افغانستان میں بڑھتے ہوئے خطرات

افغانستان میں بڑھتی ہوئی شورش اور بے ہنگم سیاست عدم استحکام میں اضافہ کر رہی ہے، ۲۰۱۴ء میں بین الاقوامی فوجی انخلا کے بعد سے طالبان نے تیزی کے ساتھ ملک بھر میں اپنی موجودگی میں وسعت دی ہے، داعش سے وابستہ اسلامی اسٹیٹ خراساں بھی مشرقی اضلاع میں قدم جما چکی ہے، تلخی کے ساتھ لڑے گئے ۲۰۱۴ء کے صدارتی انتخابات نے ملک کو افراتفری میں دھکیل دیا ہے، قومی اتحادی حکومت کو اندرونی اختلافات اور غیر فعالیت نے گھیر لیا ہے جس کی وجہ سے افغان سیکورٹی فورسز کی شورش کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہوگئی ہے اس کے ساتھ حکومت کی گورننس ، معاشی اور انسانی بحران کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت بھی کمزور ہوگئی ہے، شہری اور فوجی جانی نقصان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے بے گھر افراد کے تعداد اور فوری انسانی امداد کے ضرورت مند افراد میں اضافہ ہورہا ہے۔

۲۰۱۴ء میں سیکورٹی معاملات افغان فوج کو منتقل ہونے کے بعد محدود علاقوں میں موجود افغان نیشنل ڈیفنس سیکورٹی فورس کو کئی محاذوں پر بڑھتی ہوئے شورش کا سامنا ہے، افغانستان کی تعمیر نو کے امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل کے مطابق یکم فروری ۲۰۱۷ء کو ۳۷۵؍اضلاع میں سے صرف ۲ء۵۷ فیصد علاقے ہی حکومت کے زیر اثر تھے، ۲۰۱۵ء کے مقابلے میں تقریباً ۱۵فیصد کم، اسپیشل انسپکٹر جنرل کے مطابق ۲۰۱۶ء میں جنوری سے نومبر کے دوران افغان فورسز کے ۶۷۸۵؍اہلکار ہلاک اور ۱۱۷۷۷ زخمی ہوئے ہیں، افغان فورسز کو اس بڑے نقصان کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب وہ پہلے ہی اہلکاروں کے فوج سے فرار روکنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے مشن نے بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں شہری ہلاکتوں میں ۳ فیصد اضافے کی رپورٹ دی ہے، ۲۰۱۶ء میں ۳۴۹۸ ہلاکتیں اور ۷۹۲۰؍افراد زخمی ہوئے۔ گزشتہ سال کے پہلے تین ماہ کے مقابلے میں ۲۰۱۷ء کے پہلے تین ماہ کے دوران کابل میں ہائی پروفائل حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے، ۲۱؍اپریل کو شمالی صوبے بلخ میں طالبان نے افغان فوجی مرکز پر حملہ کر دیا، فائرنگ اور خودکش حملے میں ۱۰۰؍اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، حملے کے اگلے دن ہی افغان آرمی چیف اور وزیر دفاع کو استعفیٰ دینا پڑا، مارچ کے مہینے میں پولیس اسٹیشن اور فوجی اسپتال پر ہونے والے دو حملوں میں ۷۳؍افراد ہلاک اور ۲۴۰سے زائد زخمی ہوگئے۔ موسم بہار کی کارروائیوں کے دوران مزید علاقوں پر مزاحمت کاروں کے قبضے کی روک تھام کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے، خاص طور حکومتی عملداری سے باہر کے علاقے جن کو مقامی اور بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کی جانب سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ۸۴۰۰؍امریکی فوجی افغانستان میں پہلے ہی موجود ہیں جبکہ امریکا کی فوجی قیادت نے مزید چند ہزار اضافی فوجیوں کی درخواست کی ہے، اگر یہ درخواست منظور ہوجاتی ہے تو یہ اقدام ممکنہ طور پر افغان سیکورٹی فورسز کا مورال بلند کرنے ساتھ باغیوں کے حملے ناکام کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی شورش کا مقابلہ کرنے کا انحصار دنیا کی جانب سے کی جانی والی مالیاتی اور تکنیکی مدد پر ہوگا، جولائی ۲۰۱۶ء میں وارسا اجلاس کے دوران نیٹو کی جانب سے ہر ممکن مدد کرنے کے وعدے کیے گئے، جس میں افغان فورسز کی مدد اور تربیت کے ساتھ ان کو ۲۰۲۰ء تک ۵ء۴؍ارب ڈالر کی سالانہ فنڈنگ کی فراہمی شامل ہیں، سلامتی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اندرونی اختلاف کم کرنے کے ساتھ بے جا سیاسی مداخلت روکنے کی ضرورت ہے، بیجا سیاسی مداخلت سیکورٹی فورسز میں ہر سطح پر نفوذ کر چکی ہے اور اس نے افغان فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، افغان نیشنل آرمی کی طرح افغان پولیس بھی اقربا پروری اور دھڑے بندیوں کا شکار ہے جبکہ حکومتی ڈویژنز میں کرپشن کے اثرات کو کم کرنے اور ضروری اصلاحات کے نفاذ کا عمل روکا ہوا ہے، اسی طرح کی کمزوریوں اور مکمل طور پر غیر فعال حکومت نے ۲۰۱۶ء میں شمالی شہر قندوز پر طالبان کے قبضے، مارچ ۲۰۱۷ء میں جنوب میں لشکر گاہ اور ترین کوٹ کے محاصرے اور ہلمند کے ضلع سنگین پر طالبان کے قبضے میں اہم کردار ادا کیا ۔

