
امریکا کی قیادت میں نیٹو افواج نے القاعدہ کو ختم کرنے اور طالبان کی حکومت گرانے کے لیے ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملہ کیا۔ بعد کے برسوں میں اقتصادی امداد اور فوجی اخراجات کی شکل میں ملک میں ۵۴؍ارب ڈالر آئے۔ جنگ سے متعلق صنعتیں قائم ہوئیں، جو خوشحالی کا ذریعہ بنیں۔ ان میں تعمیرات، فوج اور سامان کی نقل و حمل اور سکیورٹی کے شعبے شامل تھے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۰ء تک افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار چار گنا ہوگئی۔ بے پناہ بدعنوانی اور رشوت نے جنم لیا لیکن ملک میں ٹھوس ترقی بھی ہوئی۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۱ء تک دوران حمل مرنے والی ماؤں کی تعداد نصف رہ گئی اور اس عرصے کے دوران اوسط عمر میں تقریباً چار سال کا اضافہ ہوا۔ توقع ہے کہ اس برس افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں، جو ۲۰۱۲ء میں ۱۲ فیصد تھی، تین اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ یہ اعداد و شمار عالمی بینک نے فراہم کیے ہیں۔
کابل میں نشہ کرنے والے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے سڑکوں کے کناروں پر مایوس بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں بہت کم اجرت ملتی ہے۔ سینئر تجزیہ کار کیٹ کلارک کہتی ہیں: ’’بلبلے کی مشکل یہ ہے کہ وہ بہت جلد پھٹ جاتا ہے، البتہ آپ کی تعلیم اور امنگیں ضائع نہیں ہوتیں۔‘‘ لیکن اُنہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ اُن نوجوان عورتوں اور مردوں کاکیا بنے گا، جو گزشتہ دہائی میں بہت سے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور پرُسکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں ایسے بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جنہیں مستقبل قریب میں شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کیٹ کہتی ہیں: ’’اس سال کے اوائل میں مجھے مکان کی تلاش تھی۔ دستیاب عمارتوں میں بیشتر وہ تھیں جنہیں بین الاقوامی تنظیمیں خالی کرکے جاچکی تھیں۔ یہ ایسے گھر تھے جو کسی اور زمانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا زمانہ جنگ کی دولت ہمیشہ کارآمد رہے گی۔ میں مارچ کے وسط کی ایک سرد صبح کابل کی ایک خالی عمارت کے اندر گئی تاکہ درمیانے طبقے کے کچھ لوگوں سے ملوں۔ یہ لوگ مختلف صوبوں سے روزگار کی تلاش میں آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے بہتوں نے یونیورسٹی سے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ ان کے اپنے فیس بک اکاؤنٹ تھے اور وہ بی بی سی کی نشریات باقاعدگی سے سُنتے تھے۔ ان میں سے ۲۷ سالہ عبدالمنان پہلے افغانستان کے جنوبی حصے میں یو ایس ایڈ کے ایک پروگرام کا منتظم تھا۔ وہ مایوس نظر آرہا تھا۔ صرف اس لیے نہیں کہ اُس کی نوکری چھوٹ گئی تھی بلکہ اس لیے کہ امریکی پیسہ اُن دیہی علاقوں میں آنا بند ہوگیا تھاجہاں اُس نے اپنے زرعی منصوبے قائم کیے تھے۔ اس نے کہا ہم سب جانتے تھے کہ یہ نئی دولت ہمیشہ نہیں رہے گی لیکن یہ بات ہم نے نہیں سوچی تھی کہ دولت اتنی تیزی سے ہوا بن کر اڑ جائے گی۔ ان سب کو امید تھی کہ کچھ مدت تو اچھی طرح گزرے گی۔ ایسا سوچنا ہی غلط تھا‘‘۔
فوجوں کی واپسی کے اقتصادی اثرات کو پوری طرح جانچنا مشکل ہے کیونکہ اِس کا مدار ایسے عوامل پر ہے جن کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً یہ کہ کیا طالبان کا عروج دوبارہ ہوگا؟ اس سے قبل ۱۹۸۰ء کے عشرے کے اواخر میں سوویت یونین کی فوجیں واپس چلی گئیں تو امریکا نے افغانستان پر توجہ دینی چھوڑدی تھی۔ اس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں برآمد ہوا۔ کچھ لوگوں کو تشویش ہے کہ افغانستان اب پھر اسی طرح کی مشکلات کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۰ء تک افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار کا تقریباً ۹۷ فیصد غیر ملکی امداد پر مشتمل تھا، جس کی مالیت ۱۶؍ارب ڈالر تھی۔ افغان حکومت نے انتباہ کیا ہے کہ غیر ملکی امداد بند ہوئی تو قومی معیشت دھڑام سے گر جائے گی۔ عالمی بینک نے بھی انتباہ کیا ہے کہ غیر ملکی امداد کی فوری بندش سے جمہوریت ختم ہوگی، منشیات کی منڈی ایک بار پھر فروغ پائے گی اور مسلح تصادم کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم نے بتایا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پوست کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو افیون افغانستان میں آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بن جائے گی۔ افغانستان میں یو این او ڈی سی آفس کے سربراہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو بدترین حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دولت ختم ہورہی ہے اس لیے لوگوں کے پاس پرائیویٹ سکیورٹی، ٹرانسپورٹیشن یا تعمیرات کے ٹھیکے نہیں ہوں گے۔ یہ سب کچھ رُو بہ زوال ہے، لیکن مالیاتی وسائل تو بہر حال درکار ہیں۔ ایسے میں لے دے کر غیر قانونی اور غیر اخلاقی ذرائع رہ جاتے ہیں۔ لوگ پوست کی کاشت کی طرف لوٹ جائیں گے۔
کچھ لوگ زیادہ پرامید ہیں۔ کریم خواجہ مُلک کے سب سے بڑے ٹیلی کام ادارے ’’روشن‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُن کے کاروباری ادارے کے کم ازکم پانچ ملازمین کو پانچ ماہ کے دوران اغوا کرلیاگیا مگر پھر بھی امید ہے کہ ترقی کے دس برسوں کی بدولت مذہبی انتہا پسندی میں خاصی کمی واقع ہوگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ دس سال قبل افغانستان میں ایسا بہت کچھ نہیں تھا، جو اَب دکھائی دیتا ہے۔ انٹرنیٹ تک لوگوں کی رسائی نہ تھی۔ اب اگر آپ گاڑی میں بیٹھ کر کابل کا چکر لگائیں تو ہر طرف شادی ہال ملیں گے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ بڑے اسٹور قائم ہوچکے ہیں جن میں گاہکوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ دس سال قبل ایسا کچھ نہیں تھا۔
امریکی ارضیاتی سروے نے کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی وسائل کا سراغ لگایا ہے، جو ہر طرح کی کساد بازاری کے اثرات کو کم کرسکتے ہیں لیکن اس شعبے کی ترقی کے لیے قواعد و ضوابط اور بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ کان کنی کی جدید صنعت کو جن چیزوں کی ضرورت ہے، اُن کی فراہمی کوئی آسان کام نہیں۔ ملک کے دور افتادہ حصوں میں ریلوے لائن بچھانا لازم ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہاں مرکزی حکومت کا کنٹرول برائے نام ہے۔ بدعنوانی کا خطرہ بھی برقرار ہے۔
بیروزگاری بھی سر اٹھا رہی ہے۔ سراج آغا پہلے یو ایس ایڈ کے ایک دفتر میں کام کرتا تھا اور اسے ماہانہ ۱۸۰۰؍ ڈالر ملا کرتے تھے۔ چھ ماہ بیروزگار رہنے کے بعد اس نے تنگ آکر کابل کی کرنسی مارکیٹ سرائے شہزادہ میں کھاتہ نویس کی حیثیت سے نوکری کرلی ہے۔ تنخواہ صرف ۴۰۰ ڈالر ماہانہ ہے۔ سراج آغا شادی کرنا چاہتا ہے مگر افغانستان میں شادی بہت مہنگا سودا ہے۔
بین الاقوامی گروپوں نے افغانستان میں جو کچھ خرچ کیا ہے، اس سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام مصنوعات اور خدمات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ جو برگر ۵۰؍افغانی کا ملتا تھا، وہ اب ۲۰۰؍افغانی سے کم میں نہیں ملتا۔ عام حجام بھی بال کاٹنے کے ۱۰؍ ڈالر لیتا ہے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک کے سروے سے پتا چلا کہ ایک غیر ہنر مند افغان کی یومیہ اجرت سے پچھلے سال جتنا آٹا خریدا جاسکتا تھا اب اُس سے ۳۵ فیصد کم آٹا خریدا جاسکتا ہے۔ فی کس مجموعی ملکی پیداوار بڑھ گئی ہے، جو دستاویزات میں تو اچھی لگتی ہے مگر عملی زندگی میں اس کے مثبت اثرات خال خال ہیں۔
(“Afghanistan, After the War Boom”… “The New Yorker”… November 13, 2013)
Leave a Reply