
امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں حکمت عملی تبدیل کرنے کے حوالے سے اپنی سلامتی کی ٹیم سے مشاورت کی تیاری شروع کردی ہے۔ افغانستان میں امریکا کی جانب سے مسلط کی جانے والی جنگ کو ۸ سال ہوچکے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کی حمایت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
باراک اوباما کو گزشتہ جنوری میں امریکی صدر کا منصب سنبھالتے وقت افغان جنگ بھی سبکدوش ہونے والے صدر جارج واکر بش سے ورثے میں ملی تھی۔ افغانستان میں صورتحال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے اور اب تک اس جنگ میں ۸۰۰ امریکی مارے گئے ہیں۔ امریکیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی محکمہ دفاع پر حملوں کے بعد امریکا نے طالبان اور القاعدہ کو سبق سکھانے کے لیے افغانستان میں جنگ شروع کی تھی۔ یہ جنگ تمام اندازوں سے بڑھ کر طویل ثابت ہوئی ہے۔
امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے ارکان نے حال ہی میں افغانستان کے مسئلے پر صدر اوباما سے مشاورت کی اور پوری توجہ سے تمام ارکان کا موقف سننے پر ان کی تعریف بھی کی۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام ارکان اپنی اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ہی رائے دیتے دکھائی دیئے۔ ری پبلکن ارکان کا استدلال تھا کہ صدر اوباما کو فوجی کمانڈروں کی بات ماننی چاہیے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی کمانڈروں کی بات ماننے پر صدر کو مجبور نہ کیا جائے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ افغان جنگ کی حمایت اب صرف چالیس فیصد امریکی کرتے ہیں۔ جو لوگ خود کو ری پبلکن پارٹی کا حامی تصور کرتے ہیں ان میں سے ۶۹ فیصد کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے چاہئیں۔ دوسری طرف ڈیموکریٹ قرار دیئے جانے والے ۵۷ فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ افغان جنگ کے لیے مزید فوجی بھیجنا کسی بھی طور درست نہ ہوگا۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کو محدود کرکے دہشت گردی کے خاتمے کی کارروائی کی سطح پر نہیں لایا جائے گا، امریکی فوجیوں کی تعداد کو نمایاں حد تک کم نہیں کیا جائے گا اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں خصوصی فورسز کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ لگانے کا کام نہیں سونپا جائے گا۔ اوباما انتظامیہ کے دو اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ یہ منظرنامہ غیر ضروری طور پر امریکی نائب صدر جو بائڈن سے نتھی کردیا گیا ہے اور صدر باراک اوباما ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تاثر کو ختم کردیں۔
صدر اوباما نے اب تک یہ عندیہ نہیں دیا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں وہ فوری اضافے کا کوئی منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی افواج کے ٹاپ کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں مزید ۴۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کرنے کی ضروت ہے۔ صدر اوباما پہلے ہی اس سال کے دوران ۲۱ ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دے چکے ہیں۔ افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کی تعداد اب ۶۸ ہزار ہوچکی ہے۔
امریکی صدر نے افغانستان کے بارے میں مشاورت اسٹیٹ ڈائننگ روم میں کی۔ اس میٹنگ میں جو لوگ موجود تھے انہوں نے بتایا کہ سابق صدارتی انتخاب میں اوباما کے ری پبلکن حریف جان میکین نے صدر کو متنبہ کیا کہ افغانستان کے معاملے میں سست رفتاری خطرناک ثابت ہوگی۔ اس پر اوباما خاصے جزبز ہوئے اور انہوں نے وضاحت کی کہ افغانستان کی صورت حال پر جس قدر تشویش انہیں ہے، شاید ہی کسی کو ہوگی۔ اور یہ کہ وہ اس معاملے میں کوئی بھی کام سست روی سے نہیں کر رہے۔
کانگریس میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ارکان کا کہنا ہے کہ صدر اوباما شاید افغانستان میں ۴۰ ہزار کے بجائے صرف دس ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب صدر کے معاونین نے اس تاثر کی نفی کی ہے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ حکمت عملی میں موزوں تبدیلی کے بعد ہی وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے قانون سازوں سے کہا کہ معاملات پر غور کرنا اور چیز ہے مگر وہ اس بات کو بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان کا معاملہ فوری توجہ چاہتا ہے اور وہ اس پر خاطر خواہ توجہ دے رہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کے ری پبلکن لیڈر جان بوہنر کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ خاصا دشوار ثابت ہوگا اور صدر کو اس سلسلے میں کچھ وقت ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ افغانستان میں ہر گزرتا ہوا دن امریکی فوجیوں کی مشکلات اور انہیں لاحق خطرات میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی مشن تبدیل نہیں ہو رہا۔ امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ القاعدہ کو کوئی ایسی پناہ گاہ بنانے سے روکنا چاہتے ہیں جہاں سے ان کے لیے امریکی فوجیوں پر حملے کرنا آسان ہو۔ انہوں نے اٹھارہ قانون سازوں کو توجہ سے سننے کے بعد کہا کہ وہ افغانستان کے بارے میں input لیتے رہیں گے گوکہ انہیں اندازہ ہے کہ ان کے فیصلے سے سب خوش نہیں ہوں گے۔
صدر اوباما نے مضبوط حکمت عملی ترتیب دینے پر زور ضرور دیا تاہم اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ اس حکمت عملی میں کن نکات پر زور دیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ افغانستان کے معاملے میں سب کی رائے سن کر کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ صدر اوباما نے افغانستان سے افواج واپس بلانے اور انسداد دہشت گردی کے عمل کو معمولی کارروائی تک محدود کرنے سے بھی انکار کیا ہے تاہم یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہاں متعین امریکی فوجیوں کی تعداد غیر معمولی حد تک بڑھائی بھی نہیں جائے گی۔
جان میکین نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ادھورے اقدامات سے معاملات خراب ہوسکتے ہیں اور یہ کہ انہیں ادھورے اقدامات ہی کا خدشہ ہے۔ جان میکین کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کو فوجی کمانڈروں کی بات توجہ سے سننا چاہیے اور مزید ہزاروں فوجی افغانستان بھیجنے چاہئیں جیسا کہ سابق صدر جارج واکر بش نے عراق کے معاملے میں کیا تھا۔ امریکی ایوان صدر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی اور طالبان کے خلاف مشن سے متعلق کوئی بھی فیصلہ نہ تو قانون سازوں کی مرضی کا آئینہ دار ہوگا اور نہ افغان جنگ کے لیے امریکی عوام کی گھٹتی ہوئی حمایت اس فیصلے پر اثر انداز ہوگی۔ صدر اوباما کے پریس سیکریٹری رابرٹ گبز نے میڈیا کو بتایا کہ صدر افغانستان کے بارے میں کوئی بھی مقبول یا غیر مقبول فیصلہ ملک کے بہترین مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے کریں گے۔
(بحوالہ: ’’ایسوسی ایٹڈ پریس‘‘۔ ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply