یہ زبان کا مسئلہ بھی عجیب پیچیدہ مسئلہ ہے۔ فلسفہ لسانیات میں دیکھیے تو زبان کی ایجاد انسانی فکر کے زوال کی علامت ہے، باقی چھوڑیے خود حضرت جوش ملیح آبادی کا قول ہے کہ ’انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے نوے فیصد خیالات مناسب الفاظ کا قالب نہ ملنے کے سبب ذہن کے نہاں خانوں ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ اور یوں زبان کی ایجاد نے انسانی فکر کو زوال آمادہ کیا ہے۔خیر فلسفے کے ایوانوں میں خوب لسانیات کی بحثیں ہوا کریں ہمیں اس سے کیا مطلب؟ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ’’زبان‘‘ اور ’’لسانیات‘‘ نے یوں بھی انسانی سماج میں عجیب نفرتیں،تفرقے اور جھگڑے پیدا کیے ہیں اور بہت کچھ مسائل کو جنم دیا ہے جو مدت سے حل ہو کر ہی نہیں دے رہے۔۔۔
افغانستان میں لسانیت کا مسئلہ بھی وہاں کے جغرافیے کی طرح دلچسپ و عجیب،الجھا،سلجھا سنگلاخ اور پیچیدہ ہے۔اس پر مزید یہ کہ ماضی کی تلخ نوا سیاست کے جوار بھاٹے نے افغان معاشرے میں کچھ ایسا زہر گھول دیا ہے کہ افغانستان کی مختلف قوموں کے درمیان یہ نفرت کی خلیج وسیع تر ہوئی جاتی ہے۔یوں تو افغانستان ہمارے یہاں ہر دور ہی میں دلچسپیوں کا مرکز رہا ہے۔۔۔ خصوصیت کے ساتھ ہمارے ہر دو سبز و سرخ نظریاتی حلقوں کی دلچسپی تو باقیوں سے سوا رہی ہے،مگر ہمارے یہاں عموماً نظریاتی حلقوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لسانی اور قومی حقائق کو نظریات کی تند رو میں اکثر نظرانداز کردیتے ہیں۔۔۔ قومی تنوع اور لسانیاتی حقائق کو نظرانداز کرنے کی اسی روش کے تلخ اور سنگین نتائج ہم مشرقی پاکستان اور کراچی میں بھگت چکے ہیں۔ خیر ان باتوں سے قطع نظر افغانستان کو دیکھیے:
افغانستان ایک کثیر القومی اور کثیر اللسانی ملک ہے، مشرق میں پشتون، جنوب مشرق میں بلوچ، وسط میں ہزارہ، شمال اور مغرب میں تاجک اور پھر کئی علاقوں میں ازبک، ایمک، عرب، ترکمان اور دیگر اقوام کی معقول آبادیاں ہیں۔
٭ پشتون ۴۵ سے ۴۸ فیصد تناسب کے ساتھ افغانستان کی سب سے بڑی نسلی اکائی ہیں، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ لسانی،ثقافتی اور تہذیبی غلبہ بھی ان کو حاصل ہے۔یہ کیونکر؟ آئیے دیکھتے ہیں:
٭ ۳۰ سے ۳۵ فیصد آبادی تاجک ہے، جن کی زبان فارسی ہے۔تاجک شمالی افغانستان،کابل شہر اور مغرب میں ایران کی سرحد سے متصل ہرات میں آباد ہیں (ہرات کی اکثر آبادی ایرانی النسل فارسی بانوں کی ہے)۔
٭ آٹھ سے دس فیصد ہزارہ شیعہ قوم کی زبان بھی فارسی ہے۔جو وسط افغانستان کے صوبوں غور،غزنی اور بامیان کی اکثریتی قومیت ہیں اور صوبہ بلخ میں بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔
٭ شمال ہی میں ازبکستان اور ترکمانستان کی سرحد سے متصل صوبوں فاریاب،جوزجان،بادغیس اور سریپل میں ازبکوں اور ترکمانوں کی متعد بہ آبادی ہے۔ان علاقوں میں آباد ازبک مجموعی طور پر افغانستان کی کل آبادی کا لگ بھگ ۷ فیصد ہیں جبکہ ترکمانوں کا اوسط نکالیے تو قریب ۳ فیصد رہے گا۔
٭ بلوچ قبائل اور خانہ بدوش ایمک بالترتیب کل ملکی آبادی کا ۲ فیصد اور ۴ فیصد ہیں۔
٭ دیگر اقوام مجموعی طور پر قریب ۴ فیصد تو ضرور ہی ہوں گی، ان میں دشتِ عرب کو چھوڑ کر افغانستان کے پہاڑوں میں آباد ہونے والے عرب بھی ہیں، جو مدت ہوئی قبائے تازی اتار کر ردائے فارس اوڑھ چکے ہیں۔مزید یہ کہ ۴ فیصد کے اسی طبقے میں پشی، پامیری، نورستانی، اسماعیلی اور گوجر بھی شامل ہیں۔
