اگر کہیں اور ایسا ہوا ہوتا کہ برفانی تودے گرنے سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے کسی پڑوسی ملک نے امداد بھیجی ہوتی تو اِس عمل کو شکریے کے ساتھ قبول کیا جاتا تاہم زیادہ حیرت کا اظہار نہ کیا گیا ہوتا۔ مگر جب حال ہی میں پاکستان نے افغانستان کی وادیٔ پنجشیر میں برفانی تودے گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کے لیے امدادی سامان سے لدے ہوئے طیارے بھیجے تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کس حد تک بہتر ہوئے ہیں۔ اب یہ امکان بھی موجود ہے کہ پاکستان کی حکومت طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرے۔ یہ امکان اگرچہ اب تک محض ایک گمان ہے مگر یہ بھی بڑی بات ہے۔ افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان کم و بیش ایک عشرے سے خونیں خانہ جنگی جاری ہے۔ افغانستان کے تمام ہی حلقے چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ رُکے اور ملک ترقی و استحکام کی طرف گامزن ہو۔
پاک افغان تعلقات میں جو بہتری آئی ہے اور یہ جو برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے، اِس کا سہرا مجموعی طور پر افغانستان کے صدر اشرف غنی کے سَر ہے، جنہوں نے ستمبر ۲۰۱۴ء میں اس منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ اعلان کیا کہ پاکستان سے بہتر تعلقات اُن کی ترجیح ہیں اور ساتھ ہی اُنہوں نے خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے حوالے سے بھارت کو خارجہ پالیسی کے پانچ حلقوں سے باہر رکھا ہے۔ ایک زمانے سے بھارت نے افغانستان کے لیے نمایاں ترین حلیف کا کردار ادا کیا ہے۔ مگر یہی بات پاک افغان تعلقات میں خرابی کا باعث بھی بنتی رہی ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے عہدِ صدارت میں کئی بار بھارت کا دورہ کیا مگر موجودہ افغان صدر نے اب تک بھارت کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا۔ اشرف غنی جب نومبر میں پاکستان گئے تو اُنہوں نے پروٹوکول کے خلاف جاتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور یہ ملاقات اِس امر کا مظہر تھی کہ پاکستان میں حقیقی طاقت فوج کے پاس ہے۔ اشرف غنی کے اس عمل نے افغانستان میں چند حلقوں کو ناراض بھی کیا، جو اپنے ملک میں تمام خرابیوں کے لیے پاکستانی فوج کو ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں اور پاکستانی فوج ہی کو افغان طالبان کی سب سے بڑی مددگار تصور کرتے ہیں۔ افغانستان کے سابق وزیر خارجہ رنگین دادفر اسپتانتا کا کہنا ہے کہ افغانستان کو پاکستانی فوج کی مداخلت سے زیادہ نقصان کسی نے نہیں پہنچایا۔
چند ماہ کے دوران پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا کئی بار دورہ کیا ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے فوری بعد راحیل شریف بجلی کی سی تیزی سے کابل گئے اور واپس آئے تھے۔ اشرف غنی نے افغان افواج کو حکم دیا ہے کہ سرحد پر خرابیاں روکنے کے حوالے سے پاکستانی فوج سے مل کر کام کریں۔ حامد کرزئی نے افغان نوجوانوں کو بنیادی عسکری تربیت کے لیے بھارت بھیجنے کو ترجیح دی تھی۔ اشرف غنی نے افغان کیڈٹس کو ایبٹ آباد کے نزدیک پاکستان کی سب سے بڑی ملٹری اکیڈمی میں اندراج کرانے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی فوج یہ خدشہ ظاہر کرتی رہی ہے کہ بھارت میں عسکری تربیت دلانے کی صورت میں افغان کے افسران کی پاکستان کے خلاف برین واشنگ بھی کی جاسکتی ہے۔ اشرف غنی کا افغان کیڈٹس کا پاکستان کی ملٹری اکیڈمی میں داخل کرانے کا فیصلہ پاکستانی فوج کے خدشات کو زائل کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
