
فروری ۱۹۸۹ء میں سابق سوویت یونین نے دس سال تک سفاکیت کا بازار گرم رکھنے کے بعد افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلائے تو اشتراکی حکومت کے لیے انتہائی کمزور لمحہ آیا۔ تجزیہ کاروں اور مجاہدین کو یقین تھا کہ یہ حکومت برقرار نہ رہ پائے گی اور خود حکومت سے وابستہ افراد کا بھی یہی خیال تھا۔ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے مجاہدین نے آپس کے اختلافات بالائے طاق رکھے اور افغانستان میں پشتونوں کے انتہائی مضبوط گڑھ اور ملک کے دوسرے بڑے شہر جلال آباد پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ مارچ میں دس ہزار نفوس پر مشتمل لشکر جلال آباد کی طرف چل پڑا۔
سوویت ہتھیاروں اور ماہرین کی مدد سے افغان فوج نے مجاہدین کو آسانی سے شکست دے دی۔ مجاہدین چھاپہ مار جنگ کے تو ماہر تھے مگر روایتی انداز کی کھلی جنگ لڑنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ ان کی قیادت بھی کمزور تھی۔ تین سال بعد افغان حکومت گرگئی۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ مجاہدین نے انہیں شکست دے دی تھی مگر سچ یہ ہے کہ سابق سوویت یونین نے افغانستان کی قومی فوج کی فنڈنگ روک دی تھی اور ہتھیار دینا بھی بند کردیے تھے۔
افغانستان سے بین الاقوامی افواج کو سالِ رواں کے آخر تک نکل جانا ہے۔ ایسے مبصرین اور تجزیہ کاروں کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ نیٹو کی سربراہی میں تعینات غیر ملکی افواج کے نکلتے ہی افغان حکومت گر جائے گی۔ انٹر نیشنل کرائسز گروپ نے ۲۰۱۲ء میں پیش گوئی کی تھی کہ مغربی افواج کے نکلتے ہی افغان حکومت زمین پر آرہے گی۔ عسکری مورخ تام رکز نے بھی لکھا کہ افغانستان میں حکومتی سیٹ اپ کا ناکام ہو جانا انتہائی ممکن بات ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ایسا ہوگا نہیں۔ جس طور سابق سوویت یونین کی افواج کے نکل جانے کے بعد بھی افغان حکومت تین سال تک چلی تھی بالکل اُسی طور افغانستان کی حکومت بھی برقرار رہ سکتی ہے کیونکہ اُس کے پاس منظم فوج ہے، جس کے پاس جدید ترین ہتھیار بھی ہیں۔ اگر مغربی حکومتوں نے افغانستان کی معاشی اور عسکری امداد جاری رکھی تو کوئی سبب نہیں کہ یہ حکومت نہ چلے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ریاست کی حیثیت سے افغانستان کی ناکامی پاکستان میں غیر معمولی عدم استحکام کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ ایسے میں امکان اس بات کا ہے کہ مغربی حکومتیں افغان حکومت کی مدد کرتی رہیں گی تاکہ خطے میں امن رہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں صورت حال ۱۹۹۲ء والی نہیں۔ آج کا افغانستان ۱۹۶۳ء کا سائیگون ہے۔ اِس سال ویت نام کی افواج نے سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ خوف یہ ہے کہ افغانستان کا بھی کہیں ایسا ہی معاملہ نہ ہو۔ چند برسوں کے دوران افغان فوج تیزی سے مستحکم ہوئی ہے اور اگر حالات اجازت دیں تو وہ اقتدار پر قابض بھی ہوسکتی ہے۔ ملک کے بیشتر معاشی امور اُس کے ہاتھ میں ہیں یا کنٹرول میں ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ افغانستان میں فوج مضبوط ہے اور ریاست کمزور۔ جو لوگ سیاسی اور عسکری تاریخ کا سطحی سا بھی علم رکھتے ہیں، وہ اِس صورت حال سے یقینی طور پر پریشان ہوں گے۔ جب سویلین سیٹ اپ کرپشن کے ہاتھوں تباہ ہونے لگتا ہے یا تباہ ہوچکتا ہے، تب اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ فوجی افسران صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں، اور ریاست کے نگہبان کی حیثیت سے آگے بڑھ کر سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو فوجی انقلاب یعنی سویلین اقتدار پر فوج کا قبضہ پرانے زمانوں کا قصہ لگتا ہو مگر مصر اور مالی کی مثالیں موجود ہیں، جہاں حال ہی میں اقتدار پر فوج نے قبضہ کیا ہے۔
افغانستان کی صورت حال فوج کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ پاکستان میں فوج کے اقتدار میں آنے کی طویل تاریخ رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف ہوں یا جنرل ضیاء الحق، کسی کی حکومت مثالی نہیں رہی۔ فوج نے اقتدار ہاتھ میں لینے کے بعد کوئی انقلابی تبدیلی یقینی نہیں بنائی۔ امریکا کو افغانستان میں فوج کے اقتدار میں آنے کی راہ روکنے کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جو کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے جو ۲۰۰۹ء میں پاکستان میں کیری لوگر بل کے ذریعے امداد دینے کے حوالے سے اختیار کیا گیا۔ اگر افغانستان میں فوج اقتدار پر قابض ہو بھی جائے تو تمام کی تمام امداد فی الفور روک نہیں دینی چاہیے۔ اس معاملے کو مرحلہ وار بھی درست کیا جاسکتا ہے۔ پہلے اقتصادی امداد روکی جائے اور اس کے بعد افغان فوج کو جدید ترین ہتھیاروں اور دیگر ضروری عسکری ساز و سامان کی فراہمی روکی جائے مگر یہ سب کچھ مرحلہ وار ہونا چاہیے۔ اسی طور افغان فوج کے افسران سے تعاون بھی محدود یا ختم کیا جاسکتا ہے۔
شورش کی تاریخ میں طالبان ایک واضح استثنائی مثال ہیں۔ یہ گروپ پہلے اقتدار میں آیا اور اس کے بعد شورش اور چھاپہ مار جنگ کی طرف گیا۔ طالبان نے افغانستان پر پانچ برس حکومت کی مگر ان پانچ برسوں میں انہوں نے عمدگی سے حکومت کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ عالمی بینک نے بہتر حکمرانی کے اعتبار سے جتنے بھی معیارات مقرر کر رکھے ہیں، ان کے تحت افغانستان کا شمار تین نا اہل ترین ممالک میں ہوتا رہا۔ ایک مرحلے پر یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان کو اُسی طرح چلایا جارہا ہے، جس طور صومالیہ کو چلایا جارہا ہے، یعنی کسی مضبوط مرکزی حکومت کے بغیر۔ نا اہلی اور سخت مزاجی کے باعث طالبان عوام میں بھرپور مقبولیت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے۔ انہوں نے مسلک کے اعتبار سے بھی وہ بات کی جو بیشتر افغانوں کے لیے انتہائی ناقابل قبول تھی۔ بیشتر افغان حنفی ہیں اور لچک رکھتے ہیں جبکہ طالبان نے دیوبندی مسلک کے تحت حکومت کرنے کی کوشش کی۔
نائن الیون کے بعد طالبان نے القاعدہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے افغانستان میں ایک اور جنگ کی راہ ہموار کرنے میں دلچسپی دکھائی۔ جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کی حکومت ختم کی تو انہوں نے کسی بھی مرحلے پر لچک دکھانے اور مقامی انتخابات کے ذریعے خود کو منوانے کی کوشش کرنے کے بجائے چھاپہ مار جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مگر انہیں وہ کامیابی نہ مل سکی جو ماضی میں ملتی رہی تھی۔ انہوں نے کوئی مستحکم اور متوازن سیاسی بازو قائم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی اور جن علاقوں پر اُن کا کنٹرول تھا وہاں بہتر حکمرانی کا تصور پیش کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔
افغان فوج تیزی سے مستحکم ہوتی گئی ہے۔ اس نے گزشتہ برس ملک کی سکیورٹی اپنے ہاتھ میں لے لی تھی اور تب سے اب تک اپنے طور پر کارروائیاںکرتی رہی ہے۔ فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے جو افغانستان جیسے ملک کے لیے کسی بھی اعتبار سے کم نہیں۔ اوباما انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ اب افغان فوج طالبان کو بہت سے معاملات میں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
اس وقت افغان فوج انتہائی مضبوط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی فوج افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول میں بہت حد تک ناکام رہی ہے مگر ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شمالی اتحاد کی افواج نے طالبان کے پانچ سالہ اقتدار کے دوران کسی بھی مرحلے پر ہتھیار نہیں ڈالے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سابق سوویت یونین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کی یعنی افغانستان سے فوجیوں کو نکالنے کے بعد فنڈنگ روک دی اور ہتھیار فراہم کرنا چھوڑ دیے تو اور بات ہے، ورنہ طالبان میں اِتنی قوت دکھائی نہیں دیتی کہ وہ افغان فوج کا سامنا کرسکیں یا اُسے زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔ اس بات کا امکان خاصا کمزور دکھائی دیتا ہے کہ افغان فوج طالبان کے ہاتھوں شکست کھا جائے گی یا اتنی کمزور ہوجائے گی کہ اُس پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ یہ نکتہ بھی نظر انداز نہ کیا جائے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں کو افغان فوج کو امریکا اور یورپ کی طرف سے فضائی امداد بھی حاصل ہے۔ ایسی حالت میں افغانستان کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں کہ طالبان کابل میں حکومت کو چلنے دیں گے یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغان فوج سویلین سیٹ اپ کو چلنے دے گی یا نہیں۔
فوج کے ہاتھوں سویلین حکومت کے خاتمے کی روایت ایشیا میں نئی ہے، نہ کسی اور خطے میں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی قوت کی مدد سے حکومت کرنا یا فوج ہی کا حکومت کرنا قدیم ترین سیاسی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان میں وہ تمام حالات موجود ہیں جو کسی بھی ملک میں فوج کے اعلیٰ ترین افسران کو سویلین سیٹ اَپ کا بوریا بستر گول کرنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ افغانستان کے فوجی افسران بھی سویلین سیٹ اپ کی نا اہلی اور بدعنوانیوں سے تنگ آکر اصلاح کا بیڑا اٹھاتے ہوئے ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ فوجی بغاوت کا سبب بننے والے بہت سے عوامل عالمگیر حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر افغانستان میں پائے جاتے ہیں یعنی فوجی بغاوت کا امکان یا خطرہ موجود ہے۔
برطانیہ کے ماہر سیاسیات سیمیوئل فائنر نے لکھا ہے کہ جنگ کے زمانے میں یا کسی بھی سنگین قومی بحران کے وقت فوج کے اقتدار میں آنے کا خطرہ شدید تر ہوتا ہے کیونکہ ایسے مواقع پر سویلین سیٹ اپ بہت سے معاملات میں فوج پر انحصار پذیر ہوتا ہے۔ فوج ایسے حالات میں غیر معمولی مقبولیت سے ہمکنار بھی ہوتی ہے۔ ایسے میں فوج اپنی اہمیت جتاتی ہے۔ اقتدار پر فوج کے قبضے کا خطرہ اس لیے بڑھ جاتا ہے کہ سویلین سیٹ اپ کی نا اہلی اور بدعنوانی کو جواز کے طور پر بیان کرکے فوجی کے اعلیٰ ترین افسران اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ افغانستان میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ افغانستان میں حکومت طویل مدت سے فوج پر انحصار کرتی آئی ہے۔ سویلین سیٹ اپ پر نا اہلی اور بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے کرپشن پرسیپشنز انڈیکس میں افغانستان ۱۷۵؍ویں نمبر پر ہے۔ یعنی وہ کرپشن کے اعتبار سے تیسرا بدترین ملک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ افغان کور کمانڈر اور جرنیل کابل کے احکام یا دفاعی اخراجات پر حکومتی کنٹرول قبول یا تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔
تھامس جانسن، رابرٹ سلیٹر اور پیٹ میکگوون نے ۱۹۸۳ء میں ’’اکیسویں صدی کے وسط میں افریقی ریاستوں میں فوجی بغاوتوں کے مطالعے‘‘ پر مبنی کتاب شائع کرکے بتایا کہ جن ممالک میں فوج بڑی ہوتی ہے اور ملک کے بیشتر معاملات چلانے میں سویلین سیٹ اپ کی مدد کرتی ہے، وہاں جرنیلوں کے سیاست میں متحرک ہونے کا امکان قوی ہو جاتا ہے۔ ایسے ممالک میں بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ افغانستان کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ افغان حکومت کے محصولات تقریبا سوا دو ارب ڈالر ہیں جبکہ امریکا نے افغانستان کی قومی فوج کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زائد کی کمٹمنٹ کی ہے۔ افغانستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کم و بیش ۲۲؍ارب ڈالر ہے جبکہ اس میں فوجی بجٹ کا تناسب ایک چوتھائی ہے۔ یوں معیشت کے تناظر میں دفاعی بجٹ انتہائی غیر معمولی ہے۔ افغان حکومت کے ہاتھ میں جس قدر بھی وسائل ہیں ان سے کہیں زیادہ وسائل فوج کے ہاتھ میں ہیں۔
وسائل پر اختیار کے معاملے میں اتنا شدید عدم توازن فوج کو ہر معاملے میں وسیع تر اختیارات دیتا ہے۔ معیشت اور سیاست کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی اور جنگ کی حکمت عملی جیسے امور میں بھی فوج کو سویلین سیٹ اپ پر برتری حاصل ہے۔ ایک لاکھ ۸۵ ہزار فوجی وزارت دفاع کے ماتحت ہیں۔ پولیس کی نفری بھی شمار کرلی جائے تو ملک کا سکیورٹی سیٹ اپ کم و بیش ساڑھے تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اتنا مستحکم سیٹ اپ کسی بھی وقت پارلیمنٹ کو ختم کرسکتا ہے، ایوان صدر پر قبضہ کرکے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ تمام اہم عمارات اور تنصیبات پر بھرپور کنٹرول قائم کرنا افغان فوج کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس وقت افغان فوج کے لیے مارشل لا لگانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
افریقا اور دیگر غیر مستحکم خطوں میں فوجی بغاوت کی تاریخ کا جائزہ لیجیے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ دارالحکومت کی آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ بھی فوجی بغاوت کی راہ تیزی سے ہموار کرتا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں کابل کی آبادی ۱۰؍لاکھ تھی۔ اب یہ ۳۳ لاکھ کی حد کو چھو رہی ہے۔ کابل میں پناہ گزینوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ مختلف معاملات پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
روز میری اوکین اور دیگر ماہرین سیاسیات نے فوجی بغاوت کے لیے جن عوامل کو بنیاد قرار دیا ہے، ان میں سیاسی اور معاشی معاملات نمایاں ہیں۔ افغان فوج سویلین سیٹ اپ پر نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات عائد کرتی آئی ہے۔ غربت، کساد بازاری، مہنگائی اور دیگر معاملات نے عوام کو مجموعی طور پر مایوس کیا ہے اور وہ معاملات کے درست ہونے کے لیے اللہ کی طرف سے کسی غیبی امداد یا انقلاب کی راہ تکتے رہے ہیں۔ افغانستان میں ایک طرف تو معاشی عدم استحکام رہا ہے اور دوسری طرف سیاسی طور پر بھی لوگوں کو وہ نہیں مل سکا جو ملنا چاہیے تھا۔ فی کس آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ ۲۰۱۳ء میں افغان جی ڈی پی فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا بھر میں چودھویں کمترین مقام پر تھی۔ آج بھی افغانستان کا شمار غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ عوام کا معیار زندگی خاطر خواہ حد تک بلند نہیں کیا جاسکا ہے۔ بیشتر افغان باشندے واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں وہ سب کچھ نہیں جو ہونا چاہیے اور یہ کہ اُنہیں آگے بڑھنے سے روکا جارہا ہے۔
سیاسیات کے ماہر ایڈورڈ لٹواک نے فوجی بغاوت کے برپا اور کامیاب ہونے کی تین اضافی بنیادی شرائط بیان کی ہیں۔ اول یہ کہ سیاست دانوں کی شمولیت کم سے کم رہنی چاہیے۔ یعنی سیاسی سرگرمیوں کو ریاستی معاملات سے الگ رکھا جائے۔ افغانستان میں اس کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ کمزور سول سوسائٹی کی موجودگی میں اگر ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد غیر معمولی بھی ہو تو ملک کو چلانے کے حوالے سے سیاست دانوں کا کردار بہت محدود ہوسکتا ہے۔ پاکستان اس کی ایک واضح مثال ہے جہاں انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے مگر پھر بھی فوجی بغاوتیں رونما ہوتی رہی ہیں۔ دوم یہ کہ غیر ملکی مداخلت کم ہونی چاہیے۔ افغانستان میں اب بیرونی طاقتوں کی مداخلت کم ہوچکی ہے۔ اور تیسرے یہ کہ ملک کا سیاسی یا حکومتی نظام مرکزی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ افغانستان میں مضبوط مرکزی نظام کام کر رہا ہے، یعنی بیشتر اختیارات فیصلہ کن حد تک مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ تمام اختیارات صدر کے منصب میں مرتکز ہیں۔
افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سویلین حکومت کو درست یا جائز سمجھنے والوں کی تعداد کم اور فوج کو قبول کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ۲۰۰۳ء میں آرون بیلکن اور ایوان شوفر نے بتایا کہ فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے جو ۲۱ عوامل اہم ہیں، ان میں سول سوسائٹی کی طاقت، حکومت کے جائز ہونے کی سطح اور ملک میں فوجی بغاوت کی تاریخ نہایت اہم ہیں۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین کی آرا کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو افغانستان کا معاملہ بہت خطرناک دکھائی دیتا ہے یعنی فوجی بغاوت کے رونما ہونے کا امکان انتہائی قوی ہے۔
عالمی بینک اور دیگر اداروں نے افغانستان میں طالبان کے بعد کے زمانے کا جو تجزیہ کیا ہے، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے کے باوجود اب تک افغانستان میں اظہار رائے کی حقیقی آزادی، قانون کی حکمرانی یا عملداری اور کرپشن سے نجات کے معاملے کو درست نہج پر نہیں لایا جاسکا ہے۔ منتخب اداروں پر عوام کے اعتماد کی سطح زیادہ بلند نہیں ہوسکی۔ اب بھی صرف ۴۷ فیصد افغان باشندے یہ کہتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ پر اعتماد ہے۔ ۷۷ فیصد افغان باشندے کہتے ہیں کہ اب بھی بدعنوانی ملک کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔
گزشتہ برس ایشیا فاؤنڈیشن نے ایک سروے کے نتیجے میں بتایا کہ ۹۱ فیصد افغان باشندے فوج کو ایماندار اور درست کردار کی مالک سمجھتے ہیں۔ ۹۳ فیصد افغان باشندوں کا خیال ہے کہ ملک میں سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے میں فوج نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اور ۸۸ فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں فوج پر مکمل اعتماد حاصل ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور تجزیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں فوج سے لوگ خوش ہیں اور منتخب حکومت کو زیادہ قابل اعتبار نہیں گردانتے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ دلیل دیں کہ طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کوئی ایسی حکومت ہی کرسکتی ہے جس کی پشت پر فوج موجود ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں حالات ایسے ہیں کہ فوجی بغاوت کسی بھی وقت رونما ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تب بھی مغربی دنیا کو بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
افغان عوام کیا چاہتے ہیں؟ جمہوریت یا فوجی حکومت؟ حقیقت یہ ہے کہ افغان عوام نے ہر مرحلے پر جمہوریت کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے فوجی حکومت پر منتخب حکومت کو اپنا جانا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ جمہوریت مستحکم ہو اور معاملات مشاورت سے انجام پائیں۔ اگر افغانستان میں حقیقی جمہوریت قائم ہو یعنی عوام کی مرضی کی حکومت بنے تو یہ امریکا، پاکستان اور دیگر بہت سے ممالک کے مفاد میں اور ان کی امنگوں کے مطابق ہوگا۔
طویل المیعاد مقاصد کو ایک طرف ہٹا دیا جائے تب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جمہوریت ہی کو گلے لگانا افغانوں کے لیے زیادہ اہم ہوگا۔ سرد جنگ کے دور میں امریکا نے سابق سوویت یونین کے مخالف ممالک اور خطوں میں فوجی یا آمرانہ حکومتوں کی سرپرستی کی مگر اس کا نتیجہ خود امریکا کے خلاف نکلا۔ اس کی ساکھ کمزور ہوتی چلی گئی کیونکہ دنیا یہ دیکھتی تھی کہ باتیں تو جمہوریت کو فروغ دینے کی ہو رہی ہیں اور عملاً جمہوریت کے قاتلوں کو اپنایا اور گلے لگایا جارہا ہے۔ جن ممالک میں آمرانہ طرز حکومت کو قبول کیا گیا، ان میں سیاسی عدم استحکام بڑھا۔ فرقہ واریت پنپتی گئی۔ سول سوسائٹی کمزور پڑی اور اس کے نتیجے میں مختلف منفی رجحانات توانا ہوتے گئے۔ جمہوریت کے نام پر چلائی جانے والی تحریکوں سے لوگ بدظن ہوتے چلے گئے کیونکہ باتیں بڑی بڑی کی جاتی تھیں مگر عملاً کچھ بھی نہیں کیا جاتا تھا۔
اگر امریکا افغانستان میں فوجی بغاوت کی راہ روکنا چاہتا ہے تو اسے چند اقدامات ضرور کرنا ہوں گے۔ افغان معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے نکالنا ہوگا۔ لازم ہے کہ فرقہ واریت کو روکا جائے اور ملک کو لسانی و نسلی بنیاد پر منقسم رکھنے کے رجحان کو فروغ نہ دیا جائے۔ اب تک تو افغانستان میں فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو ملک ترقی کر پائے گا نہ اس میں استحکام آئے گا۔ افغان فوج میں ملک کے تمام ہی نسلی اور لسانی طبقات کی نمائندگی ہے، جس کی بدولت وہ مستحکم ہوئی ہے۔ کسی ایک لسانی یا نسلی گروہ کو اولیت دینے سے فوج میں بھی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ افغان فوج میں پشتون سپاہی اور افسران ۴۲ فیصد ہیں۔ تاجک افسران ۳۹ فیصد ہیں جو طے کردہ ہدف یعنی ۲۵ فیصد سے بہت زیادہ ہے۔ فوجی بغاوت کی راہ روکنے کے لیے لازم ہے کہ تمام سکیورٹی اداروں میں توازن اور استحکام ہو۔ اگر فوج اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچے تو نیشنل گارڈز اور پولیس کو اس کا راستہ روکنا چاہیے۔ مگر اس کے لیے لازم ہے کہ پولیس اور نیشنل گارڈز میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہو۔
غیر ملکی افواج کی موجودگی اور سکیورٹی کے معاملات پر غیر معمولی فنڈنگ اس بات کی ضمانت نہیں کہ ملک مستحکم ہوگا اور آمریت نہیں آئے گی۔ کئی ممالک نے ثابت کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی سے ملک میں غیر یقینیت بڑھتی ہے اور لوگ سیاسی استحکام کے حوالے سے مایوس ہوتے جاتے ہیں۔ ویت نام میں ۱۹۶۳ء میں یہی ہوا تھا۔ بہتر ہے کہ بیرونی قوتیں افغانستان میں سکیورٹی کے معاملات میں کم کم دلچسپی لیں۔ اِس صورت میں ملک کو بہتر طور پر چلانا زیادہ آسان اور ممکن ہوگا۔
امریکا نے بہت سے مواقع پر اتحادی ممالک میں فوجی بغاوت کے برپا ہونے اور جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کو نظر انداز کیا ہے۔ اس رجحان کو ترک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اتحادی ممالک کے عوام محسوس کریں کہ امریکا ان کا بھلا چاہتا ہے اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔
افغانستان کے لیے کون سا راستہ بہتر رہے گا، اس کا فیصلہ خود افغانوں کو کرنا ہے۔ فوجی بغاوت کے ذریعے اگر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو قلیل المیعاد بنیاد پر اس کا فائدہ ضرور پہنچے گا مگر آگے چل کر ملک میں عدم استحکام بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے۔
“Afghanistan’s coming coup?”.
(“Foreign Affairs”. April 2, 2014)
Leave a Reply