
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان کردیا ہے ۔ ان نتائج کے مطابق اشرف غنی نے ۴۴ء۵۶ فیصد ووٹ لے کر صدارتی انتخاب جیت لیا ہے۔ حتمی نتائج ۲۲ جولائی کو متوقع ہیں۔ صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے انتخابی نتائج کو افغان عوام پر کاری ضرب قرار دیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ حکومتی مشینری نے اشرف غنی کو فائدہ پہنچایا۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر حامد کرزئی صدارتی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے ساز باز کرتے رہے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ اگر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان معاملات طے نہ پاسکے تو افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ خاصا پیچیدہ ہو جائے گا۔
موہوم سی امید ہے کہ افغان طرز کی کوئی اہم ڈیل ہو جائے، جسے اہمیت دی جاسکے۔ بعض اوقات غیر متوقع طور پر آخری لمحات میں معاملات طے پا جاتے ہیں اور خراب ہوتے ہوئے حالات پھر درست راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا اس وقت ہوتا ہے جب تصفیے کی کوشش کرنے والے مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔ کیا افغانستان میں بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی توقع کمزور پڑتی جارہی ہے۔
سرکاری نقطہ نظر یہ ہے کہ صدارتی انتخاب کے جن نتائج کا اعلان کیا گیا ہے، وہ ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ دھاندلی کی شکایات کا جائزہ لے کر کوئی کارروائی کی جائے تو کچھ بہتری بھی آسکتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا نقطہ نظر بھی تقریباً یہی ہے۔ جو نتائج اب تک سامنے لائے گئے ہیں، ان کی بنیاد پر نہیں کہا جاسکتا کہ حتمی نتیجہ کیا ہوگا۔ افغان الیکٹورل باڈیز کی طرف سے تحقیقات کرائے جانے پر انتخابی نتائج میں تبدیلی بھی خارج از امکان نہیں۔
کیا یقین دہانیوں پر مشتمل یہ الفاظ عبداللہ عبداللہ کے کیمپ کو رام کرنے کے لیے ادا کیے گئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ۲۲ جولائی کو جاری کیے جانے والے حتمی نتائج میں اگر ڈاکٹر اشرف غنی کی ناکامی ظاہر ہوئی تو تعطل مزید گہرا ہوجائے گا۔ رن آف الیکشن کے مرحلے پر اگر عبداللہ عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی کے درمیان معاملات طے پاگئے تب بھی سیاسی اعتبار سے اسے مناسب طرز عمل قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ انتقال اقتدار کا یہ طریقہ بھی غیرقانونی، بلکہ ناجائز ہی ہوگا۔ اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخاب اگرچہ جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے حوالے سے بہت سی توقعات کا مرکز تھا، مگر سچ یہ ہے کہ صدارتی انتخاب اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ صدر خواہ کوئی بنے، اس کی اتھارٹی کمزور رہے گی۔ بدترین صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ عراق کی طرز پر افغانستان بھی لسانی اعتبار سے تین حصوں میں بٹ جائے۔ عبداللہ عبداللہ تاجکوں کے نمائندے ہیں اور اشرف غنی کو پشتونوں کی حمایت حاصل ہے۔ کوئی بھی بڑی غلطی بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی راہ ہموار کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو اس بات کا شدید خطرہ موجود ہے کہ نسلی گروپوں کے درمیان قوت کا تشدد آمیز اور غیر قانونی استعمال شروع ہوجائے گا۔ تشدد کی لہر پورے ملک کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
اس ساری چپقلش کی بنیاد بلا شبہ پشتونوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان کے اصل حکمران ہیں۔ دو عشرے پہلے تک افغانستان میں پشتونوں کی حکمرانی کی تاریخ رہی ہے۔ ۱۹۹۲ء کے بعد وادی پنج شیر کے سیاست دانوں اور جنگجو سرداروں کو اقتدار کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ اس صورت حال نے پشتونوں کو کبیدہ خاطر کردیا اور انہوں نے اقتدار دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے کی بھرپور کوشش شروع کردی۔ اس پوری صورت حال میں ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ افغان عوام مجموعی طور پر اب جنگ و جدل سے تنگ آچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب وہ ایک سیاسی معاملے میں باہم دست و گریباں ہونے سے گریز کریں۔ ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ کے پشت پناہ بلخ کے گورنر کمانڈر عطا محمد نور اور ڈاکٹر اشرف غنی کے پشت پناہ ازبک کمانڈر رشید دوستم ہیں، جو آپس میں کٹر دشمن ہیں۔ انہیں ماضی کے بہت سے حساب چکانے ہیں۔
اگر اشرف غنی رن آف الیکشن میں حتمی طور پر کامیاب ہو بھی گئے تو اس کا کریڈٹ ان کی مقبولیت سے زیادہ حالات اور معاملات کو جائے گا۔ وہ چند گروپوں کے لیے مرکزی حیثیت حاصل کرسکیں گے۔ اشرف غنی نے جنوبی پشتون علاقوں سے طاقتور قندھاری قبائل کی حمایت حاصل کی اور شمال میں بھی لوگوں کو اپنی حمایت پر آمادہ کیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے سابق وزیر خارجہ زلمے رسول سے معاملات طے کیے۔ یاد رہے کہ زلمے رسول حامد کرزئی کے پسندیدہ رہے ہیں۔ گل بدین حکمت یار نے بھی اشرف غنی کی حمایت کی۔ گروپ بندی اور حمایت اپنی جگہ، مگر اشرف غنی کے ابھر کر آنے کا ایک بڑا سبب یہ تاثر تھا کہ ’’پشتون صدر‘‘ ہوں گے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اس وقت کی صورت حال میں کوئی مشترکہ اور متفقہ رہنما ہی ملک کو متحد رکھ سکتا ہے۔ اس وقت اگر عراق کی طرز پر افغانستان کے منقسم ہونے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے تو صرف اس بات سے کہ تاجک برادری ڈاکٹر اشرف غنی کو صدر کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ امریکا بظاہر اس معاملے سے الگ تھلگ ہے مگر ہوسکتا ہے کہ وہ در پردہ اشرف غنی کے ابھر کر سامنے آنے سے خوش ہو۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اشرف غنی نے ۲۰۰۹ء میں حامد کرزئی کے دوبارہ انتخاب کی حمایت کی تھی۔ عبداللہ عبداللہ کی شناخت قوم پرست لیڈر کی ہے جبکہ اشرف غنی عالمی بینک کے سابق عہدیدار ہونے کے ناطے امریکا کے لیے زیادہ لچکدار اور قابل قبول ہیں۔
بدقسمتی سے آج افغانستان میں جو صورت حال دکھائی دے رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ صدارتی انتخاب میں حتمی کامیابی طالبان کی ہوسکتی ہے۔ طالبان بھی محسوس کر رہے ہوں گے کہ ریس کا آخری مرحلہ آ پہنچا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک بار پھر کابل میں اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے کابل کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ ہلمند اور کاپیسا کے چند علاقوں میں دوبارہ قدم جماچکے ہیں۔
“Afghan runoff may lead to civil war”.
(“Asia Times Online”. July 9, 2014)
Leave a Reply