی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
ج: میں نے کابل حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے، ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ صلح اور امن کی سیاست کو فروغ دیں اور انہیں اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے اختلافات افغان سرزمین پر منتقل کریں۔ سب کے ساتھ اپنے تعلقات میں میانہ روی اور توازن رکھیں، ایسا نہ ہو کہ ایک کے ساتھ بہت زیادہ قربت اختیار کریں اور اس وجہ سے دوسرے سے دشمنی بن جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کابل حکومت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتی ہے۔ پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے، ہم ایسا نہ کریں کہ کراچی کی جگہ چاہ بہار پاکستان کی جگہ ایران کا انتخاب کریں۔ ہم ایسی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جنگ کا راستہ اختیار کریں۔ افغانستان کی بہتری اسی میں ہے کہ ہم صلح کا راستہ اختیار کریں۔ ہم پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا راستہ اپنائیں، ہمارا وطن تباہی کا شکار ہے ہمیں امن کا راستہ اپنا کر اپنے وطن کی تعمیر کرنی ہے نہ کہ جنگ کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ جنگ سے ہمیں نقصان ہوگا پڑوسیوں کے ساتھ جنگ میں بھی ہمیں نقصان ہوگا۔ افغانستان اور پاکستان اگر چاہیں گے کہ میں صلح اور امن کے لیے کوئی کردار ادا کروں تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔
س: ابھی تک آپ سے کسی نے ڈیمانڈ تو نہیں کی، پاکستان یا افغان حکومت میں سے کسی نے باقاعدہ پیشکش تو نہیں کی؟
ج: نہیں، ابھی تک کسی نے نہیں کی۔
س: افغانستان میں کچھ قوتیں قبل از وقت انتخاب کا مطالبہ کر رہی ہیں ، وہ کہہ رہی ہیں کہ اشرف غنی کی حکومت ناکام ہوگئی ہے۔ ابھی قندھار میں بھی کچھ لوگوں نے ایک جرگہ بلایا ہوا تھا، آپ خود بھی شروع میں فرما رہے تھے کہ شاید افغان حکومت اتنا ڈیلیور نہیں کرسکی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فوری انتخابات ہونے چاہئیں افغانستان میں یا وقت پر ہونے چاہئیں؟
ج: میں افغان سیاسی جماعتوں میں سوائے حزب اسلامی کے کسی سیاسی جماعت کو نہیں دیکھتا کہ وہ وقت پر انتخاب چاہتی ہو۔ حزب اسلامی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات وقت پر نہ ہوں وہ انتخابات سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہوں نے عوامی اعتبار کھو دیا ہے، قدرت نے انہیں اقتدار عطا کیا مگر وہ ناکام ہو گئے۔ وہ ملت کی حمایت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہم اس بات سے متفق نہیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوں۔ کچھ سیاسی قوتیں انتخابات کے انعقاد پر بھی معترض ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر نہ ہوں اور کچھ لوگ لویہ جرگہ کا انعقاد چاہتے ہیں تاکہ انتخابات نہ ہوں آئین میں لویہ جرگہ کی تعریف موجود ہے، یہ لویہ جرگہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انتخابات ہو جائیں اور اس جرگے کے انعقاد کے بعد ہم شوریٰ عمل میں لائیں اور پھر لویہ جرگہ ہو۔ وہ لوگ جو انتخابات سے خوفزدہ ہیں انہوں نے آپس میں اتحاد کیا ہے، ان کی خواہش یہ ہے کہ عدم استحکام ہو اور ان کے پاس حیلے بہانے ہوں تاکہ انتخابات نہ ہو سکیں۔ حزب اسلامی وقت پر انتخابات چاہتی ہے اور ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ انتخابات میں تاخیر کرے۔ انتخابات کے لیے بنایا گیا کمیشن ہماری غیر موجودگی میں تشکیل دیا گیا اس کمیشن پر ہمارا اعتراض یہ تھا کہ وہ گروپوں کے درمیان تشکیل دیا گیا ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہے کہ یہ چار جماعتوں کے درمیان ہے۔ کمیشن میں سات میں سے چار افراد زیادہ فعال اور متحرک ہیں یہ جو فعال اور متحرک لوگ ہیں ان کے والد اور بھائی حزب اسلامی میں اہم عہدوں پر رہے ہیں اب اس وجہ سے یہ لوگ ان چار لوگوں کو کمیشن سے نکالنا چاہتے ہیں، ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے اس سے پورا کمیشن ختم ہوگا اور انتخابات میں تاخیر ہوگی۔
س: آپ خود صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے؟ اور آپ خود امیدوار بنیں گے یا کسی اور کو امیدوار بنائیں گے؟
ج: ابھی صدارتی انتخابات میں کچھ وقت ہے، پہلے پارلیمانی انتخابات ہو جائیں اس کے بعد صدارتی انتخابات ہوں گے۔ ابھی اس پر ہم نے مشاورت نہیں کی کہ حزب اسلامی خود اپنا امیدوار کھڑا کرے یا پھر کسی اور جماعت کی حمایت کرے، البتہ میں نے پہلے کہا تھا کہ ہم ایک مناسب شخص کھڑا کریں گے، ایک ایسا شخص جو عوام میں مقبول اور پسندیدہ ہو اور دیگر ممالک کے لیے قابل قبول ہو۔ میں نے یہ کہا تھا کہ ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ ایسی صورت میں حزب اسلامی انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور کامیاب ہو جاتی ہے تو کچھ ممالک خلل ڈالیں تو ہم ایک بار پھر جنگ کے دھانے پر پہنچ جائیں گے اس لیے ہم اس بات کو ترجیح دیں کہ کسی قابل قبول شخص کی حمایت کریں، ان شاء اللہ وہی کامیاب ہوگا جسے حزب اسلامی کی حمایت حاصل ہوگی اور جسے حزب اسلامی کی حمایت حاصل نہیں ہوگی وہ کامیاب نہیں ہوگا۔
س: یقیناً حزب اسلامی سب سے بڑی جماعت تھی اور شاید ہے، لیکن جب آپ پہاڑوں میں تھے اس دوران کچھ لوگ حاجی کشمیر خان جیسے وہ بھی جہاد میں مصروف تھے، کچھ لوگ پشاور میں بیٹھے تھے، کچھ لوگ آپ کی حکومت اور نظام کا حصہ بن گئے تھے۔ تو کابل آنے کے بعد کیا حزب اسلامی کی اس قوت کو مجتمع کر دیا ہے آپ نے، یہ وہ دھڑے اب بھی برقرار ہیں؟
ج: حزب اسلامی پہلے بھی متحد تھی اور اب بھی منظم ہے۔ بہت سخت حالات میں دشمن اور حزب اسلامی کے مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود حزب اسلامی تقسیم نہیں ہوئی تو اب بہت مشکل ہے کہ تقسیم ہو جائے۔ ہاں جتنے بھی دفاتر کھلے ہیں کسی نے بھی نہیں کہاکہ ہم حزب اسلامی سے جدا ہیں کسی نے نہیں کہا کہ میں حزب اسلامی کا سربراہ ہوں اور سب نے اپنے کارکنان اور عوام کو بتایا کہ ہم نے مصلحت کے تحت دفاتر کھولے ہیں جب حزب اسلامی کابل واپس آجائے گی تو ہم اپنے تمام دفاتر بند کر دیں گے اور سب لوگ اس بات پر متفق تھے ، وہ دفاتر کھلے رہے جن کے کچھ خدشات تھے ان سے ہماری بات ہوئی اور تحریری معاہدے ہوئے اس پر انہوں نے بھی دستخط کیے اور اس کی بدولت ہم نے تین ہزار لوگوں پر مشتمل شوریٰ تشکیل دی۔
س: آپ کی شوریٰ میں ۳ ہزار لوگ ہیں؟
ج: ہزاروں لوگوں میں سے ۳ ہزار افراد کا انتخاب کیا گیا۔
س: عام تاثر یہ ہے کہ آپ کا تعلق اگرچہ قندوز اور شمال سے ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ حکمت یار صاحب بنیادی طور پر پختونوں کے لیڈر ہیں، یہ جو شوریٰ آپ کی بن گئی ہے یا تنظیمیں بن گئی ہیں ان میں شمال کے اور وسطی افغانستان کے لوگ بھی ہیں؟
