افغانستان ایک’ غارت گر ‘ریاست

سابق افغان وزیر خزانہ اشرف غنی کا شمار حامد کرزئی کے بہت ہی صاف گو اور بلند صوت ناقدین میں ہوتا ہے۔ وہ اگست میں ہونے والے انتخابات میں حامد کرزئی کے سب بڑے حریف ہیں۔ امریکی تعلیم یافتہ اور ورلڈ بینک کے سابق اہلکار اشرف غنی نے ۲۰۰۴ء میں حامد کرزئی کی حکومت کو بدعنوان قرار دے کر اس کی کابینہ سے استعفیٰ دیا۔ وہ اس کے بعد سے کرزئی کی ٹیم میں دوبارہ شامل ہونے کی سو کے قریب ’’پیشکشیں‘‘ ٹھکرا چکے ہیں۔ نیوز ویک کے ران موریو اور سمیع یوسف زئی کی ۶۰ سالہ اشرف غنی سے کابل کے مضافات میں واقع ان کے پُرآسائش گھر میں گفتگو ہوئی جس کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔


نیوز ویک: (آپ کے حریف) کرزئی حکومت میں ہیں ‘ اس کے علاوہ سیکورٹی کی صورتحال ابتر ہے‘کیا ایسے میں آپ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں گے؟

اشرف غنی: بالکل! کرزئی کا سیاسی اتحاد، طالبان سے پہلے کے دنوں کا نمائندہ ہے۔ وہ ان مسترد عناصر کو واپس لے آیا ہے جنہوں نے ملک کی کوئی اچھی خدمت نہیں کی تھی۔ان میں کسی نے بھی ملکی سا لمیت کا ادراک کیا ہے اور نہ ہی حکومت چلانے کی قابلیت کا مظاہرہ۔ روزانہ ہزاروں لوگ میرے پاس آتے ہیں کیوں کہ کرزئی نے (اپنی کارکردگی کے ذریعے) ان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ میرے پاس آئیں۔

نیوز ویک: کیا آپ کا اشارہ شمالی اتحاد کے سابق ملیشیا کمانڈر محمد قاسم فہیم کی طرف ہے‘ جن کو کرزئی نے اپنے نائب امیدوار کے طور پر چُنا ہے؟

اشرف غنی: کرزئی نے اِن افراد کو اس لیے چنا ہے کیوں کہ اس کے پاس وژن‘ قیادت اور انتظامی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ ان کا اقدام وقتی کمپرومائز کا نتیجہ ہوتا ہے۔کابل میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نے ۲۳۲ لوگوں سے وزارتوں‘ ۹۴۹ سے گورنری اور ایک ہزار لوگوں کو ڈپٹی وزیر بنانے کے وعدے کیے ہیں۔صد ر کے الفاظ میں کوئی وزن نہیں رہا۔ وہ انتخابات جیتنے کی غرض سے حکومت کو نیلام کررہا ہے۔ان کا شکریہ کہ ہم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل انڈکس میں ۱۷۶ ویں نمبر پر ہیں۔

نیوز ویک: کیا کرزئی کے آنے والے پانچ سال مختلف نہیں ہوسکتے؟

اشرف غنی: نہیں !اُن لوگوں کے ساتھ نہیں جن کو اس نے اتحادی بنایا ہے۔ ۲۰۰۴ء میں اس کو بھاری مینڈیٹ دے کر منتخب کیا گیا لیکن اس نے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

نیوز ویک: کیا کرزئی کے اگلے پانچ سال افغانستان کو ناکام ریاست بنادیں گے؟

اشرف غنی: جی۔کرزئی کے اگلے پانچ برس ہم سے امن‘ ترقی اور استحکام چھین لیں گے۔

نیوز ویک: کیا اس سے طالبان کی مدد نہیں ہورہی ہے؟

اشرف غنی: یہ ان کو اخلاقی جواز فراہم کررہا ہے۔اب طالبان کہیں گے کہ جن افراد کو حکومت کے لیے نااہل ہونے کے سبب ہم نے ۹۰ کی دہائی کے وسط میں بے دخل کیا تھا ‘اب ان کو تھوک کے حساب سے بحال کیا جارہا ہے۔ کیا کسی وزارت کا کام سیاست دانوں کو کھلانا ہوتا ہے یا عوام کو سہولیات فراہم کرنا؟

