افغانستان سے انخلا، امریکا کی دہری پالیسی

افغانستان میں صورت حال جتنی تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے مشکلات میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور ہالینڈ نے جلد از جلد انخلا کی ضرورت پر زور دینا جاری رکھا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما کے لیے افغانستان سے جلد از جلد انخلا بہت سود مند امر ثابت ہوسکتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں صدارتی انتخاب ہونا ہے اور اس سے قبل افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی غیر معمولی طور پر مثبت نتائج پیدا کرسکتی ہے۔

افغانستان سے انخلا تو خیر امریکی صدر اور ان کے ساتھیوں کی خواہش ہے مگر امریکی فوج کچھ اور سوچ رہی ہے۔ اس نے اشارہ دیا ہے کہ ابھی بہت کچھ ادھورا پڑا ہے لہٰذا افغانستان سے جولائی ۲۰۱۱ء میں شروع کیا جانے والا انخلا سست رفتار رکھا جائے۔ امریکی فوج چاہتی ہے کہ افغانستان میں قیام کو کسی نہ کسی حوالے سے طول دیا جائے تاکہ کوئی ایسی کمی نہ رہ جائے جس کی بنیاد پر امریکا کے لیے بعد میں کوئی بڑی مصیبت کھڑی ہو۔ امریکا کے لیے بہتر تو یہی سمجھا جارہا ہے کہ افغانستان کی دلدل سے نکل کر سکون کا سانس لیا جائے مگر خود صدر اوباما کو بھی اندازہ ہے کہ ’’مشن‘‘ ادھورا رہ جانے کی صورت میں ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ افغان فورسز کی عملی استعداد بڑھائے بغیر پورے ملک کی سیکورٹی کا معاملہ ان کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ امریکیوں کی خواہش تو یہی رہی ہے کہ طالبان کی طاقت کو گھٹانے کے ساتھ ساتھ افغان فورسز کی طاقت میں تیزی سے اضافہ کیا جائے تاکہ عالمی برادری میں امریکی حکومت کی ساکھ بہتر ہو۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ معاملہ یہ ہے کہ صدر اوباما کے اقدامات پر مکمل یقین رکھنے والوں کی بھی کمی ہے۔ امریکی فوج بھی اب عندیہ دے رہی ہے کہ اسے جولائی ۲۰۱۱ء کی ڈیڈ لائن قطعی پسند نہیں۔ صدر اوباما نے یہ نہیں کہا تھا کہ جولائی ۲۰۱۱ء تک امریکی افواج کو افغانستان سے نکال لیا جائے گا بلکہ انہوں نے امریکی انخلا کی واپسی کے آغاز کی بات کہی تھی۔ امریکی فوج بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ تمام فوجیوں کو محض پونے دو سال میں افغانستان سے نکالا نہیں جاسکتا۔ مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوج یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتی کہ وہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکیوں کو انخلا کی تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر طالبان اور حقانی گروپ نے حملے تیز کردیئے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اس مرحلے میں امریکیوں کو زیادہ آسانی سے اور زیادہ وسیع پیمانے پر نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

طالبان کے حوصلے اس تصور ہی سے بلند ہوگئے ہیں کہ اب امریکی افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکیوں کو کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔

امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے معاملے میںعجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ امریکی نشریاتی ادارے ایم ایس این بی سی سے انٹرویو میں ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا کہ جولائی ۲۰۱۱ء افغانستان سے امریکی انخلا شروع کرنے کی حتمی ڈیڈ لائن نہیں۔ انخلا سے متعلق حتمی فیصلے کا دارو مدار حالات پر ہوگا۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو صدر اوباما کو بتایا جاسکتا ہے کہ ڈیڈ لائن آگے بڑھانے ہوگی۔

ڈیوڈ پیٹریاس کی باتوں سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی فوج فی الحال افغانستان سے نکلنے کی پوزیشن میں نہیں۔ افغان فوج اس قابل نہیں کہ اسے پورے افغان معاشرے کی سیکورٹی کی ذمہ داری سونپی جائے۔ ڈیوڈ پیٹریاس کا شکوہ یہ بھی ہے کہ انہیں افغانستان میں جو حکمت عملی ورثے میں ملی ہے اس میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔

ڈیوڈ پیٹریاس کا بیان اس امر کا غماز ہے کہ امریکی پالیسی اور حکمت عملی میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ افغانستان سے انخلا آئندہ صدارتی انتخاب سے قبل مکمل کرلیا جائے تاکہ اس کا کریڈٹ لیتے ہوئے انتخابی مہم میں ووٹرز کو اپنی طرف تیزی سے متوجہ کیا جاسکے۔ امریکی عوام بھی چاہتے ہیں کہ ان کی افواج اب افغانستان کی دلدل سے نکل آئیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ فوج کو اپنی ساکھ کی فکر لاحق ہے۔ اگر کسی واضح تیاری اور بھرپور اقدامات کے بغیر امریکی فوج افغانستان سے نکل آئی تو دنیا بھر میں اس کی ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ امریکی فوج یہی چاہے گی کہ افغان فورسز سیکورٹی کی ذمہ داری قبول کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اس صورت میں وہ اپنے لیے بہتر راستہ منتخب کرسکیں گی۔ اس وقت افغان فورسز بھی سیکورٹی کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی کہتے رہے ہیں کہ ان کی فوج اب تک ملک کو چلانے کے قابل نہیں ہو پائی۔

اس صورت حال کا طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور وہ موقع ملتے ہی اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شمالی افغانستان میں طالبان کے اثرات خاصے کم ہوگئے تھے اور وہاں غیر ملکی این جی اوز نے کام پھیلا لیا تھا۔ اب شمالی افغانستان میں مختلف مقامات پر طالبان اس قدر نمایاں ہیں کہ مقامی آبادیاں خطرات محسوس کرنے لگی ہیں۔ اتحادی افواج کی توجہ مشرقی اور جنوبی افغانستان کے صوبوں پر مرکوز ہے۔ ہلمند میں فروری میں شروع کیا جانے والا آپریشن ناکام ثابت ہوا ہے جس کے بعد اب قندھار کے آپریشن کو ستمبر کے آخر تک موخر کردیا گیا ہے۔ اس آپریشن کا موخر کیا جانا اس امر کی بَیّن دلیل ہے کہ اتحادی افواج کو اپنی فتح کا زیادہ یقین نہیں اور اب تک تیاریاں بھی پوری نہیں ہو پائیں۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کا برطرف کیا جانا بھی صورت حال کو طالبان کے حق میں کرنے کا باعث بنا ہے۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو سینٹرل کمانڈ سے ہٹاکر اب افغانستان میں امریکی افواج کا کمانڈر بنادیا گیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے امریکی قیادت کس نوعیت کے بحران سے دوچار ہے۔

امریکی قیادت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فوج کا جانی نقصان بڑھتا جارہا ہے۔ طالبان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ چوٹ کہاں اور کب مارنی ہے۔ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی ہلاکت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکا میں اوباما اور ان کے رفقا کے لیے مشکلات بڑھاتا جارہا ہے۔ اب اصل امتحان امریکی قیادت کے اعصاب کا ہے۔ عجلت میں اٹھایا ہوا کوئی بھی قدم پریشانی بڑھا سکتا ہے، مسائل کو مزید الجھا سکتا ہے۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘۔ ۱۵ ؍اگست ۲۰۱۰ء )

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*