سب سے اہم تبدیلی یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے افغان فوجیوں کو طالبان سے لڑنے کے لیے بھیجنے کے بجائے اب ان سے مذاکرات کے لیے بھیجنا شروع کردیا ہے۔ پاکستانی طالبان نے کئی بڑی وارداتوں کے بعد افغانستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں پناہ لی ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد جب پاکستانی طالبان نے افغانستان کے سرحدی علاقے دنگم میں پناہ لی، تب اشرف غنی نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے فوج کو اُن سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ کارروائیاں کرتے رہنے سے محض خون خرابہ بڑھتا رہے گا۔
اشرف غنی نے اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ پاکستان کی طرف جھکنے کا معقول صِلہ نہ ملا تو اُن کی پوری ساکھ مٹ سکتی ہے۔ ویسے بھی افغانستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اشرف غنی پاکستان کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی جھکاؤ دِکھا رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کو چاہیے کہ طالبان کو اب افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرے۔ یہ ضروری ہے تاکہ افغانستان میں استحکام پیدا ہو۔ پاکستانی فوج میں درمیانے درجے کے افسران اور خفیہ اداروں نے اِس کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ وہ نجی طور پر یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ افغان طالبان سے پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں بلکہ وہ تو سرحد پار پاکستان کے اثرات بڑھانے اور اُنہیں مستحکم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
نیک شگون یہ ہے کہ پاکستانی آرمی چیف بھی چاہتے ہیں کہ افغان طالبان اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کریں تاکہ وہاں استحکام پیدا ہو۔ پاکستان اس وقت اپنے مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اندرون ملک جو کارروائیاں کی جارہی ہیں، اُن میں غیر معمولی تیزی آگئی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد پاکستان میں قومی ایکشن پلان پر عمل ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ اپنی سرحد سے باہر دیکھے۔ افغان طالبان کو اپنی حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دے کر جنرل راحیل شریف کم از کم افغانستان کی طرف سے مطمئن ہو جانا چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان پر پاکستانی فوج کا اثر و رسوخ ہے۔ افغان طالبان کے رہنماؤں کو پشاور، کوئٹہ، کراچی اور دیگر پاکستانی شہروں میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں۔ بہت سے طالبان نے پاکستان میں املاک بھی خرید رکھی ہیں اور ان کے بچے پاکستانی اسکولوں میں تعلیم پارہے ہیں۔ طالبان کی کوئٹہ شوریٰ اب تک برقرار ہے۔ اسلام آباد میں ایک مغربی سفارت کار نے بتایا کہ پاکستانی فوج اب افغان طالبان کو حکومت سے مذاکرات کی طرف لے جارہی ہے۔ افغان طالبان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اعتدال کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں اور اِس حوالے سے وہ اپنے قائد مُلّا عمر سے رابطے میں بھی ہیں۔ گرین سگنل ملتے ہی وہ اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے آپشن کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ حکومت اور طالبان کے درمیان بیک ڈور چینلز کام کرتے رہے ہیں۔ مذاکرات کی راہ پوری طرح ہموار نہ ہونے پر بھی مایوسی کی راہ پر چلنے سے گریز کیا گیا ہے۔ کوشش ہوتی رہی ہے کہ فریقین میں ہم آہنگی فروغ پائے اور ملک کو خرابیوں سے نجات ملے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال میں طالبان کے لیے لڑائی جاری رکھنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ اب تک وہ بیرونی افواج کے قبضے کے خلاف لڑتے آئے ہیں اور قوم نے بھی اُن کی لڑائی کو اِسی تناظر میں دیکھا ہے مگر امریکیوں کے انخلا کے بعد اُن کے لیے لڑائی کا جواز پیش کرنا بہت دشوار ہوجائے گا۔ عام افغان باشندے یہی تصور کریں گے کہ طالبان اپنی ہی فوج کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