نیوز ویک: طالبان کا خطرہ کتنا بڑاہے؟

اشرف غنی: اس ملک کو سب سے بڑا خطرہ اس غارت گر حکومت سے ہے۔ طالبان دوبارہ کیوں نمودار ہو رہے ہیں؟ لوگوں کو انصاف اور ترقی کی امید تھی‘ اب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔

نیوز ویک: جس کو آپ خراب نظام قرار دے رہے ہیں‘ اس کو آپ کس طرح تبدیل کریں گے؟

اشرف غنی: پہلا کام جو میں کروں گا وہ’ سٹیزن رپورٹ کارڈ‘ کا قیام ہے۔ ہر تین مہینے بعد کسی صوبہ کے نمائندہ شہریوں کو جمع کیا جائے گا۔ وہ میرے ساتھ ایک ’اسکور کارڈ‘ بنائیں گے جس میں مقامی حکومت کی کارکردگی کی درجہ بندی کی جائے گی۔ اگر فیصلہ یہ آتا ہے کہ حکمران ناکام ہو رہے ہیں تو پھر گورنر اور دیگر حکام کو برطرف کیا جائے گا۔

نیوز ویک: آپ معاشی ترقی کے بارے میں کیا کریں گے؟

اشرف غنی: میں ایسے ۱۰ قومی منصوبے شروع کرنا چاہتا ہوں جن کو دیکھ کر لوگ حیران ہو جائیں گے۔ ان میں ایک ملین رہائشی یونٹس کا قیام ‘ ایک ملین نوکریاں ( جو صرف مردوں کے لیے نہیں ہوں گی) کا بندوبست کرنا شامل ہیں۔ ہمیں ۲ہزار افراد کو کروڑ پتی بنانا ہے تاکہ ہر چیز پر صرف ۲۵ خاندانوں کا قبضہ ختم ہو۔ اس کے علاوہ جنگ کے سبب معذور ہونے والے ۷ لاکھ افغانوں کی مدد بھی کی جائے گی۔ وزرات خارجہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ۷۰ فی صد ملکی ریونیو جو ۸ سو ملین ڈالر بنتا ہے کو کرپشن اور بد انتظامی کی وجہ سے ضائع کیا گیا ہے۔

نیوز ویک: ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صدر حامد کرزئی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس کوئی’ امن پروگرم‘ ہے؟

اشرف غنی: موجودہ حالات میں یہ ایک بے ثمر رقص ہے۔ صدر کو مغرب کے لیے ایک تھیٹر بنانے کی ضرورت ہے۔ افغان عوام اس بات پر یقین کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں کہ وہ سنجیدہ ہیں۔

نیوز ویک: کیا طالبان امن کے عمل میں ایک ممکنہ شراکت دار ہو سکتے ہیں؟

اشرف غنی: اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ طالبان سے مراد کیا لے رہے ہیں؟ ہمیں کرزئی کی طرح انفرادی اپروچ نہیں بلکہ ایک متفقہ قومی نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔ وہ ایک دن کہتے ہیں ’’مجھے بات چیت ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘‘ اور مُلّا عمر کو تحفظ کی پیشکش کرتے ہیں۔ اگلے دن وہ طالبان کو دہشت گرد اور قاتل پکارتے ہیں۔میری عادت ہے کہ لوگوں کو پہلے بات چیت کا کہوں ۔۔۔

انٹرویو کار: ران موریو/سمیع یوسف زئی۔۔۔ ترجمہ: ابو سعد
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۹ جون ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*