اتحادیوں کے بعد کا افغانستان۔۔۔

امریکی تھنک ٹینک پیس انسٹی ٹیوٹ اور پاکستان کے جناح انسٹی ٹیوٹ کی ایک مشترکہ سروے رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین کشیدگی ختم نہ ہوئی تو افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ اور اس خانہ جنگی کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔ امریکا نے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کے کردار کو محدود یا ختم کرنے کی کوشش کی تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی، جس کا ردعمل شدید ہوسکتا ہے۔ بھارت کو افغانستان میں اپنے آپ کو معاشی سرگرمیوں تک محدود رکھنا ہوگا۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی سرگرمیوں پر پاکستان کے تحفظات برقرار ہیں۔ بھارت نے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی نمایاں ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ افغان فوج کی تربیت میں حصہ لے۔ بھارت بظاہر اتحادیوں کے انخلا کے بعد اینڈ گیم پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ اس صورت میں وہ افغان سرزمین میں اپنی جڑیں مزید گہری کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔ یہ بات پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہے جس کا پاکستان نے کئی بات اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان میں دفتر خارجہ سے قریبی تعلق رکھنے والے حلقے چاہتے ہیں کہ مغربی طاقتیں بھارت کے اثر و رسوخ کا دائرہ محدود رکھنے پر توجہ دیں۔ بھارت کی سرگرمیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ پاکستان کا محاصرہ کرنا چاہتا ہے۔

سروے میں پاکستان کے درجنوں سفارت کاروں، بیورو کریٹس، صحافیوں اور حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں نے حصہ لیا۔ ان کی آرا سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان اتحادیوں کے انخلا کے بعد کے افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ ساتھ ہی اس کی خواہش ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت میں پشتونوں کا اہم حصہ ہو اور انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں جو سیٹ اپ قائم ہوا اس میں پشتونوں کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ روش ملک میں مزید خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنی۔ آبادی کے بڑے حصے کو نظر انداز کرنا غیرفطری نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ افغانستان میں پشتونوں کے حوالے سے یہی ہوا۔ امریکا نے طالبان کی حکومت ختم کرنے کے بعد جو پالیسی اپنائی اس نے پشتونوں کو دیوار سے لگایا اور پاکستان کی طرف دھکیلا۔ اس پالیسی نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی خرابی پیدا کی اور عسکریت پسندی کی لہر توانا ہوگئی۔

مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ اتحادیوں کے انخلا کے بعد کے افغانستان سے متعلق کسی بھی لائحہ عمل کی تیاری کے لیے مذاکرات میں پاکستان کو بھی شریک کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے افغانستان، پاکستان اور امریکا کے درمیان مکمل ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو معاملات بگڑ جائیں گے۔ بگڑے ہوئے معاملات ملک کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں۔ انخلا کے عمل میں متوازن پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ روسیوں کے انخلا کے بعد والی صورت حال پیدا نہ ہو۔ مصالحتی عمل میں طالبان سے بھی بات چیت ہونی چاہیے۔ طالبان کے قائد ملا عمر مجاہد اور حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں سے بھی بات چیت ہونی چاہیے تاکہ معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار ہو۔

پاکستان میں یہ رائے خاصی مستحکم ہے کہ بھارت کو افغانستان میں زیادہ ملوث ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ چند ایک شعبوں میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی عمل میں اس کا شریک ہونا تو سمجھ میں آتا ہے تاہم سلامتی سے متعلق امور میں بھارت کا دلچسپی لینا تشویش کا باعث ہے۔ بھارت نے طالبان کے زوال کے بعد ابھرنے والی افغان حکومت میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے دس برسوں کے دوران بھرپور کوششیں کی ہیں اور بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔

افغانستان میں طاقت کے استعمال کو تمام مسائل کا حل گرداننے کی امریکی سوچ یکسر غلط اور غیرنتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے۔ دس سال تک افغانوں پر بم برساکر بھی اتحادی اب تک فتح سے کوسوں دور ہیں۔ طالبان کی مزاحمت بھی ختم نہیں کی جاسکی۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں۔ وہ ایک مستحکم زمینی حقیقت ہیں جسے مفاہمت کے عمل سے کسی بھی طور دور نہیں رکھا جاسکتا۔ طالبان کو کمزور کرنے کے نام پر پشتونوں کو مرکزی دھارے سے الگ رکھا گیا ہے جس کے باعث وہ اپنی ہی فوج اور پولیس پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔

افغانستان میں سب سے زیادہ مفادات پاکستان کے ہیں، اس لیے پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ افغانوں کو بھی اندازہ ہے کہ پاکستان کے خلاف ان کی سرزمین استعمال ہونے سے معاملات بگڑیں گے۔ اس کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان نے بیس برسوں کے دوران افغانستان میں مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں عسکریت پسندی کا رجحان توانا ہوا اور آج پاکستان بھی عسکریت پسندی کے نرغے میں ہے۔ پاکستانی معاشرہ شدید عدم توازن اور عدم استحکام کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں ان گنت مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مستقل مداخلت کے باعث افغانوں کے دلوں میں بھی پاکستان کے حوالے سے شدید عدم اعتماد نے جنم لیا ہے۔ اب وہ بیشتر معاملات میں پاکستان کی طرف دیکھنے سے کتراتے ہیں۔ افغان عسکریت پسندوں کی معاونت نے بہت سے افغانوں کے لیے پاکستان کو سخت ناپسندیدہ بنادیا ہے۔

طاقت کا استعمال افغانستان کے معاملات کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ امریکا نے انخلا کے پیش نظر طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے مزید فوجی تعینات کیے اور بھرپور طاقت کے ذریعے طالبان کو دبوچنے کی کوشش کی جو اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔ امریکی قیادت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ طاقت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی روش اب کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ مفاہمت اور مصالحت ہی کے ذریعے معاملات کو درست کیا جاسکتا ہے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کی افواج طالبان کے خلاف کارروائی کریں۔ ایسا سر دست اس لیے ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ پاکستانی افواج پہلے ہی کئی محاذوں پرالجھی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنا لاحاصل ہی نہیں، خطرناک بھی ہوگا۔ امریکا کو پاکستان کی شکایات پر بھی کان اور دھیان دھرنا ہوگا۔ صرف بات چیت سے معاملات بہتر طور پر نمٹائے جاسکتے ہیں۔

(بشکریہ: ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘۔ ۲۶؍اگست ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*