امریکیوں کے انخلا کے بعد افغان آرمی کے لیے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ طالبان اور دیگر فورسز کے خلاف کس طور اپنا آپ منواتی ہیں۔ اگر افغان فوج نے طالبان کو ہلمند اور کُنڑ میں دوبارہ حکمرانی کی سی پوزیشن حاصل کرنے سے روک دیا تو اِسے بہت بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ افغان فوج کو ۲۰۱۳ء میں جو جانی نقصان اٹھانا پڑا، وہ بیرونی افواج کے ۱۴؍برس کے مجموعی جانی نقصان سے بھی زیادہ تھا۔ مگر اِس کے باوجود افغان فوج اور پولیس مل کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ اُن کے لیے حقیقی ٹیسٹ کیس ہے۔ ایک لاکھ ۶۹ ہزار نفوس پر مشتمل افغان آرمی پولیس کے ساتھ مل کر معاملات کو پوری طرح کنٹرول کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
افغانستان میں امن کے حوالے سے چین بھی پریشان ہے۔ اُس نے بیجنگ میں طالبان سے مذاکرات کا اہتمام کیا ہے۔ چین نے افغانستان میں معدنیات کے حوالے سے چند معاہدے کیے ہیں اور اب وہ اِن معاہدوں پر عمل کرتے ہوئے کھدائی شروع کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے لیے لازم ہے کہ ملک کے طول و عرض میں امن ہو۔ ساتھ ہی ساتھ چینی حکومت پاکستان سے متصل صوبے سنکیانگ میں اسلامی بنیادی پرستی سے نمٹنے کے لیے بھی پُرعزم ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسلامی شدت پسندی کا عنصر ختم ہوجائے تاکہ خطے میں حقیقی امن کی راہ ہموار ہو۔
سب سے حیرت انگیز اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ امریکا بھی چاہتا ہے کہ طالبان سے بات چیت کی جائے۔ امریکا نے طالبان سے بات چیت کی مختلف مراحل میں شدید مخالفت کی ہے مگر اب وہ محسوس کرتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے افغانستان کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھا جائے۔
افغانستان میں بہت سے سینئر سیاست دان اور قبائلی عمائدین بھی چاہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے اور پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ اس کے لیے وہ دو سال کا وقت لینا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد طالبان کے مرکزی رہنما پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ مگر ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ صدر اشرف غنی کے پاس دو سال کا وقت شاید نہیں ہے۔ وہ جس طور صدر بنے یا بنائے گئے ہیں، اُس پر بہت سے سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے انتخابی دھاندلی کے ذریعے صدر کا منصب ہتھیا لیا ہے۔ ان کے شدید ترین مخالف سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اب چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اشرف غنی نے صدر کا منصب دھاندلی سے چھینا ہے۔
انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد نتائج قبول کرنے کے حوالے سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان خاصی رسا کشی ہوئی اور دونوں کو ایک باضابطہ معاہدے کے تحت یہ سب کچھ قبول کرنا پڑا مگر اب بھی اختلافات برقرار ہیں۔ حکومت کی تشکیل کی راہ میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ اشرف غنی کے لیے مشکلات کم نہ تھیں۔ پاکستان کے حوالے سے نرمی اور جھکاؤ دکھا کر اُنہوں نے اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اب اُن کی پوزیشن بہتر بنانے کا ایک اہم راستہ یہ رہ گیا ہے کہ طالبان مذاکرات کے لیے آمادہ ہوں اور مرکزی دھارے میں شامل ہو کر اُن کی پوزیشن مستحکم کریں۔ اشرف غنی نے پاکستان کے لیے جو لچک دکھائی ہے، اُس سے دستبردار ہونا اُن کے لیے مزید خرابیاں پیدا کرے گا۔ ایسے میں اُن کے لیے کامیابی کی یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز تک لاکر سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کریں۔
“Afghanistan, Pakistan and the Taliban”.
(“The Economist”. March 7, 2015)
Leave a Reply