مغرب کی جانب سے افغانستان میں موجود رہنے کے عزم میں ابہام کے دوران افغانستان کے ہمسایہ ممالک زیادہ جارحانہ انداز میں اسی چیز کو فروغ دے رہے ہیں جسے وہ ماضی میں اپنے قومی مفاد میں سمجھتے رہے، ان میں سب سے اہم پاکستان ہے، جس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات مسلسل کشیدہ ہیں، اسلام آباد، کابل اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور مسلسل اپنی افغان پراکسیز کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، پاکستان میں موجود افغان پراکسیز کو نئی بھرتی کرنے، فنڈ جمع کرنے اور محفوظ ٹھکانے میں بیٹھ کر منصوبہ بندی اور کارروائی کرنے کی اجازت ہے، اس تاثر کو تبدیل کرنے کے لیے پاکستان نے کابل پر الزام لگایا ہے کہ پاکستانی قبائلی عسکریت پسند افغان سرزمین استعمال کرکے سرحد پار حملے کرتے ہیں، بگڑتے پاک افغان تعلقات دیگر نتائج بھی رکھتے ہیں، ۲۰۱۶ء میں اسلام آباد نے کابل کے ساتھ بگڑتے تعلقات کی وجہ سے ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغانیوں کو زبردستی وطن واپس بھیج دیا جن میں ۳۸۰۰۰ رجسٹرڈ پناہ گزین بھی شامل تھے، ان تعلقات کے بگڑنے کی وجہ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے ساتھ افغانستان میں موجود پاکستانی قبائلی عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملے تھے، فروری ۲۰۱۷ء میں جنوبی پاکستان میں مزار پر ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان نے دو اہم سرحدی گزر گاہوں، طورخم اور چمن کو ایک ماہ کے لیے بند کر دیا تھا، اس کے ساتھ ہی سرحدی علاقے کنڑ اور ننگرہار میں مارٹر اور دیگر ہتھیاروں سے حملے بھی کیے گئے، اس حملے کی ذمہ داری مشرقی افغانستان میں مقیم پاکستانی طالبان کے دھڑے نے قبول کی تھی، اگر چہ بعد میں سرحدی گزر گاہوں کو دوبارہ کھول دیا گیا، مگر پاکستان نے سرحد پر باڑ لگانا شروع کر دی، اس اقدام نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا کیونکہ اب تک کابل نے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا ہے، کابل اور نئی دہلی کے قریبی تعلقات علاقے میں حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، نئی دہلی نے افغانستان کیلیے ایک ارب ڈٖالر کے امدادی پیکج کے ساتھ MI-25 جنگی ہیلی کاپٹروں کی پیشکش کی ہے، جس کو اسلام آباد کی طرف سے اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایران، امریکا دشمنی پر مبنی موقف رکھنے کے ساتھ داعش خراساں سے مقابلے کی خواہش بھی رکھتا ہے، اسی لیے ایران پر طویل عرصے سے طالبان کے کچھ دھڑوں کو فوجی سازو سامان فراہم کرنے کا شبہ کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں روس کی جانب سے بھی طالبان سے تعلقات کا اظہار کیا جا چکا ہے، سینئر امریکی فوجی حکام کے مطابق روس طالبان کو فوجی مدد فراہم کر رہا ہے اور روس کی جانب سے نئے مذاکراتی عمل کی قیادت کرنے کی تجویز بھی دی جاچکی ہے، جس سے افغانستان کی سلامتی کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ افغانوں کے درمیان اتفاق کے بغیر بین الاقوامی قیادت میں ہونے والے کوئی بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ افغان حکومت کی حمایت اور مخالفت کرنے والے تنازعہ جاری رکھنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کا راستہ اختیار کریں، بیرونی عناصر بھی مذاکرات میں سہولت دینے کے ساتھ دیگر طریقوں سے مدد فراہم کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے اندرونی تحرک پیدا کرنا ہوگا، اس تناظر میں یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کو افغان قیادت میں امن عمل کے لیے تکنیکی اور مالی مدد جاری رکھنی چاہیے، اس بات کو یورپی یونین کے آئندہ ۲۰۔۲۰۱۷ء کی افغانستان کے لیے حکمت عملی میں شامل ہونا چاہیے۔