ج: افغانستان کے ہر بڑے شہر، ہر قصبے ہر دیہات ہر علاقے سے منتخب کیے ہیں۔ افغانستان میں کوئی ایسی قوم نہیں رہ گئی جس کے لوگ اس شوریٰ میں شامل نہ ہو۔ پشتون، ازبک، تاجک، بلوچ، ترکمان، نورستانی ایک قوم بھی نہیں رہ گئی جس کی نمائندگی نہ ہو اور یہ عام لوگ نہیں بلکہ موثر قومی مشران ہیں جو بڑے اعلیٰ معیار کے مطابق منتخب کیے گئے ہیں اور ایسے لوگوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو حزب اسلامی کے نظریات اور اصولوں پر کاربند ہوں۔ معیار یہ ہے کہ کئی ایک بڑی مسجد کے خطیب ہیں یا پھر عوامی جرگوں کے مشران رہے بڑے مصنفین ہیں۔ بڑے جہادی اور جنگی کمانڈر رہے ہیں، بڑے خاندانوں کے سربراہان ہیں، سابق وزیر، سفیر اور والی رہے ہیں یا سیاسی قائدین ہیں۔ وہ یہ معیارات ہیں جن کے مطابق ان تین ہزار لوگوں کا انتخاب کیا گیا ہے، بہت سے لوگ اس بات پر ناراض ہیں کہ ہمیں اس شوریٰ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
س: اسامہ بن لادن کو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ڈھونڈ نکالا، آپ کے پیچھے بھی امریکا جیسی قوت پھرتی رہی اس کے اتحادی پھرتے رہے خطے کے ممالک کی حکومتیں بھی، آپ نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ بھی ڈکلیئر کی، آپ کہاں غائب رہے اس عرصے میں؟
ج: میں مجبور ہو کر ایران گیا تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ میں ایران جاؤں، میں مرحوم استاد ربانی کے ساتھ بدخشاں سے دوشنبے (تاجکستان) گیا تھا میں وہاں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تھا، وہاں ایک ایرانی اہلکار مجھے ملا اور اس نے مجھے بتایا کہ تاجکستان کے انٹیلی جنس نے بتایا ہے کہ حکمتیار تاجکستان سے نکل جائے۔
س: یہ ۱۹۹۶ء کی بات ہے یا ۱۹۹۷ء کی؟
ج: اس وقت جب مزار شریف اور تخار کا سقوط ہو گیا تھا، میں نے کہا ٹھیک ہے میرے لیے ہیلی کاپٹر کا بندوبست کردیں، میں نے کہامجھے واپس بدخشاں جانا ہے، انہوں نے کہاکہ ہیلی کاپٹر نہیں ہے پھر میں نے اس ایرانی سے کہا گاڑی کا بندوبست کرلیں، اس نے گاڑی سے بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے کہاکہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں ایران جاؤں گا تو آپ سمجھ لیں کہ میں ایران نہیں جارہا میں دوسرے سفارتخانوں سے رابطہ کروں گا لیکن ایران نہیں جاؤں گا۔ پاکستان جانا بھی مشکل تھا جس کی وجوہات میں آپ کو بتا دوں گا کہ کیوں۔ بالآخر مجبور ہو کر میں ایران چلا گیا کیونکہ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، جب میں ایران میں تھا تو وہاں سیاسی پناہ میں نہیں بلکہ ایک سیاسی قیدی تھاجو ہر وقت ان کی زیر نگرانی تھا اور ان کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ جب طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو کچھ امریکی اہلکاروں نے مجھے پیغام دیا کہ ہم افغانستان آرہے ہیں، طالبان آپ کے دشمن ہیں آپ ہماری حمایت کریں آپ جو چاہتے ہیں ہم وہ کریں گے۔ ہم آپ کی تمام شرائط تسلیم کرتے ہیں، میں نے ان کو بتایا کہ میں ایک افغان رقیب اور حریف کی سو سالہ حکومت ماننے کو تیار ہوں لیکن کسی غیر کی ایک دن کی حکومت ایک لمحہ کے لیے تسلیم نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم آجائیں تو آپ کیا کرو گے ؟ میں نے کہاکہ میں پہاڑوں میں چلا جاؤں گا اور آپ کے خلاف ہتھیار اٹھاؤں گا، میں نے انہیں کہاکہ آپ لوگ جو اتحادی افواج افغانستان لے کر آرہے ہیں یہ اقدام غلط ہے، آپ کابل پر قبضہ تو کرلیں گے لیکن برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ یہ (اتحادی) آگئے اور ایران نے ان کا پورا ساتھ دیا اور بھرپور تعاون کیا افغانستان کے حالات میں، جس نے امریکا کا سب سے زیادہ ساتھ دیا وہ ایران ہے۔
