صدارتی انتخابی مہم کے دوران اشرف غنی نے قوم سے جو وعدے کیے تھے، اُن میں سب سے اہم یہ تھا کہ میں مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مصالحت کروں گا۔ جبکہ عبداﷲ عبداﷲ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ پہلے مخالفین کو کمزور کیا جائے، پھر اُن کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
انتخابات کا عمل اختتام پذیر ہوا اور امریکی سفارت خانے میں جان کیری کے حکم کے مطابق حکومت سازی کے متعلق فیصلہ ہوا۔ قومی حکومت کے نام پر قومی ذلّت کا اہتمام کیا گیا۔ ملک میں دوسروں اور دو منہ والی ایسی روبوٹ حکومت بنائی گئی جس کا ریموٹ کنٹرول امریکی سفیر کے ہاتھ میں ہے۔ انتخابات سے پہلے اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ دامن پھیلا کر ہم سے مدد کی بھیک مانگتے رہے۔ سب کو یقین دہانی کراتے رہے کہ وہ ملک میں خوشحالی لائیں گے۔ جنگ کو صلح میں ڈھالیں گے۔ ملک کو آباد کریں گے۔ غربت و افلاس کا خاتمہ کریں گے۔ مضبوط صالح قیادت اور قومی اُمنگوں کی ترجمان حکومت تشکیل دیں گے۔ پھر انتخابات کے بعد ایک اتحادی حکومت میں شرکت سے انکار کر رہا تھا تو دوسرا بھی مشترکہ حکومت نہیں بنانا چاہتا تھا۔ آپ سب کو ان کی تقریریں یاد ہوں گی۔ لیکن پھر اچانک صرف اتحادی ہی نہیں، بلکہ ایک مشترکہ حکومت تشکیل دے دی گئی۔ یہ حکومت بنے بھی چھ ماہ گزر گئے ہیں، لیکن ابھی تک وزارتوں کی تقسیم کا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ ہر وزارت کے فیصلے کا اختیار امریکی سفیر کے پاس ہے۔ ان چھ ماہ میں غلام حکومت کے سیاہ کارناموں کے کالے اوراق میں ایک بھی سفید و روشن نقطہ نظر نہیں آتا۔ باعثِ عار کارناموں کے سوا اس کے دامن میں کچھ بھی نہیں ہے۔
حال ہی میں ایک تقریب کے دوران ہمارے دونوں ’’حکمران‘‘ امریکی سفیر کے سینہ پر اس حالت میں میڈل اور تمغے سجاتے رہے کہ وہ تن کر سیدھا کھڑا تھا اور یہ دونوں اس کے سامنے سر جھکائے ہوئے تھے۔ بیرونی دورہ جات خصوصاً دورۂ امریکا میں دونوں بڑوں نے چودہ سالہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں شہداء اور زخمیوں اور لاکھوں بے گھر ہونے والے مظلوم عوام کی قربانیوں کا ذکر کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ لیکن افغانستان میں ہلاک و زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کو سراہتے رہے اور خود کو امریکا کا ممنون و مقروض قرار دیتے رہے۔ انہوں نے امریکا کی اتنی زیادہ تعریف کی کہ بدنامِ زمانہ صدر ببرک کارمل اور شاہ شجاع، روسیوں اور انگریزوں کی بھی ایسی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے۔
انتخابات سے قبل دونوں صدارتی امیدوار حزبِ اسلامی کو اپنا واحد سہارا قرار دیتے ہوئے اپنی حمایت کے لیے منتیں کرتے رہے۔ اس لیے کہ وہ یہ جانتے تھے کہ حزبِ اسلامی ملک گیر مقبول جماعت ہے۔ اس کے پاس باصلاحیت، قابل اور تجربہ کار افراد موجود ہیں۔ اس کے کارکنان کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ حزبِ اسلامی کے نام پر ان کی حمایت کرنے والوں سے اعلیٰ حکومتی عہدوں کے وعدے کیے گئے۔ ان وعدوں میں سب سے اہم وعدہ صرف ایک حزبِ اسلامی کو تسلیم کرنا تھا۔ وہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ حزبِ اسلامی جیسی ایک بڑی جماعت کی تقسیم ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔
اشرف غنی نے کہا تھا کہ صدر کرزئی حزبِ اسلامی کو تقسیم کرنا چاہتے تھے لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد صدر اشرف غنی نے صلح و سمجھوتے کے لیے ایک ڈرافٹ بھیجا جسے ہم نے کچھ تبدیلیوں کے بعد قبول کر لیا تاکہ اس جنگ کا خاتمہ ہو۔ ان میں اسے اہم تبدیلی بیرونی قوتوں کی ملک سے واپسی تھی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ معاہدے میں افغانستان سے بیرونی قوتوں کا مکمل اخراج اور ملکی انتظام مکمل طور پر افغان عوام کے سپرد ہونے کی شرائط لازمی شامل ہونی چاہئیں۔ ہمارے خیال میں حالیہ بحران کی شدت و طوالت کی بڑی وجہ یہی بیرونی قوتیں ہیں۔
افسوس! غلام حکومت کا سب سے پہلا قدم امریکا کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط تھا۔ ہم اسے امریکا کے ہاتھ افغانستان کو فروخت کرنے کا سرٹیفکیٹ سمجھتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بعض حکومتی ذمہ داران اپنا اقتدار مضبوط ہونے تک افغانستان میں بیرونی قوتوں کی بقا کے لیے امریکا کی مِنّتیں کر رہے ہیں۔
ہر افغان شہری اچھی طرح سمجھتا ہے کہ افغانستان میں بیرونی قوتوں کی موجودگی کا نتیجہ جنگ کو طوالت دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بیرونی قوتوں کے حامی دراصل امن و سلامتی نہیں بلکہ جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ حکومت، افغان عوام کے فائدے کے لیے کچھ کرنے کی اہلیت و ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ وہی سابقہ کرپٹ حکومت ہے جس کی بنیاد جرمنی کے شہر بون میں رکھی گئی۔ وزارتیں افغان جنگ میں امریکا کے حامی و معاون ممالک سے وابستہ افراد و گروہوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کی تشکیل و ترتیب اور کام کرنے کے سب طور طریقے سابقہ حکومت سے ذرّہ برابر بھی مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ اس حکومت کے بنیادی ارکان بھی سابقہ حکومت کے بدنام زمانہ چہرے ہیں۔
امریکا نے جونہی غلام حکومت کو حزبِ اسلامی کے ساتھ مذاکرات منقطع کرنے کا حکم دیا تو اس نے اپنے تمام وعدوں اور معاہدوں سے انحراف کرتے ہوئے فوراً منقطع کر دیے۔ ہم نے امریکا کے جھنڈے تلے بے اختیار حکومت میں شامل ہونے اور اپنی چادر دوسروں والے روبوٹ کے کندھے پر رکھنے کے لیے مذاکرات شروع نہیں کیے تھے۔ اگر ہم ایسی ہی کرپٹ اور غیروں کے تلوے چاٹنے والی حکومت میں شامل ہونا چاہتے تو سابقہ حکومت میں بھی شامل ہو جاتی۔ اگر مجاہدین افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی کو تسلیم کرتے تو چودہ سال جنگی مشکلات و مصائب کیوں جھیلتے؟ ہم اپنے پیارے وطن کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری تمنا ہے کہ ملکی نظام، عوام کی مرضی کے مطابق ہو۔ جس کے ذمہ داران رحم دل، خدا ترس اور قوم کا درد رکھنے والے ہوں۔ ہم غیروں کی مرضی کی حکومت کو نہیں مانتے جس کے ذمہ داران ان کے غلام ہوں اور غیر ہی ہمارے لیے اپنے غلاموں کا انتخاب کریں۔
اگر کوئی افغانستان کا واقعی عادلانہ اور مستقل حل چاہتا ہے تو ہم بھی ان سے بات چیت اور صلح و سمجھوتے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم ہمارے پاس موجودہ دردناک حالات کی طوالت اور کرپٹ، وطن فروشوں، چوروں، جنگی مجرموں کے محفاظوں اور بیرونی قوتوں کی موجودگی کو پسند کرنے والوں کے مقابلے میں مزاحمت جاری رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
ہم نہ کسی سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہیں، اور نہ ہی کسی کا دامن پکڑتے ہیں۔ ہم کسی سے کرسی اور دنیاوی مفادات نہیں چاہتے۔ ہم ملک میں صرف اسلام کا نفاذ، آزادی، امن و امان اور حقیقی صلح و سلامتی چاہتے ہیں۔ مذکورہ حقوق ہمیں غیروں یا ان کے غلاموں سے بھیک مانگ کر نہیں چاہئیں۔ یہ ہمارے صاف اور واضح اہداف ہیں اور ان کے حصول کے لیے ہم ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ ان مقدس اہداف پر عمل درآمد ہونے تک ہم ہتھیار نہیں رکھیں گے۔
(مترجم: ہدایت اﷲ خروٹی)
V.GOOD