افغانستان میں سب سے بااثر بیرونی طاقت اب بھی امریکا ہے، کامیاب مذاکرات کے لیے دوسری لازمی شرط امریکا کی جانب سے ایک جامع سیاسی حکمت عملی اپنانا ہے، ٹرمپ انتظامیہ کی افغان پالیسی پر ابھی کام جاری ہے مگر انہوں نے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہوئے فوجی مدد میں مزید اضافے کے واضح اشارے دیے ہیں، لیکن اب بھی اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ مذاکرات کی بہترین ترتیب اور تشکیل کیا ہوگی، مئی ۲۰۱۶ء میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت کے بعد امریکا، پاکستان، چین اور افغانستان پر مشتمل چار رکنی مشاورتی گروپ غیر فعال کر دیا گیا، روس کی پاکستان، چین، ایران، بھارت اور خاص کر افغانستان کو ساتھ ملانے کی کوششیں زیادہ امید افزا ہیں کیونکہ اس میں کسی حد تک تمام علاقائی اسٹیک ہولڈر شامل ہیں، لیکن واشنگٹن کی جانب سے اس امن عمل میں شامل ہونے کی ماسکو کی درخواست کو رَد کر دیا گیا، واشنگٹن کو ماسکو اور طالبان کے بڑھتے تعلقات پر تشویش ہے، کیونکہ ماسکو کی فوجی مدد افغانستان میں امریکیوں کی زندگیوں کے ساتھ ان کی استحکام کی کوششوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے، افغانستان میں امریکا کے کلیدی کردار کے پیش نظر امریکا کی غیر موجودگی سے کسی بھی امن عمل کو یقینی طور نقصان ہوگا، یورپی یونین کو وسیع افغان حمایت رکھنے والے مذاکراتی عمل میں تکنیکی مدد فراہم کرنی چاہیے، روسی قیادت میں ہونے والے موجودہ امن عمل سے سب سے اہم اسٹیک ہولڈر غائب ہے اور وہ ہیں طالبان۔

تیسرا سب سے اہم نکتہ پاکستان کو قائل کرنا ہے کہ طالبان بغاوت جاری رکھنے کے بجائے افغانستان میں سیاسی مفاہمت میں کردار ادا کرنے میں پاکستان کو زیادہ فائدہ ہوگا، اس کام کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہوگی، بین الاقوامی برادری کو پاکستان پر پالیسی تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے ساتھ اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعمیری بات چیت کے لیے سہولت فراہم کرنی ہوگی، اس سلسلے میں امریکا کا کردار مرکزی ہوگا، اس میں اسلام آباد کو فراہم کی جانے والی امریکی فوجی امداد کو کابل کے ساتھ تعاون سے مشروط کرنا شامل ہے، تاکہ پاکستان باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے ساتھ طالبان کی کوئٹہ شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت پر دوبارہ غور کرے، اس وقت حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ باغیوں کی کمان کررہے ہیں، امریکا کا پاکستان پر افغان پراکسیز کی حمایت بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا سب سے اہم ہوگا، اس سلسلے میں یورپی یونین اور رکن ممالک کو پاکستان کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر دباؤ رکھنے کے لیے مالی امداد جاری رکھنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک پرامن طریقے سے اختلافات حل کرنے پر قائل ہوں۔

افغانستان دنیا میں سب طویل عرصے سے جاری انسانی بحرانوں میں سے ایک سے دوچار ہے، اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے ۲۰۱۶ء لڑائی کے لیے بدترین ثابت ہوا، گزشتہ برس تقریباً دس لاکھ افراد لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہوئے جبکہ ۲۰۱۰ء میں یہ تعداد صرف۷۰ ہزار تھی، ۲۰۱۶ء میں ہی دس لاکھ افغان مہاجرین اور تارکین وطن کو ایران اور پاکستان سے زبردستی واپس بھیج دیا گیا، اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کا ۸۰ ہزار افغانوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کرکے ان کو وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ افغانستان پر دباؤ میں مزید اضافہ کرے گا، کابل اور انسانی خدمت کرنے والی برادری جن میں اقوام متحدہ کے ادارے بھی شامل ہیں کا اندازہ ہے کہ اس سال۳ء۹ ملین افراد (یہ تعداد افغانستان کی آبادی کا ایک تہائی ہے) کو امداد کی ضرورت ہوگی، کیونکہ سیکورٹی صورتحال مسلسل خراب ہورہی ہے جبکہ پاکستان اور ایران کی جانب سے مہاجرین کو وطن واپسی پر مجبور کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی بحران مزید سنگین ہوجائے گا، انسانی بحران مجموعی طور پر افغانستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے، جہاں حکومتی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی صورتحال پہلے ہی سنگین ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں، اندرون ملک بے گھر ہونے والے ۷۰ سے ۸۰ فیصد افراد اور باہر سے واپس آنے والے پناہ گزینوں کی دیکھ بھال شہری علاقوں میں ہی کی جاتی ہے، ان میں سے زیادہ تر بے روزگار یا جز وقتی ملازم ہیں، ان کو صحت اور تعلیم تک رسائی ہی نہیں یا بہت محدود پیمانے پر یہ سہولتیں دستیاب ہیں۔ ملک بھر میں ۵۷ء۱ ملین افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے، افغانستان کا قدامت پسند معاشرہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں اور عورتوں کو اکثر بدترین حالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری اور یورپی یونین کی جانب سے مضبوط اور طویل مدتی مالی امداد جاری رکھنے کی ضرورت ہوگی، جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پاکستان اور ایران کو افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری روکنے پر قائل کرنا چاہیے ، یورپی یونین اور رکن ممالک کو بھی افغانستان میں خراب ہوتی سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر افغانوں کی ملکی بدری کا عمل سست کر دینا چاہیے۔

(ترجمہ: سید طالوت اختر)

“Afghanistan: Growing Challenges”. (“crisisgroup.org”. April 30, 2017)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*