
غالباً ۲۰۰۴ء میں امریکی فوج کی ایک ٹکڑی کابل میں افغانستان جیولوجیکل سروے کے دفتر کی تلاشی لے رہی تھی، کہ بند الماریوں میں اس کو گرد و غبار سے اَٹے نقشے اور روسی زبان میں دستاویزات کے کئی پلندے ملے۔ جب یہ نقشے انہوں نے امریکی ماہرین کے سپرد کیے، تو معلوم ہوا کہ جنگ سے تباہ حال ملک، معدنیات خصوصاً ۲۱ویں صدی کے پیٹرولیم یعنی لیتھیم کے وسیع و عریض ذخیرے اپنی گود میں چھپائے بیٹھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۸۰ء میں سوویت یونین کے جیولیوجیکل ماہرین نے افغانستان میں لیتھیم کی موجودگی دریافت کی تھی، مگر انہوں نے اس کو انتہائی خفیہ رکھا تھا۔ خیر روسی نقشوں اور چارٹوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد امریکی جیولوجیکل سروے کے افسران نے نگرانی کرنے والے خصوصی جہاز پی۔سی ۳اورین کی مدد سے مزید معلومات اکٹھی کیں۔ یہ جہاز بحری افواج سمندر کی تہہ میں آبدوزوں کا پتا لگانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں اس ٹیم نے برطانوی بمبار طیارہ کرایہ پر لے کر اس میں جدید آلات فٹ کرکے اس پر مزید تحقیق کی۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک ٹیم جو عراق سے افغانستان منتقل ہو گئی تھی، نے گراؤنڈ پر جائزہ لے کر آخرکار لیتھیم کے ذخائر کی تصدیق کی اور اس کے اگلے سال انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو بریف کیا۔ ابھی حال ہی میں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے اطلاع دی کہ افغانستان کی وزارت خزانہ غیر ملکی امداد و قرضہ کے بغیر ملکی وسائل کے بَل بُوتے پر ہی اپنا سالانہ بجٹ ترتیب دے رہی ہے۔ افغانستان کی وزارتِ خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل کے مطابق تمام تر بجٹ ملکی وسائل پر مشتمل ہوگا۔ امریکی حکومت نے افغانستان کے نو بلین ڈالر منجمد کیے ہیں۔ پچھلے سال اشرف غنی کے دور میں عالمی مالیاتی اداروں کی زیر نگرانی جو بجٹ پاس ہوا تھا، اس میں ۷ء۲ بلین ڈالر کی غیر ملکی امداد کے باوجود خسارہ دکھایا گیا تھا اور ۲۱۷ بلین افغانی ملکی ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف طے پایا تھا۔
افغانستان کی اقتصادیات پچھلی کئی دہائیوں سے غیر ملکی امداد پر ہی منحصر ہے۔ معروف مصنف ولیم ڈارلمپل کے مطابق افغانستان پر قبضہ کرنا کسی غیر ملکی طاقت کے لیے اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قبضہ کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کے مطابق دیگر علاقوں میں قابض طاقتیں ٹیکس اکٹھا کرکے اپنی فوج اور مقامی ضروریات کا خرچہ نکال لیتی ہیں۔ مگر افغانستان میں پیداوار کی عدم موجودگی اور ٹیکس کی آمدن نہ ہونے کے سبب ایک خاص وقت کے بعد یہ قبضہ بھاری پڑتا ہے۔ ہاں اگر تزویراتی مفاد شامل ہو، تو یہ بھاری بھرکم بوجھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ سوویت یونین افغانستان میں انفرااسٹرکچر اس لیے کھڑا کرنے کے لیے کوشاں تھا، کہ یہ دس سال میں اس کے دس لاکھ فوجیوں کا بار سنبھال سکے، تاکہ اس کے بعد وہ پاکستان یا ایران پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہو اور گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرسکے۔مگر مقامی جدوجہد نے اس کی یہ کوشش ناکام بنادی۔ اسی طرح امریکا کا مفاد القاعدہ کو نیست و نابود کرنا تھا۔ اس مفادکے حصول کے بعد اس کی موجودگی اور کرپٹ انتظامیہ کے لیے ڈالر پھونکنا کسی بھی صورت میں تزویراتی مفاد ات کی آبیاری نہیں کررہا تھا، جبکہ سرد جنگ ایشیا۔پیسیفک میں منتقل ہو رہی تھی۔ اشرف غنی افغانستان کے معدنی وسائل کا حوالہ دے کر امریکیوں کو روکنے کی بھرپور کوششیں کررہا تھا، مگر عدم استحکام اور طالبان کے حملوں اور انتظامیہ کی غیر مقبولیت کی وجہ سے اس پر سرمایہ کاری کرنا ناممکن تھا۔ خیر حا ل ہی میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کاربن گیس کے اخراج کو کم کرنے اور غیر روایتی توانائی کو فروغ دینے کے سلسلے میں عالمی رہنماؤں نے جو وعدے کیے، وہ بڑی حد تک افغانستان میں امن و امان کے بحال ہونے اور استحکام پر ٹکے ہوئے ہیں۔
لیتھیم جس کو ۲۱ویں صدی کا پیٹرولیم کہا جاتا ہے، جو سیل فون، کمپیوٹر اور الیکٹرک و ہائی برڈ گاڑیوں کی بیٹریوں کا اہم جز ہے۔ اس کا استعمال جوہری توانائی کے ری ایکٹروں کے علاوہ روبو ٹ ٹیکنالوجی میں بھی ہوتا ہے۔ اس کو ایلومینیم اور تانبے کے ساتھ ملاکر ہوائی جہازوں کے خول بنانے اور دماغی امراض کی دوائیاں بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ابھی تک جنوبی امریکی ممالک ارجنٹائن، بولیویا اور چلی میں اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اس لیے ان ممالک کو لیتھیم تکونی ممالک کہا جاتا ہے۔ مگر ٹرانسپورٹ کے خرچہ کی وجہ سے ایشیائی ممالک کے لیے ان میں سرمایہ کاری کرنا اور پھر ڈھونا غیر منفعت بخش سودا ہے۔ اس لیے بھارت ہو یا چین یا روس، ان کی نگاہیں، افغانستان کے لیتھیم کے ذخائر پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ایک ترک ماہر توانائی علیف نوراوغلو کے مطابق پیٹرلیم کی طرح لیتھیم بھی دنیا کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں ابھر رہا ہے، اور جو ممالک اس کے ذخائر کے مالک ہیں، وہ ۲۱ویں صدی کی تیسری دہائی کے شیخ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز میں تین ٹریلین مالیت کے لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ سوویت دور میں افغانستان کی جیولوجیکل سروے میں کام کرنے والے ایک ماہر کے مطابق اگر افغانستان کو چند سال ہی امن و امان کے ملتے ہیں، تو یہ جلد ہی دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ ایک امریکی جریدہ نے تو اس کو ’’لیتھیم کا سعودی عرب‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق صرف غزنی میں ہی ۲۱ملین ٹن لیتھیم کے ذخائر زمین کی تہہ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس تباہ حال ملک میں ۶۰ملین ٹن تانبہ، ۲ء۲ ملین ٹن خام لوہا اور ۴ء۱؍ملین ٹن نایاب زمینی معدنیات یعنی لانتھانیم، سیریم، نیوڈائی میم موجود ہیں۔ ہلمند صوبہ کے خان شان میں ۱ء۱؍ملین ٹن کی نایاب زمینی معدنیات موجود ہیں۔
امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ری کنسٹرکشن یعنی SIGAR کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پچھلی حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے کوئی بھی کمپنی معدنیات کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں ہوتی تھی۔ ان رپورٹوں کے مطابق تقریباً دو ہزار مقامات پر مقامی جنگجو غیر قانونی طور پر کان کنی کرکے سالانہ ۳۰۰ ملین ڈالر کا چونا کابل حکو مت کو لگا رہے تھے۔ چند ہفتے قبل برطانوی جریدہ ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کے مطابق دس چینی کمپنیوں کے ایک نمائندہ وفد نے کابل اور افغانستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد ان ذخائر کا جائزہ لیااور ان کی کان کنی کے لیے طالبان کے راہنماؤں کے ساتھ گفت و شنید کی۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمزنے بعد میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کی سرمایہ کاری سکیورٹی، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور افغانستان کے نئے حکمرانوں کے رویہ پر منحصر ہوگی۔ چینی کمپنیاں بے یقینی کی صورت حال میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزکرتی ہیں۔ اس کی واضح مثال افغانستان میں تانبے کی کان ہے، جہاں دنیا کے وسیع تر تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ چین نے ایک دہائی قبل اس کا ٹھیکہ لے لیا تھا، مگر جنگ اور نقل و حمل میں مشکلات کی وجہ سے کام کی رفتار نہایت ہی سست رکھی۔ کئی بار اشرف غنی حکومت نے یہ ٹھیکہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ سنگاپور یونیورسٹی میں پروفیسر کلاڈیا چیا کے مطابق چینی کمپنیاں اسی طرح کی پالیسیاں، مراعات اور تحفظ چاہتی ہیں، جو پاکستان میں سی پیک کو حاصل ہیں۔ اشرف غنی حکومت کی برطرفی کے بعد بھارت، جو ایک شاک کی کیفیت میں تھا، اب اس سے باہر نکل کر طالبان کے ساتھ رابطے استوار کرنے میں مصروف ہے۔
بھارت کے ایک سرکاری تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالیسز نے افغانستان کے حوالے سے ایک دو روزہ کانفرنس منعقد کی، جس میں بتایا گیا کہ طالبان نے بھارت کے قومی سلامتی مشیر کی طرف سے بلائی گئی علاقائی کانفرنس اور اس کے اعلامیہ کی ستائش کی اور یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ طالبان اسٹریجک اٹانومی کے خواہا ں ہیں، اور کسی بھی ملک بشمول پاکستان کو اپنے معاملات میں مداخلت نہیں کرنے دینا چا ہتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان نے بھارت کی بنیادی تشویش کہ افغانستان کی سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو،کو مد نظر رکھ کر کسی بھی بھارت مخالف گروپ کو ابھی تک پناہ فراہم نہیں کی ہے۔ باقی ایشوز پر بھارت زبانی جمع خرچ کرتا رہے گا، مگر ان پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کی ۲۰۱۹ء کی الیکٹرانک پالیسی ہے، جس میں موبائل فون بنانے میں چین سے سبقت لینے کی بات کہی گئی تھی اور ہر سال ۶۰۰ ملین موبائل فون برآمد کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گلاسگو اجلاس میں وزیراعظم نریندر مودی نے ۲۰۳۰ء تک ۴۸۰ گیگا واٹ بجلی غیر روایتی ذرائع سے پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ سبھی اہداف جنوبی امریکا کے لیتھیم کے ذخائر سے حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے پڑوس میں افغانستان میں عمل دخل کے لیے نئے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ضروری ہے۔ مگر اس کے لیے بھارت کو پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانے ہوں گے۔ یہ کڑوی گولی جلد یا بدیر اس کو نگلنے ہی پڑے گی۔ جس طرح ۵۰ یا ۶۰ کی دہائی میں عرب ممالک میں پٹرولیم کی دریافت اور اس کے ذریعے دولت کی ریل پیل عرب شیخوں کے لیے ایک امتحان تھا، بس اسی طرح لیتھیم کے ذخائر بھی افغانستان کے حکمرانوں کے لیے امتحان ثابت ہوں گے۔ عرب حکمرانوں نے اس دولت کو علم و حرفت یا Knowledge Economy کے فروغ کے بجائے ذاتی عیش و عشرت پر صَرف کیا۔ یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اور اس خطے کے لیے نشاۃِ ثانیہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ افغانستان کے حکمران عرب شیخوں کی پیروی کے بجائے خطے کو واقعی دنیا کے لیے مثال بنائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ معدنیات تب تک بیکار ہیں، جب تک یہ زمین کی گود میں چھپی رہیں۔ ان کو نکالنے، سرمایہ کاری اور نقل و حمل کے لیے امن و امان، استحکام و حکومتی پالیسیوں میں تسلسل لازمی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۲۱ دسمبر ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply