
افغانستان میں افیم کی تیاری میں خام مال کے طور پر استعمال ہونے والی پوست کی کاشت رکوانے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد گزشتہ جون میں امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے یہ حیرت انگیز اعلان کیا کہ پوست کی کاشت رکوانا وسائل کا ضیاع ہے! اس کے بجائے اب نیٹو اور افغان افواج نے افیون کی تجارت اور طالبان کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی کے نیٹ ورک پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ویت نام میں قائم یو این آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم کے سربراہ انتونیو ماریا کوسٹا سے بڑھ کر اس صورت حال پر کسی کی نظر نہیں۔ انتونیو ماریا کوسٹا افغانستان جاتے رہتے ہیں اور تین سو ساٹھ مقامی اہلکاروں کی ٹیم ملک بھر میں گھوم پھر کر منشیات کی تیاری اور تجارت پر نظر رکھتی ہے۔ افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخاب سے قبل نیوز ویک کے کرسٹوفر ڈکی سے متعدد انٹرویوز میں انتونیو ماریا کوسٹا نے افغانستان میں جنگ کی پشت پر منشیات کی تجارت کا جائزہ لیا۔ انٹرویو پیش خدمت ہے۔
٭ پوست کی کاشت روکنے کی کوشش ترک کیوں کی جانی چاہیے؟
انتونیو ماریا کوسٹا: گزشتہ سال افغانستان حکومت نے پانچ ہزار ہیکٹرز پر پوست کی فصل تباہ کی جبکہ مجموعی طور پر ایک لاکھ ۵۹ ہزار ہیکٹرز پر پوست کاشت کی گئی تھی۔ پوست کی فصل ضائع کرنے کے عمل میں فوج اور نیم فوجی دستوں کے ۷۰ اہلکاروں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ صرف ۳ فیصد فصل تباہ کرنے پر ۲۰ کروڑ ڈالر خرچ ہوئے یعنی ایک ہیکٹر پر محیط فصل تباہ کرنے کے لیے ہزاروں ڈالروں کا ضیاع! پوست کی کاشت پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے دو رخ ہیں۔ پہلا یہ کہ پیداوار میں کمی لائی جائے اور دوسرا یہ کہ کسانوں کو آئندہ پوست کاشت کرنے سے روکا جائے۔ اگر پوست کی کاشت روکنے کی کوششیں صرف تین فیصد فصل ضائع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں تو کسانوں کی حوصلہ شکنی کس طور ممکن ہوسکے گی؟ بہتر تو یہ ہے کہ اس حوالے سے مختص رقوم کو اسپتال اور اسکول تعمیر کرنے پر صرف کیا جائے۔
٭ آپ کا کہنا ہے کہ دنیا جس قدر افیون استعمال کرتی ہے، افغانستان اس سے کہیں زیادہ پیدا کرتا ہے؟
انتونیو ماریا کوسٹا: حقیقت یہی ہے۔ ۲۰۰۵ء سے اب تک افغان کاشتکاروں نے عالمی طلب سے دگنی افیون پیدا کی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ طلب سے دگنی پیداوار کے باوجود قیمت کم نہیں ہوئی۔ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ پیداوار کا بڑا حصہ مارکیٹ تک نہیں پہنچ رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو پیداوار غائب ہے وہ کہاں ہے۔ افغانستان کے جنوبی صوبوں میں آپریشنز کے دوران نیٹو افواج کو افیون کے بڑے ذخائر ملے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افیون کی تجارت کو طالبان نے کنٹرل کر رکھا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں اور اسے بریکنگ نیوز کے طور پر لیا جائے کہ ۲۰۰۹ء میں مسلسل دوسرے سال افغانستان میں پوست کی کاشت اور پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر اس کے باوجود اس سال بھی طلب کے مقابلے میں رسد زیادہ ہے۔ کسی نے دس ہزار ٹن افیون ذخیرہ کر رکھی ہے جو عالمی سطح پر ہیروئن کی لت کو دو سال تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ افیون کی یہ مقدار مارفین کی تین سال کی طلب پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ افیون کی یہ مقدار کہاں ہے اور کیوں ہے، یہ ہم نہیں جانتے۔ ہاں، یہ بات بہت عجیب اور خطرناک ضرور ہے۔
٭ ۲۰۰۵ء کے مقابلے میں قیمتیں نصف رہ گئی ہیں۔ اس بات کے آثار ہیں کہ طالبان نے مارکیٹ پر اثر انداز ہونے کے لیے افیون بڑے پیمانے پر ذخیرہ کی ہے۔ ایک موقع پر آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ افیون کے ذخائر کی قیمت بڑھانے ہی کے لیے طالبان نے پوست کی کاشت کی حوصلہ شکنی بھی کی تھی؟
انتونیو ماریا کوسٹا: نیٹو افواج کے حالیہ آپریشنز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان افیون کے کاروبار کو چلانے کے معاملے سے ہمارے گمان سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ نیٹو افواج کے آپریشنز کے دوران پوست کے بیج، افیون، لیباریٹری کے آلات، ہتھیار اور پک اپ ٹرکس، غرض یہ کہ تمام ضروری سامان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شر پسند خود بھی افیون کی تجارت میں ملوث رہے ہیں۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے۔ ہمارا ابتدائی اندازہ یہ تھا کہ شاید وہ افیون کی پیداوار کے دس فیصد پر متصرف ہیں۔ ہمارا یہ بھی خیال تھا کہ طالبان شاید اصلاً صرف مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی سے تحریک پاتے ہیں۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ صرف دولت کے لیے سرگرم تھے۔ دولت کا حصول چاہے اپنی ذات کے لیے ہو یا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے طالبان کرائم کارٹیلز کے لیے، بات خطرناک ہی ہے۔ اس معاملے کی بھرپور نگرانی کی جانی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ہم افغان نارکو کارٹیلز کے قیام کا منظر دیکھ رہے ہیں۔
٭ طالبان کے مالیاتی وسائل کتنے ہوسکتے ہیں؟
انتونیو ماریا کوسٹا: گزشتہ برس صرف افغانستان میں افیون کی فروخت تین ارب ڈالر رہی۔ دنیا بھر میں خوردہ سطح پر (نیپلز، مارسیلیز یا لندن کی سڑکوں پر) اس کی فروخت تقریباً ۵۲ ارب ڈالر رہی۔
٭ سب سے زیادہ خریدار کہاں ہیں؟
انتونیو ماریا کوسٹا: ایران میں۔ ایران میں افیون اور ہیروئن کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد سرکاری طور پر ۲۰ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ تعداد ۳۰ لاکھ سے زائد ہے جو ملک کی آبادی کا ۶ فیصد ہے۔ یہ لوگ مارفین اور ہیروئن کے ساتھ ساتھ افیون کے ٹکڑے بھی استعمال کرتے ہیں۔
(بحوالہ: ’’نیوز ویک‘‘ لندن۔ ۷ ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply