افغانستان کے ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں برطانوی فوجوں کی مداخلت کی زیادہ اچھی تاریخ نہیں ہے ۔ ماضی کے تجربات سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ برطانوی فوجیں پھر سے افغانستان میں ناکام ہوں گی۔ تاہم افغانستان میں برطانوی فوجوں کی لڑی گئی پہلی تین جنگوں کا موازنہ موجودہ تنازعہ سے کرنا زیادہ مناسب تو نہیں ہے تاہم برطانیہ کو افغانستان میں اپنی تاریخ سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ ۱۸۳۹ء سے لیکر ۱۹۱۹ء کے دوران برطانوی فوج نے افغانستان میں تین جنگیں لڑی ہیں اور تینوں ہی میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انیسویں صدی میں لڑی گئی جنگوں کی وجوہات افغانستان کے آج کے تنازعے سے مختلف ہیں۔ تاہم اگر تنازعات کی مشترکہ باتوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں برطانوی فوج کی کامیابی کی امید کم ہی ہے۔
پہلی افغان برطانیہ جنگ اس وقت چھڑی تھی جب برطانوی فوج نے اس ڈر سے افغانستان پر حملہ کیا تھا کہ روسی فوجیں مرکزی ایشیا تک نہ پہنچ جائیں۔ تاہم ۱۶ہزار فوجیوں پر مشتمل برطانوی فوج کو ۱۸۴۱ء میں افغانستان سے نکال دیا گیا۔
۱۸۷۸ء میں برطانیہ نے افغانستان پر دوسرا حملہ کیا۔ اس حملے کا مقصد بھی وہی تھا جو پہلے حملے کا تھا۔ ۲۸ جولائی ۱۸۸۰ء کو مائی واند میں برطانوی فوج کو شکستِ فاش کا سامنا رہا۔
دونوں ممالک کے درمیان تیسری جنگ ۱۹۱۹ء میں اس وقت چھڑی جب افغانستان نے برطانوی حکمرانی سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ ماضی میں برطانیہ کے پاس نہ تو اتنی فوجی صلاحیت تھی اور نہ ہی سیاسی طور پر جنگ جیتنے کا مضبوط ارادہ۔ ۱۹۱۹ء کے بعد سے آج تک افغانستان میں کئی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ برطانوی فوجوں کے دنیا بھر میں جنگ لڑنے کا تجربہ بھی زیادہ ہو چکا ہے اور فوجی صلاحیتیں بھی جدید سے جدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مرتبہ برطانوی فوج افغانستان کی ثقافت اور روایات جاننے کی اہمیت سے بھی واقف ہو چکی ہے۔ ۱۸۳۹ء کی افغان برطانیہ جنگ کے دوران برطانوی فوج افغان عوام کو نیا حکمران تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی تھی کیونکہ شاہ شجاع کا تعلق دوسرے قبیلے سے تھا۔ شاہ شجاع کے دورِ حکمرانی میں افغانستان سیاسی طور پر تقسیم ہو گیا جس کا نتیجہ پرتشدد بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ اس وقت برطانوی فوج نے تشدد کا جواب تشدد سے دیا۔ تاہم یہ مسئلے کا حل ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس وقت فوج نے یہ نہیں جانا کہ اگر افغان قبیلوں کی کچھ شرائط مان لی جاتیں تو انہیں بہت سی چیزوں پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن آج کے اور ماضی کے افغانستان میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی کچھ تعداد مشترکہ ہے جو مغرب سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انہیں پرتشدد کارروائی کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تاہم پرتشدد کارروائی سے افغان عوام میں برطانیہ کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔ ۱۸۴۱ء کی جنگ کے دوران اگرچہ برطانوی فوج افغان ثقافت جاننے کی اہمیت سے واقف ہو چکی تھی تاہم انہوں نے معاملے کا ثقافتی حل نکالنا اپنے مقام کے مترادف نہیں سمجھا۔ برطانوی فوج نے ترجیح پرتشدد طریقہ کار ہی کو دی۔ آج افغانستان میں موجود برطانوی فوج وہاں کی ثقافت اور روایات جاننے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے اور کئی معاملات کے حل کے لیے غیر فوجی طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے تاہم طالبان کی موجودگی میں مکمل طور پر غیر فوجی طریقہ اپنانا بھی فوج کے لیے ناممکن ہے۔
اب یہ کہنا تو قبل از وقت ہو گا کہ ثقافت سے واقفیت برطانوی فوج کی کامیابی کی ضمانت ہے تاہم ماضی کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ ثقافت سے عدم واقفیت فوج کی ناکامی کا باعث ضرور ہے۔
ہیوڈیویز ڈیفنس اسٹڈیز، کنگز کالج لندن میں لیکچرار ہیں۔
(بحوالہ: ’’نقوش‘‘ ڈاٹ کام)
Leave a Reply