
گذشتہ برس کے دوران جنوبی عراق غیر معمولی بحران اور خلفشار کا شکار رہا۔ واشنگٹن کے پالیسی ساز بسااوقات دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے سلسلے میں افغانستان کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہ افراد بھی جو زمینی حقائق کے حوالے سے گہری تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہیں‘ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی فی الوقت ایک درست اسٹرٹیجی پر عمل پیر ہیں تاہم ان کا خیال یہی ہے کہ اس اسٹرٹیجی کو مکمل کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے وسائل نہایت محدود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان دوسرا عراق بننے کے سنگین خطرے سے دوچار ہوچکا ہے‘ جہاں مرکزی حکومت کا کلی طور پر خاتمہ ہوچکا ہے۔ بدنظمی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور القاعدہ کی پشت پناہی میں ملک کا بڑا حصہ شورش‘ بغاوت اور سرکشی کی زد پر ہے۔ اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ کی موجودہ پالیسیاں بھی غیر موزوں اور ناکامی کا شکار ہیں۔ دراصل ہم نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ افغانستان کے مسائل اور معاملات کو افغان طریقوں اور افغان اسٹرٹیجی کی مدد سے ہی حل کیا جائے لیکن اب یہ بات صاف اور واضح ہوچکی ہے کہ اگر افغانستان کا امن اور استحکام بحال کرنا مقصود ہے تو اس غرض کے لیے ہمیں پاکستان اسٹرٹیجی کا استعمال کرنا ہوگا۔
’’فارن افیئرز‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بارنیٹ ریوبن نے (جو افغانستان کے معاملات کے ماہر کہے جاتے ہیں)اور اس سال چار مرتبہ افغانستان کا دورہ کرچکے ہیں یہ اطلاع دی ہے کہ ’’افغانستان کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ خطرے کے نشان تک پہنچ رہی ہے۔ طالبان کی قیادت میں جاری شورش اور بغاوت رفتہ رفتہ جڑ پکڑتی جارہی ہے۔ افغانستان کے بعض علاقوں میں تو طالبان کی متوازی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں اور ان کی اپنی انتظامیہ اور عدالتیں یہ حکومت چلارہی ہیں۔ باغی طالبان خودکش دھماکے کررہے ہیں۔ جنوبی افغانستان کا علاقہ طالبان کا ایک مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے‘ جہاں ۳۵ فیصد تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ چونکہ موجودہ افغان حکومت قانونی اور آئینی اعتبار سے کمزور اور غیر مستحکم ہے اور اس کے اختیا ربھی محدود ہیں‘ لہٰذا نتیجے کے طور پر بین الاقوامی فوجیوں کی موجودگی کو غیر ملکی غاصبانہ قبضے کی علامت سمجھا جاتا ہے جسے افغان باشندے اپنی دیرینہ روایات کے مطابق کسی بھی صورت میں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ بارنیٹ ریوبن اپنی اس رپورٹ میں مزید انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور پاکستان میں ان کے ہم منصب جنرل پرویز مشرف طالبان کی بغاوت اور شورش کے اسباب اور وجوہ کے تعین کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ ناخوشگواری کے ساتھ کھلم کھلا جھگڑ چکے ہیں‘ جس کے دوران جنرل پرویز مشرف نے اس تمام صورتحال کا ذمے دار حامد کرزئی کی کمزور اور نااہل حکومت کو ٹھہرایا تھا۔ دوسری جانب حامد کرزئی کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان مختلف قسم کے خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے باقاعدہ اور مستقل طور پر طالبان کی مدد کررہا ہے جو پاکستان افغانستان سرحدی علاقوں خود پاکستان کے اندر بھی جاری و ساری ہے۔ سینئر مغربی افسران اور آزاد مبصروں سے بات کرنے کے بعد جن کا تعلق دونوں ممالک سے ہے‘ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ (امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کے بقول جو موضوع کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے)’’واقعات اور شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ افغان صدر حامد کرزئی کی بات میں خاصا وزن ہے اور وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔‘‘ درحقیقت امریکی انتظامیہ حکومت پر یقین کرلینا چاہتی ہے کہ تمام اچھی چیزیں ایک ساتھ ہی چل سکتی ہیں۔ لیکن افغانستان کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا ہمیشہ ہونا ناممکن نہیں ہے۔ پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف حقیقی اعتبار سے ایک جدید ذہن کے حامل لیڈر ہیں‘ جنہوں نے اپنے ملک کو ایک ’’ناکام ریاست‘‘ بننے سے بہرطور بچالیا ہے۔ ان تمام سمجھوتوں اور سودے بازیوں کے باوجود جو انہیں بحالت مجبوری کرنا پڑی ہیں‘ انہوں نے ملکی معیشت ‘ قانون سازی‘ مذہب اور حقوق نسواں کے مسائل کے حوالے سے کافی خوش آئند فیصلے کیے ہیں جو پاکستان کی کسی بھی حکومت نے ۱۹۷۰ء کی دہائی کے بعد سے نہیں کیے تھے۔ یہ فیصلے ان کی ترقی پسندانہ سوچ اور فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک اپنی ان پالیسیوں کے حوالے سے اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے شدید ردعمل ‘ مزاحمت اور محاذ آرائی کا تعلق ہے تو جنرل پرویز مشرف اس بات کے قائل ہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حوالے سے وہ اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے کے بجائے اس بات کو ترجیح دینا پسند کریں گے کہ یہ انتہا پسند عناصر افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف (اور ان کی پشت پناہی کرنے والے حمایتی ممالک کے خلاف) بھی اپنی ’’جہادی تحریک‘‘ کو بدستور جاری رکھیں۔ جنرل پرویز مشرف کا یہ رویہ درحقیقت پاکستان کے روایتی عالمی نقطہ نظر کا ایک حصہ ہے۔
