افغان جنگ برطانوی حکومت کو کم و بیش ۳۷؍ ارب پاؤنڈ میں پڑی ہے اور اب تک اس کی لاگت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ جلد ہی ہر برطانوی ٹیکس دہندہ کے لیے اس جنگ کے اخراجات کم و بیش دو ہزار پاؤنڈ کے مساوی ہو جائیں گے۔
۲۰۰۶ء سے افغان صوبے ہلمند میں برطانوی فوجی تعینات ہوئے۔ تب محتاط اندازے کے مطابق ان کا یومیہ خرچ کم و بیش ڈیڑھ کروڑ پاؤنڈ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہلمند کے پندرہ لاکھ باشندوں میں سے ہر ایک پر پچیس ہزار پاؤنڈ خرچ کیے جاچکے ہوں گے۔ یہ وہ رقم ہے جو ہلمند کے بیشتر باشندے زندگی بھر کما نہیں پائیں گے۔
ایک تازہ کتاب میں اندازہ پیش کیا گیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی حکومت کا مجموعی خرچ کم وبیش ۴۰؍ ارب پاؤنڈ ہوگا۔ اتنی رقم میں پانچ ہزار پولیس افسران یا نرسوں کو بھرتی کرکے زندگی بھر کی تنخواہیں اور مراعات ادا کی جاسکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اتنی رقم سے برطانوی بحریہ کو جدید ترین ایئر کرافٹ کیریئر گروپ سے لیس کیا جاسکتا ہے۔
ییل یونیورسٹی پریس کے تحت شائع ہونے والی کتاب ’’انویسٹمنٹ اِن بلڈ‘‘ کے مصنف فرینک لیج وج کہتے ہیں کہ ہلمند میں تعینات برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں اب تک ایسے ۵۰۰ مقامی باشندے مارے جاچکے ہیں، جو کسی بھی نوع کی عسکری سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔ ان میں سے نصف ہلاکتوں کی ذمہ داری برطانوی حکومت نے قبول کی ہے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دیا جاچکا ہے۔ باقی پچاس فیصد ہلاکتیں اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے تخمینوں کے مطابق فضائی اور زمینی حملوں میں ہونے والے مشترکہ نقصان پر مشتمل ہیں۔
فرینک لیج وج نے لکھا ہے کہ ہلمند اور دیگر صوبوں میں اب تک ۲۶۰۰ سے زائد برطانوی فوجی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے علاج پر برطانوی حکومت کو اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑ رہی ہے۔ جبکہ نفسیاتی طور پر مجروح ہونے والے پانچ ہزار فوجی ان کے علاوہ ہیں۔ زخمی فوجیوں کے علاج پر مزید ایک ارب پاؤنڈ خرچ کرنے ہوں گے۔
برطانوی وزارتِ دفاع کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان میں اب تک ۴۴۴ برطانوی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ وزارتِ دفاع سویلین ہلاکتوں کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔ اس نے دارالعوام کی دفاعی کمیٹی کو بتایا ہے کہ وہ جنگ میں برطانیہ کے مجموعی اخراجات کی تفصیل بھی ایوان میں پیش نہیں کرسکتی۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق قومی خزانے میں افغانستان کی جنگی کارروائیوں کے لیے مختص رقم ۲۵؍ ارب پاؤنڈ سے زائد ہوچکی ہے۔
فرینک لیج وج عراق، لیبیا اور افغانستان میں برطانوی حکومت کے مشیر رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہلمند میں برطانوی فوجیوں کے تعینات کیے جانے سے قبل جو حالات تھے، ان میں کوئی واضح تبدیلی یا بہتری نہیں آئی۔ طالبان کے دور میں پوست کی کاشت بہت گھٹ گئی تھی۔ اب پھر بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں بدعنوانی کو بھی پنپنے کا موقع ملا ہے۔
