
بھارت کے عام انتخابات کو مغربی میڈیا کی بھی بھرپور توجہ حاصل ہوئی ہے۔ نو مراحل میں ہونے والے ان انتخابات میں ریکارڈ ۸۱۴ ملین ووٹروں کو رائے سازی کا موقع ملا ہے۔ کانگریس اور اس کی ہم خیال جماعتیں اقتدار کے ایوان سے رخصت ہوچکی ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو اقتدار مل چکا ہے۔
نریندر مودی کا وزیراعظم بننا بہت سوں کے لیے انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ انہوں نے کبھی پارلیمان کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں خدمات انجام نہیں دیں اور قومی سطح کی سیاست میں ان کا تجربہ برائے نام بھی نہیں رہا۔ نریندر مودی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رکن رہے ہیں۔ ان کا اقتدار میں آنا پالیسی کے حوالے سے تجزیہ کاروں اور مبصرین کے لیے سوچنے کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ یہ سوال ایک ماہ سے تجزیوں میں پوچھا جارہا ہے کہ اگر نریندر مودی بھارت کے چودہویں وزیراعظم منتخب ہوگئے تو پاکستان کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہوگی۔
نریندر مودی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور دیگر ہمسایوں کے معاملے میں نریندر مودی کی پالیسی خاصی جارحانہ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتیں پڑوسیوں اور بالخصوص پاکستان کے معاملے میں کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریزاں رہی ہیں، جس کے نتیجے میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ اور پہل کرنے سے اجتناب برتنے کی پالیسی ہی نے ایسے حالات پیدا کیے جن کے نتیجے میں ووٹر اِن سیکولر جماعتوں سے بدظن ہوئے اور پولنگ کے دن اُنہوں نے اپنی رائے کھل کر پیش کردی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے رفقائے کار پاکستان کے معاملے میں اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کریں گے تاکہ قومی سیاست کے ان کے تمام اہداف حاصل ہوں اور ہندو انتہا پسندوں کی اُمنگوں کی بھی آبیاری ہو۔ فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات کو انتہائی شرمناک مسلم کش فسادات نے اپنے حصار میں لیا تھا۔ ایک ہزار سے زائد مسلمان شہید کردیے گئے تھے مگر اِس حوالے سے نریندر مودی نے کبھی شدید دکھ کا اظہار نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے قتلِ عام پر برائے نام افسوس کا اظہار کرنے میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ یہی سوچ پاکستان سے متعلق اُن کی پالیسی میں بھی جھلکے گی۔
گزشتہ برس اُتر پردیش میں بھی مسلم کش فسادات ہوئے۔ نریندر مودی نے اِن فسادات میں مسلمانوں کی شہادتوں پر بھی افسوس کا اظہار کرنے سے یکسر گریز کیا۔ اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے اُن کی پالیسیاں کیا ہوں گی اور قومی سیاست میں وہ مسلمانوں کو بہتر مقام دلانے کے معاملے میں کس حد تک جائیں گے۔
دوسری طرف بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم کی کرسی پر خواہ کوئی بیٹھے، خارجہ پالیسی تسلسل سے ہمکنار رہے گی۔ ان کا استدلال ہے کہ خارجہ پالیسی راتوں رات تبدیل نہیں ہوا کرتی کیونکہ اُسے بیورو کریٹک اسٹیبلشمنٹ تیار کرتی ہے۔ نریندر مودی کو قومی سطح کی سیاست کا ذرا سا بھی تجربہ نہیں، اِس لیے بہت سے مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ سفارت کاری جیسے اہم معاملے میں نریندر مودی اپنی مرضی چلانے سے زیادہ اعلیٰ بیورو کریٹک اسٹیبلشمنٹ کے دیے ہوئے مشوروں پر زیادہ عمل کریں گے۔