س: پاکستان سے بھی زیادہ تعاون کیا؟؟؟
ج: ہاں، پاکستان سے زیادہ کیا ہے۔ پاکستان نے زمینی فوج استعمال نہیں کی لیکن ایران نے زمینی جنگجو بھی دیے ہیں اور وہ گروپ امریکا کے زیر اثر افغانستان میں لڑتے رہے جن کا تعلق ایران سے تھا۔ ایران نے مجھے امریکا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ایرانی اہلکار نے مجھے بتایا کہ ایرانی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ دو دن کے اندر اندر ایران سے نکل جائیں، میں نے کہا کہاں جاؤں؟ مجھے مشورہ دو، کیونکہ میرا پاسپورٹ آپ لوگوں کے پاس ہے، آپ جو بولو میں وہاں جاؤں گا۔ عصر کے وقت انہوں نے مجھے یہ پیغام دیا اور میں اندھیرا ہوتے ہی وہاں سے انہیں بغیر بتائے وہاں سے نکل گیا۔ صبح کی نماز میں نے ایرانی سرحد کے قریب پڑھی اور سورج طلوع ہوتے ہی افغانستان میں شیگل کے علاقے میں مجھ پر ڈرون حملہ کیا گیا۔ بی بی سی اور وائس آف امریکا نے خبر دی کہ مجھ (حکمت یار) پر راکٹ حملہ ہوا اور میرے چھ لوگ مارے گئے اور میری گرفتاری پر پچیس ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا۔ میرے لیے انہوں نے کنڑ، ہلمند، ننگرہار، زابل، پکتیا، کابل میں سیکڑوں گھروں کی تلاشی لی حتیٰ کہ حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کے گھروں تک کی تلاشی لی کہ حکمت یار یہاں پر ہے۔ امریکی کمانڈوز میرے اتنے قریب آگئے تھے کہ میں ان کی باتیں سُن سکتا تھا اور انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ تین راتیں انہوں نے پہاڑ کے ایک طرف تو میں نے دوسری طرف رات گزاری ہے۔ میرے اور ان کمانڈوز کے درمیان پانچ سو سے آٹھ سو میٹر تک کا فاصلہ تھا اس طرح بھی ہوا کہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر اور میں دامن اور کبھی میں چوٹی پر اور وہ دامن میں ہوتے تھے۔میں ایک علاقے تک محدود تھا اور پاکستان نہیں آسکتا تھا جب میں ایران سے نکل رہا تھا اس وقت ایک پاکستانی عہدیدار (جسے آپ جانتے ہیں میں نام نہیں لینا چاہتا) نے مجھے پیغام بھیجا کہ آپ پاکستان نہ آئیں اگر آپ (حکمت یار) پاکستان آئے تو ہمارے لیے آپ کو امریکا کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔
س: لیکن عام تاثر تو یہی ہے کہ آپ اس پورے عرصے میں پاکستان میں چھپے رہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں پاکستان کبھی نہیں گیا۔
ج: پاکستان میں تو آپ کو معلوم ہے میرا داماد گرفتار ہوا اور چھ سال امریکیوں کی قید میں رہا۔ ڈاکٹر غیرت اور میرے محافظین کا سربراہ حاجی گل رحمن پاکستان میں گرفتار ہوئے، دوران تفتیش اذیت کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔ میرا بھائی بھی گرفتار ہوا میری وجہ سے بار بار تفتیش کی گئی، گھر گھر کی تلاشی لی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں افغانستان میں ہی رہا۔
سلیم صافی: بہت شکریہ، ہماری دعا ہے کہ آپ افغانستان میں ہی رہیں اور آپ سلامت رہیں، آپ صحت مند رہیں۔
حکمتیار: آپ کا بہت شکریہ، آپ خوش رہیں آباد رہیں، سلامت رہیں۔
Leave a Reply