ہلمند کو افغان نیشنل فورسز کے حوالے کرنا بہت سے برطانوی فوجیوں کے نزدیک انتہائی احمقانہ بات ہے۔ ہلمند میں برطانوی فوجیوں کو اس لیے تعینات کیا گیا تھا کہ وہ برطانیہ کے وجود کے لیے خطرہ بننے کی اہلیت رکھنے والے القاعدہ ارکان کو ختم کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلمند میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں اور شہریوں میں ایک بھی ایسا نہیں جسے برطانیہ کے لیے خطرہ بننے کی صلاحیت رکھنے والا القاعدہ رکن قرار دیا جاسکے۔
جنگ کا اصل فائدہ ترقیاتی مشیروں، جنگجو سرداروں اور اسلحہ فروخت کرنے والے بین الاقوامی اداروں کو پہنچا ہے۔ برطانوی حکومت مشیروں پر اچھی خاصی رقم خرچ کرتی ہے۔
لیج وج لکھتے ہیں کہ القاعدہ کو عسکری اعتبار سے خطرہ قرار دینا انتہائی غلط تھا۔ یہ مسئلہ بنیادی اور ابتدائی طور پر انٹیلی جنس کی سطح کا تھا۔ برطانوی وزارتِ دفاع اور مسلح افواج کے سربراہوں کے خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے لیج وج نے لکھا ہے کہ افغانستان میں برطانیہ نے اپنے فوجیوں کا خون اور ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی پانی کی طرح محض اس لیے بہائی کہ امریکا سے قریبی تعلق کو برقرار رکھا جاسکے۔
لیج وج لکھتے ہیں کہ برطانیہ کے لیے ایک موزوں قومی حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک امریکی مفادات کی خاطر عسکری مہم جوئی میں شریک ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا، تب تک برطانوی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہ ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہلمند میں فوجی تعینات کرنے سے برطانوی مفادات کو فائدہ تو کیا پہنچنا تھا، الٹا نقصان پہنچا۔ برطانیہ نے ہلمند میں گڈ گورننس کو فروغ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلمند میں کیمپ بیشن (Bastion) سے جب تمام برطانوی فوجی نکل جائیں گے، تب اُس پر کنٹرول کے لیے منشیات کی فروخت میں ملوث جنگجو سرداروں کے درمیان لڑائی رہا کرے گی۔
لیج وج نے کہا ہے کہ افغان جنگ سے برطانیہ نے کوئی نیا سبق نہیں سیکھا۔ ایک پرانا سبق یہ ہے کہ کسی بھی خطے میں جنگ سے پہلے وہاں کے حالات اور ماحول کے بارے میں معلومات حاصل کرنا لازم ہے۔ یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ حاصل کیا کرنا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ جو کچھ خرچ ہوگا، کیا فائدہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یعنی یہ کہ جنگ کی بھٹی میں کودنے سے پہلے جامع حکمتِ عملی تیار کرنا لازم ہے۔
افغان جنگ نے فوجی افسران میں بھی خاصی بد دلی پیدا کی ہے۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بیشتر افسران کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی ہولناک نوعیت دیکھتے ہوئے امید ہے کہ جو افسران بچ گئے ہیں، وہ جرنیل بننے کی صورت میں خاصی بے باکی سے اور دو ٹوک الفاظ میں سیاست دانوں کو یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ کسی بھی جنگ میں کودنے سے پہلے بہت سے عوامل پر غور کرنا لازم ہے۔
لیج وج نے لکھا ہے کہ ہلمند میں تعیناتی کے فوراً بعد برطانوی فوجیوں کو دور افتادہ علاقوں میں بھیجا گیا۔ ان علاقوں کے بارے میں انہیں کچھ معلوم نہ تھا، نہ وہاں سرگرم طالبان کی سرگرمیوں سے متعلق مصدقہ انٹیلی جنس رپورٹس دستیاب تھیں۔ مشکل یہ تھی کہ برطانوی فوجی ایک ایسی جنگ میں جھونک دیے گئے تھے جس کے بارے میں انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ کرنا کیا ہے۔
(“Afghanistan War has Cost Britain more than £37bn”… “The Guardian”. May 30, 2013″)
Leave a Reply