اتحادیوں کے بعد کا افغانستان

ہلمند میں امریکی، نیٹو اور افغان افواج نے بھرپور آپریشن شروع کردیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مشترکہ آپریشن میں بھی امریکیوں نے اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔ ہلمند کے قصبے مرجہ اور ناد علی میں طالبان اور امریکی میرینز کی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ان جھڑپوں میں اب تک کچھ خاص جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم فریقین کی کوشش یہ رہی ہے کہ فریق ثانی کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا جائے۔

طالبان نے واضح کردیا ہے کہ مزاحمت کسی بھی سطح پر ترک نہیں کی جائے گی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کی صورت ہی میں ہتھیار رکھے جائیں گے۔ ان کا یہ اعلان اس امر کا غماز ہے کہ وہ دشمنوں سے مقابلے کے دوران کسی بھی مرحلے پر مرعوب نہیں۔

افغانستان کے طول و عرض میں ایک طرف تو طالبان کو ’’ٹھنڈا‘‘ کرنے پر توجہ دی جارہی ہے اور دوسری طرف قومی تعمیرِ نو کے نام پر طالبان ہی کو قومی دھارے میں لانے کی بات بھی کی جارہی ہے۔ کرزئی حکومت چاہتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں اور انہیں حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنایا جائے تاکہ ان کی طرف سے مزاحمت کم ہو اور اتحادیوں کے نکل جانے کے بعد حکومت اور قومی فوج کے لیے زیادہ مشکلات پیدا نہ ہوں۔ مگر کیا واقعی ایسا ہوگا؟ کیا طالبان کو آسانی سے مذاکرات پر آمادہ کیا جاسکے گا؟ اب تک طالبان نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے کہ وہ پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کے لیے آمادہ ہوسکتے ہیں؟ اب تک انہوں نے مزاحمت ہی کی ہے اور اتحادیوں کے جانی نقصان میں اضافہ کیا ہے۔

جولائی ۲۰۱۱ء سے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنا شروع کریں گے۔ امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے اس ڈیڈ لائن کا دیا جانا اس امر کا غماز ہے کہ افغانستان کے معاملے میں ان پر اندرون ملک کس قدر دباؤ ہے۔ امریکی عوام چاہتے ہیں کہ افغانستان میں فوجی مشن ختم کیا جائے تاکہ فوجیوں کی ہلاکتیں کم ہوں۔ کانگریس میں سابق صدر جارج واکر بش کو بارہا تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دو جنگیں امریکیوں پر تھوپ دیں۔ افغانستان کے بعد عراق پر لشکر کشی کی گئی اور دونوں ممالک کو مکمل تباہ کردیا گیا۔ مگر امریکا کو حاصل کیا ہوا؟ مزید بدنامی اور اس سے کہیں بڑھ کر فوجیوں کا جانی نقصان۔ اب بارک اوباما کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں جنگ احسن طریقے سے ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو واہ واہ بھی ہوجائے گی اور دوسری بار صدر منتخب ہونے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ انہوں نے جولائی ۲۰۱۱ء کی ڈیڈ لائن دیکر جوا کھیلا ہے، خطرہ مول لیا ہے۔ اگر وہ اس جوئے میں کامیاب رہے تو ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت چلتی رہے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوباما کس طور افغان جنگ کو محض ڈیڑھ سال میں ختم کرسکیں گے؟ طالبان کو مذاکرات میں شامل کرنے کی کوشش ناکام رہی ہے۔ ان سے صلح اسی وقت ممکن دکھائی دیتی ہے جب انخلا شروع کیا جائے۔ اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کو قومی دھارے میں لانے کے دوران اگر قتل و غارت میں اضافہ ہوا اور طالبان نے صورت حال کا فائدہ اٹھایا تو کیا ہوگا؟ بے سر و سامانی کی حالت میں انہوں نے حکومت اور اتحادی افواج کا ناطقہ بند کر رکھا ہے تو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر وہ کیا کرسکتے ہیں، اس کا اندازہ کوئی بھی بخوبی لگا سکتا ہے۔

کیا طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنا آسان ہوگا؟ کرزئی حکومت اب طالبان سے ہاتھ کیوں ملانا چاہتی ہے؟ کیا اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ طالبان نے ۹ برسوں کے دوران اتحادیوں کو جس بھرپور انداز سے منہ دیا ہے اس کے پیش نظر کرزئی حکومت سمجھ سکتی ہے کہ غیر ملکی افواج کے جانے پر طالبان کو کنٹرول کرنا کتنا بڑا درد سر ہوگا۔ کرزئی کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں بہت کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے۔ بھارتی حکومت جانتی ہے کہ اتحادیوں کے نکل جانے کے بعد سیکورٹی کی ذمہ داری افغان کاندھوں پر آ پڑے گی اور وہ اس قابل نہیں کہ اس ذمہ داری سے بطریق احسن سبکدوش ہوسکے۔ ایسے میں اور کچھ ہو نہ ہو، سیکورٹی کا معاملہ تو داؤ پر لگا ہی رہے گا۔ افغانستان میں خانہ جنگی بھی ہوسکتی ہے مگر اس سے کہیں بڑھ کر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنوبی اور جنوب مشرقی افغانستان کابل کے کنٹرول سے مکمل طور پر نکل جائے۔ طالبان نے جب ۹ برسوں کے دوران اتحادی افواج اور بالخصوص امریکیوں کے سامنے ’’جھکائی‘‘ اختیار نہیں کی تو اب وہ کس طور افغان حکومت کے سامنے جھک سکتے ہیں یا شمالی اتحاد سے ہار مان سکتے ہیں؟ ان سوالات کو بھارت بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔

بھارت جانتا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد سیکورٹی کا مسئلہ پید ا ہوگا اور اگر طالبان نے لڑائی ترک کرکے حکومت کا حصہ بننا گوارا کیا تو بھارتی مفادات مزید خطرے میں پڑ جائیں گے کیونکہ بیشتر حکومتی امور پر متصرف ہونے کی صورت میں طالبان بھارت کو کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان بھی افغانستان میں بھارت کے اثر و نفوذ کے خلاف ہے۔ پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ بھارت سرحدی علاقوں میں قائم سفارتی مشن بند کرے۔ افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت کا الزام بھارت پر تواتر سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔ یہ الزام ایسا نہیں کہ آسانی سے نظر انداز یا مسترد کردیا جائے۔ پاکستان کے پاس اس حوالے سے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ ایسے میں بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کرزئی حکومت کے ذریعے کسی نہ کسی طور طالبان کو رام کرے۔ مگر کیا طالبان بھارت کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان کو بھول سکتے ہیں؟ کیا کوئی بھی لالچ انہیں بھارت کی آغوش میں بیٹھنے پر مجبور کرسکتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب نفی میں دکھائی دیتا ہے۔

اتحادیوں کے انخلا کے بعد کا افغانستان بھارت سمیت کئی ممالک کے لیے ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ طالبان اور ان کے ہم خیال عناصر اتحادیوں کے جانے کے بعد ان کی دال نہیں گلنے دیں گے۔ ایسے میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ وہی جو ہمارے قومی مفاد میں ہو۔ پاکستان کا مفاد تو سر دست اس امر سے جڑا ہوا ہے کہ اتحادیوں کے جانے کے بعد کے افغانستان میں ابھرنے والی مضبوط ترین قوت یعنی طالبان سے تعلقات بہتر رکھے جائیں۔

(بشکریہ: ’’رائٹرز، اے پی، دی ٹائمز‘‘۔ ۱۱ فروری ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*