بھارت کی سفارت کاری کون سا رخ اختیار کرتی ہے، اِس کا مدار بھارت کے اندرونی معاملات اور پالیسیوں سے زیادہ اِس بات پر ہوگا کہ ۲۰۱۵ء میں جنوبی ایشیا کی مجموعی صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔ امریکا اور اس کے ہم خیال ممالک کی افواج دسمبر ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے نکل جائیں گی۔ مغربی افواج کے نکل جانے کے بعد افغانستان کی صورت حال جو بھی ہوگی، خطے کی صورت حال بھی ویسی ہی ہوگی۔ ایسے میں بھارت کے لیے بھی اپنی مرضی کی سفارت کاری کی راہ پر گامزن رہنا ممکن نہ ہوگا بلکہ اسے پورے خطے کے حالات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا۔
امریکا نے پاکستان اور بھارت کو قریب لانے اور پاکستان کے لیے بھارت کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر لشکر کشی کے بعد سے امریکا نے پاکستانی قیادت اور بالخصوص فوج کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کو حقیقی خطرہ شمال مشرقی سرحدوں (اسلامی عسکریت پسندی) سے ہے نہ کہ مشرق میں بھارت کی طرف سے۔ امریکا اور یورپ کی کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایسے ضرور رہیں کہ چند عناصر اپنی سرگرمیوں سے دونوں ممالک کو جنگ کی بھٹی میں نہ جھونک دیں۔ ممبئی حملوں کا معاملہ انتہائی حَسّاس تھا مگر اس کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چِھڑنے جیسے حالات پیدا نہ ہوئے۔ امریکا نے اس امر کو بھی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت میں دراندازی کم سے کم سطح پر رہے۔
افغانستان سے امریکا اور یورپ کے انخلا کے بعد صورت حال البتہ تھوڑی بہت ضرور تبدیل ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی فوج افغانستان میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے بھارت میں در اندازی پر زور دے۔ اس وقت پاکستانی فوج پر ن لیگ کی حکومت کا بھی شدید دباؤ ہے، جو ملک کے مضبوط ترین ادارے کے پَر کترنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا نے بھی فوج پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ماضی میں پاکستانی فوج کو جب بھی حکومت اور میڈیا کے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، اُس نے اہل وطن میں اپنی مقبولیت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لیے بھارت سے جنگ چھیڑنے کا آپشن استعمال کیا ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ اور ۱۹۹۹ء میں کارگل کی ڈھکی چھپی جنگ اِس کی واضح ترین مثالیں ہیں۔
بھارت کے لیے اب افغانستان بہت اہم ہے۔ حامد کرزئی کے دور میں بھارت اور افغانستان کے تعلقات بہت اہم رہے ہیں۔ دونوں نے مضبوط دوستی کا آپشن اختیار کیا۔ اب اگر عبداللہ عبداللہ افغانستان کے صدر منتخب ہوتے ہیں تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھارت سے دوستی کو ترجیح دیں گے اور بیشتر معاملات میں بھارت سے ہم آہنگی اُن کے بہترین آپشنز میں شامل ہوگی۔
عبداللہ عبداللہ کا تعلق شمالی اتحاد سے ہے، جس نے ۲۰۰۱ء میں امریکا، بھارت اور دیگر بیرونی قوتوں کی مدد سے طالبان کو اقتدار سے محروم کیا تھا۔ عبداللہ عبداللہ کو صدر کی حیثیت سے ملک کی پشتون آبادی کی زیادہ حمایت شاید نہ مل سکے اور دوسری طرف پاکستان بھی چاہے گا کہ شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے صدر کے مقابلے میں طالبان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرے تاکہ ملک کے بیشتر معاملات پر اُس کی گرفت مضبوط رہے۔
افغانستان سے مغربی افواج کا انخلا اور عبداللہ عبداللہ کا صدر کے منصب پر فائز ہونا، دو ایسے عوامل ہیں جو پاک بھارت تعلقات کی سمت کا تعین کریں گے۔ نریندر مودی کی انتہا پسند سوچ بھی بہت اہم ہے مگر اِس سے زیادہ اہمیت افغانستان کے حالات اور مغربی افواج کے انخلا کے بعد خطے کی صورت حال ہوگی۔ نریندر مودی اِس تبدیلی کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔
مضمون نگار ’’یونیورسٹی آف باتھ‘‘ برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرر ہیں۔
“Afghanistan – not Modi – is key to future relations between India and Pakistan”. (“theconversation.com”. May 1, 2014)
Leave a Reply