٭ افغان معاشرے کا ایک دلچسپ طبقہ شہری پشتون (Urbanized Pashtun) ہیں۔جن کا اوسط افغانستان کی ۴۵ سے ۴۸ فیصد پشتون آبادی میں ۵ فیصد ہو گا۔ جو زیادہ تر کابل اور کچھ دیگر شہروں میں آباد ہیں۔یہ وہ خاندان ہیں جو برسوں پہلے تعلیم،روزگار یا بہتر معیار زندگی کی تلاش میں گاؤں، دیہات کو چھوڑ کر شہروں میں آ بسے تھے۔یہ لوگ نسلی طور پر ضرور پشتون قبائل ہی سے تعلق رکھتے ہیں مگر لسانی اور ثقافتی اعتبار سے قریب تین نسلوں سے فارسی زبان و ثقافت اختیار کر چکے ہیں اور اب اپنی اس نئی شناخت پر ہی فخر کرتے ہیں۔
یوں ’فارسی‘ قریب ۵۰ فیصد سے زائد آبادی کے اولین زبان (First Language) ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اسپن بولدک سے فاریاب اور طورخم سے ہرات تک پھیلے،مختلف زبانیں بولنے والے پشتون،ازبک،ایمک،ترکمان،پامیری وغیرہ بھی(علاوہ تاجکوں اور ہزارہ کے جن کی خود کی زبان فارسی ہی ہے) باہم دیگر رابطے کے لیے فارسی ہی بولتے ہیں اور یوں فارسی کو ایک وسیع تر پیمانے پر قومی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ نتیجتاً مجموعی طور پر افغانستان کا ثقافتی رنگ،فکری ڈھنگ اور تہذیبی آہنگ فارسی کی طرف مائل ہے۔ طرز فکر پر،زاویہ نظر پر مجموعی سماجی اور ثقافتی outlook پر فارسی اثرات بہت گہرے ہیں اور بہت دور تک ہیں اور کیوں نہ ہوں، خود ہمارے یہاں دیکھ لیجئے کہ ’’اردو‘‘ کے اثرات کس قدر وسیع اور ہمہ گیر ہیں جبکہ اردو حد سے حد ۷ فیصد آبادی کی First Language ہے جبکہ وہاں تو فارسی بولنے والے ۵۰ فیصد سے بڑھ کر ہیں،اور رابطے کی زبان کی حیثیت سے قریب تمام ہی آبادی فارسی ہی کو استعمال کرتی ہے۔ دراصل ہر بڑی لسانی روایت اور وسیع تر تہذیبی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والی زبان کے سامنے چھوٹی زبانیں کچھ دب سی جاتی ہیں،اس چکاچوند میں ان کا رنگ کچھ گہنا جاتا ہے، اب اگر یہاں اردو اس قدر اثرپزیر ہے تو فارسی کی لسانی روایت،لسانی ظرفیت اور اثرات آپ سمجھ لیجیے یعنی:
گرچہ ہندی در عضوبت شکر است
طرز گفتار دری شیرین تر است
یہ دری فارسی کا قصہ بھی خوب ہے؛ افغانستان کی اکثریتی پشتون آبادی فارسی کو دری کہتی ہیں جبکہ اس کے اصل بولنے والوں کا اصرار ہے کہ ہماری زبان کو ’’فارسی‘‘ ہی کہا،سنا،لکھا اور پڑھا جائے۔
لفظ ’’دری‘‘ کے تعلق سے دو روایتیں معروف ہیں:
پہلی؛ چونکہ یہ زبان افغانستان کے پہاڑوں اور ’’دروں‘‘ میں بولی جاتی ہے لہٰذا دروں میں بولی جانے والی زبان ’’دری‘‘ کہلائی۔
دوسری رائے زیادہ قرین قیاس ہے؛ چونکہ درباروں کی زبان ہمیشہ ہی فارسی رہی ہے اس لیے شوریدہ مزاج پشتون اسے طنز اور حقارت سے ’’درباری‘‘ کہا کرتے تھے، درباری ہوتے ہوتے ’’دری‘‘ ہوگئی۔۔۔۔۔ خیر کہنے کو آپ کچھ بھی کہہ لیجیے ’فارسی‘ کہیے، ’دری‘ کہیے، یا ’تاجکی‘ کہیے۔۔۔ زبان وہی ایک ہے جس میں فردوسی نے ’’شاہنامہ‘‘ کہا تھا، جس میں سعدی نے ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ مہکائے تھے اور جس میں ’شیراز کا رند خرابات‘ غزل سرا ہوا تھا۔
افغانستان کا لسانی تنوع بعض اوقات وہاں کی سیاست میں تنازع بن کر جھلک جاتا ہے۔قدیم زمانے میں فارسی اور ترکی النسل خانوادے اس خطے پر حکومت کرتے رہے ہیں مگر احمد شاہ ابدالی کے بعد بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ زمام اقتدار کسی غیر پشتون کی گرفت میں رہی ہو۔ حبیب اللہ کلکانی اور ببرک کارمل کے مختصر ادوار سے قطع نظر سوویت افواج کے انخلا کے بعد استاد برہان الدین ربانی کی صدارت کا ہنگامہ خیز دور ایک استثناء تھا، لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’حزب و جمعیت‘‘ کی باہمی آویزش، احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمتیار کا شخصی تناؤ اور نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود استاد ربانی اور حکمتیار کی مخاصمت کے پیچھے بھی اصل عوامل لسانی ہی تھے۔
شمال کے مجاہدین نے کابل کے مضافات میں آباد پشتون آبادی کا بے دریغ قتل عام کیا تھا یہاں تک کہ ایک دور میں کابل کی پشتون آبادی سے شہر خالی بھی کرا لیا گیا تھا، اس پر حزب اسلامی کی جارحانہ مدافعت نے مسئلے کی گمبھیرتا کو اور بڑھا دیا۔ یہ لسانی تنازع اور قومی چپقلش اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی کہ جب طالبان نے اپنے دور اقتدار میں ہرات، بلخ (مزار شریف)، بامیان، کابل اور دیگر علاقوں میں فارسی آبادی پر ظلم و جبر اور جور و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ آج بھی ان وحشیانہ مظالم کے تصور سے ایک متمدن انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
خیر ہماری تو بہت مدت سے یہی رائے ہے کہ طالبان کی تحریک درحقیقت پشتون قوم پرستی کی ایک تحریک ہے،آپ سہولت کے لیے اسے پشتون قوم پرستی کا افغان ورژن کہہ لیجیے۔ جن لوگوں کو افغانستان کے معروضی حالات سے کچھ واقفیت ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ افغانستان کے معاشرے میں مذہب کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ وہاں کی سیاسی منڈی میں ہر شے مذہبیت اور اسلام ہی کے لفافے میں فروخت ہو سکتی ہے ورنہ بکنے کی کوئی صورت نہیں، لہٰذا ہر کوئی خود کو مقبول عام بنانے کے لیے مذہب کا سوانگ رچانے پر مجبور ہے چاہے اندرون خانہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ قدیم زمانے ہی سے بالعموم اور اینگلو-افغان جنگوں کے بعد سے بالخصوص اسلام اور ’’جہاد‘‘ گویا افغانستان میں پاپولر کلچر (popular culture) ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے نے عملاً شرکت کی تھی اور جہاد کی قیادت بالعموم احیائی تحریکوں کے ہاتھ میں تھی اور یوں افغانستان کی ’’اسلامیت‘‘ اور جہادیت‘‘ کو ایک فکری اور نظریاتی جہت اور ٹھوس علمی اساس بھی میسر آگئی۔ بس اس کے بعد کیفیت یہ ہے کہ افغانستان میں سیکولرازم بھی ہو گا تو اسلام ہی کے لبادے میں آئے گا، کون نہیں جانتا کہ جنرل عبدالرشید دوستم سیاست میں لادینیت کے قائل ہیں ذاتی طور پر بھی مذہب سے کچھ خاص لگاؤ نہیں رکھتے مگر ان کی سیاسی جماعت کا نام ’’جنبش ملی اسلامی‘‘ ہے کیونکہ افغانستان میں اسی کی کھپت ہے، یہی چلتا اور یہی بکتا ہے۔بعینیہ یہی حال طالبان کا ہے۔ اگر ذرا دقت نظر سے طالبان کی تحریک کا مطالعہ کیا جائے،لمحے بھر کے لیے روایتی جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر کچھ تجزیے، تحلیل اور تحقیق کی زحمت گوارا کر لی جائے، کچھ ماضی کے واقعات، کچھ مستقبل کی تشکیلات پر نگاہ رکھی جائے تو یہ بات واضح، روشن، ہویدا اور عیاں ہے کہ طالبان کی تحریک درحقیقت پشتون قوم پرستی ہی کی ایک تحریک ہے، جو افغانستان کے معروضی حالات کے سبب اسلام کا سوانگ بھرنے اور ڈھونگ رچانے پر مجبور ہے۔ ہماری یہاں کے سرخ پوش پشتون قوم پرستوں اور سیاہ پوش طالبان میں فرق محض ٹوپی،پگڑی کی رنگت کا ہے۔یہ سرخ پوش ہیں اور وہ سیاہ پوش باقی ملاعمر،ملااختر منصور اور طالبان کو اسلام اور خلافت سے وہی نسبت اور اتنا ہی تعلق ہے جتنا تعلق ولی خان،اچکزئی اور دیگر پشتون قوم پرستوں کا ہے۔
مختصر یہ کہ افغانستان کے قضیے کو وہاں کے لسانی اور قومی حقائق اور بھی گمبھیر کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔پچھلے کچھ عرصے میں یہ پیچیدگی یوں بھی ایک دلچسپ انداز میں بڑھ گئی ہے کہ وسط ایشیا میں سوویت یونین کے مقبوضات تاجکستان اور ازبکستان سے بڑی تعداد میں لوگ مہاجر ہو کر افغانستان آئے تھے چونکہ ان لوگوں کی اکثریت فارسی بولنے والے تاجکوں پر مشتمل تھی اس لیے یہ لوگ افغان معاشرے ہی کا حصہ ہو گئے اور اب فرق ممکن نہیں(کچھ ایسا ہی ہمارے یہاں افغان مہاجرین کا قصہ ہے) اور یوں فارسی بولنے والوں کا تناسب یوں بھی بڑھ گیا جبکہ دوسری طرف خاصی معقول تعداد میں پشتونوں نے پاکستان اور دیگر ممالک میں ہجرت کی۔ افغانستان کے demographics یوں بھی نہایت دلچسپ انداز میں fluctuate کر رہے ہیں،پھر امریکی تسلط کے گزشتہ بیس برسوں میں فارسی بانوں کا اثر،رسوخ اور نفوذ فوج، میڈیا سمیت ہر شعبے ہی میں بہت کچھ بڑھ گیا ہے، لسانی اور قومی اختلافات،تلخیاں اور ناہمواریاں پہلے سے کئی زیادہ ہیں غیرپشتون ملک کے نام ’’افغانستان‘‘ ہی سے خاصے متنفر ہیں،اندر ہی اندر علیحدگی کی دبی،دبی صدا بھی کبھی کبھار سنائی دے جاتی ہے۔۔۔پس اگر ان امور کا موثر انداز میں تصفیہ نہ کیا گیا تو افغانستان کا ایک ملک کے طور پر باقی رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔۔۔حتمی طور پر ملک افغانستان لسانی بنیاد پر دو ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ایسے میں افغانستان کے داخلی کشت و خون اور قیامت خیز تباہی اور بربادی کے علاوہ اس کے سنگین تر نتائج پاکستان اور ازبکستان کو بھگتنا ہوں گے۔ہر دو ملکوں میں علیحدگی پسند قوم پرست تحریکیں پوری شدت سے پھنس پھیلائے پھنکارنے لگیں گی۔۔۔۔شدت پسندی ایک بار پھر عفریت بن کر شہروں اور بستیوں میں منڈلائے گی،تباہی اور بربادی کے تخمینے۔۔۔
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
مختصر یہ کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پشتون قوم پرستی اور ازبکستان کے شہروں سمرقند،بخارا اور ترمذ میں تاجک(فارسی) قوم پرستی کی تحریکیں پوری شدت سے اٹھ کھڑی ہوں گی اور اس تمام صورتحال میں عالمی طاقتوں کو کھل کھیلنے اور خطے میں اپنے مقاصد کی تکمیل کا پورا موقع میسر رہے گا رہا ’’خلیلی‘‘ کا یہ قطعہ کہ:
ما ملت واحد ایم با،باھم یکسان
انباز و رنج و درد در طول زمان
ھر کس کہ اشارہ کرد،انگشتش برد
این ازبک و آن ھزارہ،این است افغان
تو یہ موجودہ صورتحال میں محض ایک خوشنما شاعرانہ تخیل کے سوا کچھ نہیں مگر ایسا بہت ہوا ہے کہ شاعر کے تخیلات حقیقت ہو گئے
کاش۔۔۔۔۔!!!!!
بہت دلچسپ اور عالمانہ تحریر۔فکر انگیز۔👌
بہت عمدہ اور شاندار تجزیہ ایک نہایت ہی دلکش اور دلنشین انداز میں،ہمارے یہاں عموما” اس قسم کی تحریروں میں ادبی رنگ بلکل نہیں ہوتا،مگر مندرجہ بالا تحریر ایک خوبصورت نثر،جاندار تجزیے اور حقائق کا حسین مرقعہ ہے
حقیقت سے عاری اور خالصاً یکترفہ رائے ہے۔ مزے کی بات یہ کہ تحریر نسبتاً ضخیم ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کے مستند دلائل سے خالی ہے گویا صآحبِ تحریر رائے تھوپنا چاہتے ہیں۔