اسلام آباد میں موجود مقتدر حلقے یعنی پاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی افسران اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’اسٹرٹیجک گہرائی‘‘ کا وجود پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے لہٰذا وہ افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ضروری اور لازمی سمجھتے ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ میکانکی رویہ دراصل اس سرد جنگ کا ایک ورثہ ہے‘ جس کے دوران بھارت اور افغانستان کاجھکائو واضح طور پر روس کی جانب تھا۔ اب چونکہ یہ دونوں ممالک یعنی بھارت اور افغانستان امریکا نواز کہلائے جاتے ہیں لہٰذا پاکستانی حکومت نے بھی اسی تناظر میں اپنی اسٹراٹیجک پالیسی کو افغانستان کے سلسلے میں تبدیل کردیا ہے اور اب یہی رویہ رفتہ رفتہ پاکستان میں جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں ایسے حلقے بھی موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان امریکا نواز رجحانات کا جوابی مقابلہ کرنے کی غرض سے یہ ضروری ہے کہ پاکستان مغربی قوتوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے میں افغان عوام کی بھرپور مدد کرے۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو کابل میں طالبان کی ’’پاکستان نواز حکومت‘‘ بھی قائم کردی جائے جس کے نتیجے میں پاکستان کے اس موقف کو بھی تقویت حاصل ہوجائے گی کہ طالبان کو افغانستان کے سیاسی نظام کے اندر ہی رہنا چاہیے۔
ستمبر ۲۰۰۶ء میں ان دونوں مالک کے صدور کے اعزاز میں امریکی صدر جارج بش نے ڈنر دیا تھا جس کے دوران افغان صدر کرزئی نے نہایت تلخ لہجے میں گفتگو کی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں کے بقول جو ان مذاکرات سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں لیکن ان کی نجی نوعیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔ افغان صدر کرزئی نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکا کو زبردستی افغانستان سے بے دخل کیا گیا تو ایسی صورت میں افغانستان‘ بھارت اور روس کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ قریبی تعلقات قائم کرلے گا جو یقیناً پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا! انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ طالبان کی تائید و حمایت اور نسلی پشتون قومیت کے نظریئے کی پشت پناہی کرکے وہ اپنی حکومت کے لیے بھی بے شمار مسائل پیدا کررہے ہیں کیونکہ پاکستان میں بھی لاکھوں پشتون باشندے آباد ہیں جو ایک غیرمطمئن زندگی بسر کررہے ہیں۔
چنانچہ امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو اس حقیقت کا احساس دلائیں کہ فی الوقت پاکستان کو ’’اسٹراٹیجک گہرائی‘‘ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی فوری ضرورت پاکستان میں استحکام کا قیام ہے۔ پاکستانی وزیراعظم شوکت عزیز کی کوششوں کے نتیجے میں مضبوط اقتصادی اصلاحات کے ذریعے پاکستانی معیشت ایک ڈھرے پر آچکی ہے اور اس نے سنبھالا لیا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں قومی پیداوار کی شرح آٹھ فیصد سالانہ تک پہنچ چکی ہے جس کے نتیجے میں برصغیر امن اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے اور دونوں ممالک کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکتے ہیں کیونکہ امن اور معاشی خوشحالی کے مابین چولی دامن کا تعلق ہوتا ہے۔ اس طرح جنوبی ایشیا کا یہ خطہ بھی بہت جلد جنوب مشرقی ایشیا جیسی مثال قائم کرسکتا ہے‘ جہاں اقتصادی شرح پیداوار اور معاشی خوشحالی نے صدیوں پرانے سرحدی تنازعات اور تاریخی کشیدگی کو دور کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ امریکی حکومت کے لیے بھی کامیابی کی جانب جانے والی شاہراہ کھل سکتی ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ راستہ ناکامی کی طرف بھی جاسکتا ہے۔
اگر امریکی حکومت جنرل پرویز مشرف کو یہ باور کرانے اور قائل کرنے میں ناکام رہتی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف انتہائی سخت اقدام کریں تو ایسی صورت میں لازمی طور پر القاعدہ کی تجدید ہوگی‘ جو واحد تنظیم ہے جس نے پوری دنیا میں امریکا اور امریکی باشندوں کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ بدستور جاری رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ یہ صرف اور محض امریکی ساکھ کا سوال نہیں ہے! بلکہ اس کا تعلق شہریوں کی حفاظت اور سلامتی سے بھی ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ: ۴ دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply