سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نے امریکی صدر باراک اوباما پر الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں اضافی فوجی تعینات کرنے کے معاملے میں وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر باراک اوباما آدھی کچی اور آدھی پکی معلومات کی بنیاد پر کسی ملک پر حملے کا فیصلہ کرتے تو ڈک چینی کے نزدیک یہ ان کی ہمت اور قوتِ فیصلہ کا مظہر ہوتا۔ اوباما کے لیے بہترین آپشن تو یہ ہے کہ وہ پورے افغانستان کے حوالے سے تمام آپشنز پر غور کریں اور اس سلسلے میں وقت لیں۔
سوال افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا نہیں بلکہ تیسرے اضافے کا ہے۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ۲۶ ہزار ۶۰۷ تھی جو ۶ ماہ میں ۴۸ ہزار ۲۵۰ تک پہنچ گئی۔ بش انتظامیہ نے اسے خاموش اضافہ قرار دیا اور وہی روایتی سا جواز پیش کیا کہ سوال صرف افغانستان میں غیر ملکی افواج کی سیکورٹی کا نہیں بلکہ افغان سیکورٹی فورسز کی تربیت اور نظم و نسق مقامی حکام کے حوالے کرنے اور تعمیر نو میں ہاتھ بٹانے کا بھی ہے۔
جنوری ۲۰۰۹ء میں جس دن باراک اوباما نے حلف اٹھایا اسی دن مزید تین ہزار فوجی افغانستان بھیجے گئے۔ اس اضافی تعیناتی کا حکم سبکدوش ہونے والے صدر جارج واکر بش نے دیا تھا۔ افغانستان میں امریکی فیلڈ کمانڈر کی درخواست پر صدر اوباما نے فروری میں مزید ۱۷ ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ۱۸ ماہ کے دوران افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد تین گنا ہوچکی ہے۔ اگر مزید ۴۰ ہزار فوجی افغانستان بھیج دیے گئے تو یہ تعداد چار گنا ہوجائے گی۔ دوسری طرف عراق میں بھیجے جانے والے اضافی امریکی فوجیوں کی تعداد ۲۰ ہزار سے زیادہ نہیں۔ اگر اضافی فوجیوں کی تعیناتی پر غور کیا جائے اور مزید فوجی بھیجنے کی منطق پر سوالیہ نشان لگایا جائے تو اسے کسی بھی اعتبار سے جذباتی ہونا نہیں سمجھا جائے گا۔
افغانستان میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے بڑھ کر ضروری امر یہ ہے کہ امریکا اپنی حکمت عملی تبدیل کرے۔ یہ مشورہ ایک سینئر فوجی افسر نے دیا ہے اور یہ سینئر افسر کوئی اور نہیں، افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل ہیں۔ وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے نام ۶۶ صفحات کے میمو میں انہوں نے لکھا ہے کہ افغانستان میں حکمت عملی اور سوچنے کا ڈھنگ تبدیل کرنا بھی لازم ہے۔ ان کی اس سفارش کی روشنی میں حکمت عملی تبدیل کرنے کا عمل تو شروع بھی کیا جاچکا ہے۔
افغانستان میں امریکی افواج کس طرح لڑ رہی ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے جنوب مشرقی افغانستان کے گاؤں ونات کے معرکے کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ۱۳ جولائی ۲۰۰۸ء کو امریکی فوجیوں نے اس گاؤں کا محاصرہ کیا۔ لڑائی کے دوران ۹ امریکی فوجی مارے گئے۔ افغانستان میں کسی ایک معرکے کے دوران ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دور افتادہ علاقے میں امریکی فوجی کیا کر رہے تھے۔ ممتاز دفاعی تجزیہ کار ٹام رک کا کہنا ہے کہ ونات کا علاقہ پہاڑوں سے گھرا ہے اور یہاں غیر ملکیوں کا وجود کسی بھی طرح برداشت نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں امریکی فوجیوں کو وہاں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
جنرل میک کرسٹل نے جولائی کے معرکے کے بعد سے ونات سے فوج ہٹالی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر گریگ جیف نے ایک سال بعد کی صورت حال کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ دور افتادہ، پہاڑوں سے گھرے چھوٹے علاقوں میں فوج رکھنے سے بہتر یہ ہے کہ یہ علاقے طالبان کے تصرف میں جانے دیے جائیں۔ ونات سے چھ میل دور تعینات امریکی کمانڈرز کو معلوم ہوا ہے کہ ونات کے میکینوں اور طالبان کے درمیان اختلافات ابھرے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دور افتادہ علاقوں میں طالبان کو اڈے بنانے دیے جائیں اور امریکی فوج کو بس کبھی کبھی کوئی کارروائی کرنی چاہیے۔
افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا سامنا کرنے کا معاملہ اطلاقی طبیعات جیسا ہے۔ جنرل میک کرسٹل نے طے کرلیا ہے کہ مزید چالیس ہزار فوجی افغانستان میں تعینات ہوں گے تب ہی طالبان کا بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے گا ورنہ نہیں۔ یہ خیال خاصا لغو ہے کیونکہ ایک سال کے دوران سینئرفوجی افسران نے مجھے بارہا بتایا ہے کہ افغانستان میں جتنے امریکی فوجی (۶۸ ہزار) تعینات ہیں وہ کسی بھی قسم کی سرکشی کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے سے متعلق کسی بھی اہم فیصلے کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ ملک کا کتنا حصہ کور کرنا ہے اور امریکی فوجیوں کا بنیادی کام کیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بڑی آبادی والے علاقوں کے لیے جنرل پیٹریاس پلان اور کم آبادی والے اور قدرے غیر آباد علاقوں کے لیے جو بائڈن پلان پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ درمیانی راستہ ہے۔ اس وقت امریکا میں عسکری اور غیر عسکری امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ تک ہے۔ یہ لوگ افغانستان کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اضافی فوجیوں کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اگر ضرورت پڑی بھی تو کم فوجیوں کو تعینات کرنا ہوگا۔ باراک اوباما کو یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے آپشنز ذہن نشین رکھنے ہوں گے تاکہ افغانستان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ درست انداز سے کیا جاسکے۔
(فرید زکریا اب امریکی ہیں۔ تاہم ان کا آبائی تعلق بھارت سے ہے۔ وہ نیوز ویک انٹرنیشنل کے ایڈیٹر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔)
(بحوالہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply