روس نے افغانستان میں پوست کی کاشت کے خلاف لڑائی میں تعاون شروع کردیا ہے۔ تاہم یہ تعاون کسی قیمت کے بغیر نہیں۔
امریکی جریدے نیوز ویک نے لکھا ہے کہ وکٹر ایوانوف کے لیے ۲۰ سال بعد پھر افغانستان واپسی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ وہ ۱۹۸۷ء میں پہلی بار افغانستان آیا تھا۔ تب وہ کے جی بی کا نوجوان افسر تھا اور یہ وہ دور تھا جب افغانستان کو سوویت سلطنت کی انتہائی جنوبی آئوٹ پوسٹ کا درجہ حاصل تھا۔ گزشتہ ماہ جب وہ افغانستان واپس آیا تب وہ ایک نئی سلطنت کی آئوٹ پوسٹ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اس بار اُسے واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے ایسے استعمار پسند عناصر چلا رہے ہیں جو وہاں سے جلد از جلد نکلنا بھی چاہتے ہیں۔ وکٹر ایوانوف بظاہر امریکی فوجیوں کو پوست کی کاشت اور منشیات کی تجارت کے خلاف لڑائی میں مدد دینے آیا ہے تاہم اس کا اصل مقصد افغانستان میں روس کے اثرات کی بحالی ہے۔ جب روسی ایئر فورس کا طیارہ کابل ایئر پورٹ پر اترا تو وکٹر ایوانوف نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیمپین کے جام بھرے اور کہا ’’روس واپس آرہا ہے۔‘‘
افغانستان میں اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے روس کی نئی مہم بلا جواز بھی نہیں اور وسیع پس منظر سے عاری بھی نہیں۔ افغانستان پر ایک عشرے تک سوویت افواج کے ہاتھوں جو مظالم ڈھائے گئے ان کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ مگر اب افغان اور امریکی دونوں روسیوں کا استقبال کر رہے ہیں اور ایسا بلا وجہ نہیں۔ وسط ایشیا میں روس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔ افغان تاجک سرحد پر روسی افواج کا ایک آپریشنل گروپ بھی تعینات ہے۔ ایسے میں افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ روکنے میں روس مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغان باشندوں کے دل جیتنے کے لیے روس نے افغانستان میں تعمیر نو، توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے اور مقامی افراد کو شریک کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ روسی ادارے افغانستان بھر میں پھیلی ہوئی سوویت دور کی ۱۴۲ تنصیبات کے احیا کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں ناگلو، سروبی اور مکھیپر میں ۵۰ کروڑ ڈالر کی لاگت سے ہائڈرو الیکٹرک پلانٹس کی تعمیر اور ملک بھر میں آبپاشی کے نظام اور کنویں کھودنے کے لیے ۵۰ کروڑ ڈالر کا پروگرام بھی شامل ہے۔ تیل اور گیس کی فیلڈ میں کام کرنے والے سرکاری روسی ادارے روزنیفٹ نے جارکک اور شبرغان کی گیس فیلڈ کے بارے میں ایک اسٹڈی رپورٹ تیار کی ہے جس کی بنیاد پر ۳۵کروڑ ڈالر کا معاہدہ ہوسکتا ہے۔ روسی ایئر ٹرانسپورٹ کنٹریکٹرز ناٹو اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک قیمت کے تحت آرہا ہے۔ قیمت یہ ہے کہ روس کو کابل میں اثر و نفوذ بڑھانے کا موقع دیا جائے۔ روس کے سفیر آندرے ایوتسیان کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ روس افغانستان میں اسٹریٹجک حوالے سے اپنے جائز حصے سے کم کچھ بھی لینے پر رضامند نہ ہوگا۔
افغانستان سرد جنگ میں امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان میدان جنگ بنا رہا۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ روس کو خود امریکا نے دعوت دی ہے۔ گزشتہ برس امریکی صدر بارک اوباما اور ان کے روسی ہم منصب دیمتری میدویدوف نے خطے میں باہمی سلامتی سے متعلق مفادات کے لیے متعدد رابطہ گروپ تشکیل دیے تھے۔ وکٹر ایوانوف اور ان کے امریکی ہم منصب گل کرلیکووسکی تب سے اب تک متعدد ملاقاتوں میں اس امر پر تبادلہ خیال کرچکے ہیں کہ طالبان کو منشیات کی تجارت سے کس طور باز رکھا جائے۔
افغانستان میں امریکیوں کی مدد کرنے کا روس کے پاس ٹھوس جواز موجود ہے۔ روس میں ہر سال ایک لاکھ ۳۰ ہزار سے زائد افراد ہیروئن کی لت کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ ایک لاکھ ۲۰ ہزار سے زائد افراد منشیات کے استعمال سے جرائم میں ملوث ہوکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے جاتے ہیں۔ روس میں ہیروئن کی سالانہ تجارت ۱۸ ارب ڈالر کی ہے۔ وہ ہیروئن کی تجارت اور ٹرانزٹ کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے۔ ایوانوف کا کہنا ہے کہ ہیروئن کی لعنت سے اپنے ملک کی حدود میں لڑنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ اس مسئلے کو اس جگہ جاکر لڑا جائے جہاں سے یہ پیدا ہوتا ہے۔
روس ۱۹۷۹ء کی طرح اس بار فوجی نہیں بھیجے گا۔ وسطِ ایشیا میں روس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک اب بھی برقرار ہے۔ روس کی فیڈرل سیکورٹی سروس حالات پر نظر رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ روس اب افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر بھی منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے حوالے سے اقدامات کے لیے دبائو بڑھا رہا ہے۔ چین کے ساتھ مل کر روس علاقائی تعاون اور سلامتی کی تنظیم شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کی قیادت کر رہا ہے۔ اس تنظیم میں وسط ایشیا کے تمام ممالک شامل ہیں۔ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں سرحدوں کو محفوظ تر بنانا بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے روس مالی وسائل کے علاوہ آلات اور تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ تنظیم ایران اور پاکستان کے راستے منشیات کی اسمگلنگ روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے گی۔ دوسری جانب افغان حکومت کو وزارتِ داخلہ اور پولیس کی کرپشن پر قابو پانا ہو گا۔ ان دو محکموں یا شعبوں کی کرپشن منشیات کی اسمگلنگ کے لیے طالبان سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ ناٹو کے ترجمان کرس چیمبر کہتے ہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ روکنے میں روس کا کردار مرکزی ہو گا۔
افغانستان میں روس کا نیا کردار منشیات کی اسمگلنگ روکنے سے بڑھ کر ہے۔ وہ افغان اشرافیہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ یہ اشرافیہ اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں پر متصرف ہے۔ اس کے ذریعے روس افغانستان میں بڑے ترقیاتی منصوبوں میں شراکت دار بن سکتا ہے۔ یہی حال اشرافیہ کی انڈر گرائونڈ دولت کا ہے۔ ایوتسیان کہتے ہیں ’’ہمیں دیر نہیں ہوئی۔ ہم روس سے کاروباری روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ افغانستان میں تیل اور گیس کی تلاش میں مرکزی کردار ادا کرے‘‘۔
افغانستان میں لابنگ کے لیے روس نے افغان نائب صدر کریم خلیلی سے روابط بڑھائے ہیں۔ روسی حکومت کا خیال ہے کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کریم خلیلی افغانستان میں اس کے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ماسکو میں کریم خلیلی سے مذاکرات کے دوران ایوانوف نے ان کے گڑھ بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسموں کی تعمیر نو میں جاپانی کوششوں کی معاونت، بجلی گھر کی تعمیر اور جنوبی و شمالی افغانستان کو ملانے والی سرنگ کی بحالی میں معاونت کی پیشکش کی۔
افغانستان کے سابق کمیونسٹوں میں روس سے ہمدردی رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ ان میں سے بہتوں نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں روس میں قیام کیا اور تعلیم حاصل کی۔ ان ایک لاکھ سے زائد کمیونسٹوں میں سے بیشتر نے ۱۹۹۲ء میں نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد طالبان سے ہاتھ ملایا اور اب وہ حامد کرزئی کی حکومت میں خاصے طاقتور مانے جاتے ہیں۔
نجیب اللہ کی فوج کے ایک اعلیٰ افسر جنرل عبدالرشید دوستم اب شمالی افغانستان میں ایک بڑی ملیشیا کے سربراہ اور افغان نیشنل آرمی کے چیف آف اسٹاف کے مشیر ہیں۔
نجیب اللہ کے زوال کے بعد جو کمیونسٹ ملک سے فرار ہو گئے تھے وہ طالبان کی حکومت ختم ہونے پر واپس آ گئے۔ یہ لوگ چونکہ مجاہدین کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور حکومتی امور کے ماہر تھے اس لیے انہیں حکومتی سیٹ اپ میں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ کابل میں ایک سینئر مغربی سفارتکار کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی کی حکومت نے کمیونسٹوں کو قبول کرنے میں ابتدا میں تذبذب دکھایا مگر پھر رفتہ رفتہ انہیں قبول کر لیا گیا۔ سفارتکار کے لیے یہ بات خاصی اطمینان بخش ہے کہ افغان حکومت میں کچھ تربیت یافتہ لوگ تو ہیں، خواہ انہیں ماسکو ہی میں تعلیم دی گئی ہو۔ درست اعداد و شمار تو میسر نہیں تاہم ایک اعلیٰ پولیس افسر اور سابق کمیونسٹ آرمی کے سربراہ کے مطابق اس وقت افغان وزارت دفاع اور وزارتِ داخلہ میں ۵۰ سے ۷۰ فیصد عہدوں پر سابق کمیونسٹ متمکن ہیں۔ روس کی حکومت کابل میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر ان سابق کمیونسٹوں تک رسائی چاہتی ہے اور ساتھ ہی وہ روس میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ایک لاکھ افغانوں کو ان کے وطن واپس بھیج کر لابنگ کرنے کی بھی خواہش مند ہے۔
کابل میں متعین روسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے اور روابط کو بروئے کار لانے کے لیے بے چین ہیں۔ روسی سفارت کاروں کے لیے یہ بات تکلیف دہ ہے کہ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے مواقع سے مغربی دنیا تو خوب مستفید ہو رہی ہے مگر انہیں موقع نہیں مل رہا۔ مئی کے اوائل میں ۱۹ سرکردہ روسی بزنس مین توانائی، تعمیر نو، ٹرانسپورٹیشن اور نقل و حمل سے متعلق منصوبوں میں سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کابل آئیں گے۔
روسیوں کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو خوشحالی کے حصول میں مدد دینا چاہتے ہیں۔ ایوتسیان کا کہنا ہے ’’سوویت یونین نے افغان قوم سے صرف جنگ نہیں لڑی بلکہ سوویت سائنس دانوں نے افغانستان کے قدرتی وسائل سے متعلق نقشے بھی تیار کیے‘‘۔ ایوانوف یہ نقشے لے کر کابل آئے اور حامد کرزئی سے گیس، تانبے اور المونیم کے ذخائر پر کام کرنے سے متعلق بات چیت کی۔ ایوانوف نے کریم خلیلی پر واضح کر دیا کہ روس خاصی موافق شرائط پر معاہدے کرنا چاہتا ہے۔ مگر روس کو چین سے سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دو سال قبل چائنا مٹیالہ جیکل گروپ نے افغان صوبے لوگر میں تانبے کی کان خریدی جو دنیا کی بڑی کانوں میں سے ہے۔ چین نے ۳ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا یقین دلایا ہے۔ روس کی نظر حاجی کک میں لوہے کی کان پر ہے جس کی قیمت ایک ارب ۸۰ کروڑ ڈالر لگائی جا رہی ہے۔ روسیوں کا کہنا ہے کہ جولائی میں رشین افغان فورم کے دوران کوئی اہم معاہدہ متوقع ہے۔
افغانستان میں روس کی جانب سے قدم جمانے کی کوششوں کو واشنگٹن نے تشویش کی نظر سے نہیں دیکھا ہے بلکہ سکون کا سانس لیا ہے۔ امریکا کی نظر جولائی ۲۰۱۱ء پر ہے جب افغانستان سے اس کی افواج کا انخلا شروع ہو گا۔ اگر امریکا واقعی نکلنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ افغانستان کے پڑوسی اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں تاکہ خلا پیدا نہ ہو۔ اگر روس قریب آ رہا ہے اور افغان امور میں اس کی بات زیادہ مانی جائے تو امریکا کے لیے زیادہ پریشانی کی بات نہیں۔ سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے تجزیہ کار انتھونی کورڈزمین کہتے ہیں ’’افغانستان میں روس کی پوزیشن کا مستحکم ہونا امریکا کے لیے کوئی پریشان کن بات نہیں‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کا روس کے زیر اثر آ جانا امریکا کے لیے کوئی آئیڈیل بات نہیں لیکن سب کچھ تنہا کرنے اور دنیا بھر میں تشدد کا باعث بننے سے تو کہیں بہتر ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں کابل سے ران مونرو اور سمیع یوسف زئی کی معاونت حاصل رہی)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۲ ؍اپریل ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply