
افغانستان میں امریکا کی دو عشروں پر محیط عسکری مہم جوئی کی ناکامی ماسکو میں کم مسرّت انگیز نہیں تھی مگر خیر افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے اعلان نے روسی قیادت کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے پالیسی کی توضیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس کسی بھی حال میں افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، تاہم ایک طرف تو روس کے اندر بہت سے مسائل سر اٹھا رہے ہیں اور دوسری طرف روسی سرحدوں پر سلامتی سے متعلق صورتِ حال فوری اقدامات چاہتی ہے۔
اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور وسطی یوریشیا سے امریکی افواج کے رخصت ہو جانے سے روس کے لیے علاقے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا ایک اچھا موقع پیدا ہوا ہے۔ ایک طرف تو وہ افغانستان میں اپنے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرسکتا ہے اور دوسری طرف خطے کے ممالک کو باہم جوڑ کر اپنے لیے بھی وسیع تر اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال سے کماحقہٗ فائدہ اٹھاکر روسی قیادت وسطِ ایشیا میں بھی اپنے لیے زیادہ معقول پوزیشن کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ مگر خیر، یہ سب کچھ آسانی سے ہونے والا نہیں ہے۔ روسی قیادت نے اب تک خطے میں جو سیاسی و سفارتی سرمایہ کاری کی ہے، اُس سے کہیں زیادہ کرنے اور خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس معاملے میں جتنے خطرات اب تک مول لیے گئے ہیں، اُن سے بھی زیادہ خطرات مول لینا ہوں گے۔
افغانستان میں روس کے مفادات کا مدار وسطِ ایشیا میں روسی اثر و نفوذ کا دائرہ وسیع تر کرنے کی ضرورت پر ہے۔ جب سے سوویت یونین کی تحلیل ہوئی ہے روس نے جنوب کی سمت واقع ہونے والے عدم استحکام کے شدید منفی اثرات سے بچنے کے لیے وسطِ ایشیا کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خطے میں سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے سب سے بڑی قوت روس ہے۔ چند برسوں کے دوران چین نے تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے روس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ماسکو کے پالیسی سازوں کو اس دردِ سر سے بھی نمٹنا ہے۔ وسطِ ایشیا کی ریاستیں ۱۹۹۰ء کی دہائی کے مقابلے میں آج زیادہ مستحکم اور خوشحال ہیں۔ یہی سبب ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ فاتح کے طور پر آنے سے روس تھوڑا بہت متفکر ضرور دکھائی دیا ہے۔ وسطِ ایشیا کی ریاستوں میں اشرافیہ سوویت دور کی تربیت یافتہ ہے اور چونکہ اس وقت خطے میں روس ہی سلامتی یقینی بنانے کی صلاحیت رکھنے والی ریاست ہے، اس لیے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے خطرات و خدشات کے تدارک کے لیے ماسکو کی طرف دیکھا جارہا ہے۔
روس نے سوویت یونین کے بعد کے عہد میں خطے کی حد تک اپنے لیے برتر حیثیت یقینی بنانے پر زور دیا ہے اور اس کا مطالبہ رہا ہے کہ اُسے برتر تسلیم کیا جائے۔ اب جبکہ امریکی فوجی افغانستان سے جاچکے ہیں اور یوریشیا میں بھی اُس کا اثر و نفوذ پہلا سا نہیں رہا، دیکھنا یہی ہے کہ روس جو علاقائی کردار ادا کرنا چاہتا ہے، وہ کر پاتا ہے یا نہیں اور یہ کہ امریکا سے مسابقت کس طور جاری رہتی ہے جبکہ اس مسابقت سے خطے میں کسی بھی ملک کو غیر ضروری طور پر نقصان بھی نہ پہنچے۔
ماسکو کے لیے اولین ترجیح یہ ہوگی کہ افغانستان میں بدلے ہوئے حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عدم استحکام شمال کی سمت نہ بڑھے۔ روس کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ نکولے پتروشیف کہتے ہیں کہ روس فی الحال سب سے زیادہ توجہ پناہ گزینوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے اثرات کو محدود رکھنے پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ خطے کے مختلف حصوں کو دہشت گردوں کے حملوں سے بچانے پر بھی توجہ دینی ہے۔ بہت سے دہشت گرد صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پناہ گزینوں کے بھیس میں متعدد ممالک میں داخل ہوسکتے ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ طالبان کی آمد کے بعد خطے میں انقلابی سوچ زیادہ اور تیزی سے پروان نہ چڑھے۔ روسی قیادت کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ بہت سے دہشت گرد وسطِ ایشیا کی ریاستوں سے اس کے ہاں نہ آجائیں کیونکہ وسطِ ایشیا کی بیشتر ریاستوں کے شہری جب چاہیں، ویزا کے بغیر روس میں داخل ہوسکتے ہیں اور وہاں سے نکل بھی سکتے ہیں۔ وسطِ ایشیا میں پناہ گزینوں کا بحران کئی ریاستوں کے لیے انتہائی نوعیت کی دشواریاں پیدا کرسکتا ہے۔ ان ریاستوں میں داخل ہونے والے پناہ گزین کسی نہ کسی طور روس میں بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں روس کے لیے خطے کے معاملات میں کوئی بڑا کردار بلا واسطہ طور پر ادا کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔ روس اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کی قیادت افغان سرحدوں کی مخدوش حالت کے باعث پریشان ہے۔ بالخصوص شمالی افغانستان کے حوالے سے جہاں تاجک اور ازبک لسانی و نسلی اقلیتیں نمایاں حیثیت میں آباد ہیں۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے دوران پشتون زبان بولنے والوں کی اکثریت پر مشتمل تنظیم طالبان کے خلاف لڑنے والا شمالی اتحاد تاجک اور ازبک ملیشیا پر مشتمل تھا۔ وادیٔ پنجشیر میں تاجک کمانڈر احمد مسعود اور اشرف غنی کے نائب (صدر) اور تاجک جنگجو رہنما امراللہ صالح نے طالبان مخالف افراد کو جمع کرکے تھوڑی سی مزاحمت کی۔ اب طالبان نے وہاں مکمل فتح پالی ہے۔ ازبک لیڈر اور مفرور نائب صدر عبدالرشید دوستم کی سربراہی میں کام کرنے والی ازبک ملیشیا بھی اس وقت طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ ملیشیا بھی افغانستان کی سیاست میں نہایت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
ماسکو اور وسطِ ایشیا کی حکومتیں شمالی افغانستان کے تاجکوں، ازبکوں اور عبدالرشید دوستم جیسی شخصیات سے بہتر تعلقات رکھنے کو اہمیت دیتی آئی ہیں۔ اب جبکہ کوئی باضابطہ اتحاد موجود نہیں تو روسی حکام کو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے طالبان مخالف جنگجو القاعدہ اور داعش جیسے انتہا پسند گروپس سے جا ملیں۔ داعش نے ۲۶؍اگست ۲۰۲۱ء کو کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاجکستان میں اسلامی شریعت کے مطابق حکومت کے قیام کی داعی جماعت انصار اللہ بھی میدان میں ہے۔ جہادیوں کو ان ہزاروں روسیوں اور روسی زبان بولنے والے وسطِ ایشیائی باشندوں سے بھی مدد مل سکتی ہے، جو داعش کی طرف سے لڑنے کے لیے شام گئے تھے۔ شام میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر اِن سب کو افغانستان میں بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
روسی اسکالر آندرے کازنتسیف نے لکھا ہے کہ اگر طالبان نے مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے گروہوں کو پناہ گاہیں دینے سے انکار کیا بھی ہے تو انہیں شمالی علاقوں میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ اپنے لیے شمالی اتحاد سمیت غیر اسلام پسند عناصر کو سب سے بڑے خطرے کے روپ میں دیکھتے ہیں۔
اگر ایک طرف وسطِ ایشیا کی ریاستوں میں پایا جانے والا افتراق و انتشار کا خوف روس کو خطے کی سیاست کے حوالے سے زیادہ متحرک ہونے کی راہ دکھا رہا ہے تو دوسری طرف خود روس کے اپنی امنگیں اور عزائم بھی اُسے ایسا ہی کرنے کی تحریک دے رہے ہیں۔
امریکا کے انخلا سے روس کے سلامتی کے حوالے سے اپنی موجودگی کو نمایاں کرنے اور علاقائی انجمنوں اور اتحادیوں کو مضبوط تر بنانے کا موقع ملا ہے۔ دی کلیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) کو مزید مضبوط بنانا خود روس کے مفادات کو بھی تقویت بہم پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ ہاں، کچھ پانے کے لیے روس اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کو کچھ ذمہ داری قبول کرنا ہوگی اور اس کے لیے یہ سب بظاہر تیار نہیں۔
کرغیزستان اور تاجکستان میں روسی فوجی موجود ہیں۔ ان دونوں میں ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۷ء کے دوران خانہ جنگیاں ہوئیں، جبکہ اِسی دوران افغانستان میں بھی بڑے پیمانے پر خرابیاں پیدا ہوئیں۔ سی ایس ٹی او کے لیے روس روحِ رواں کا درجہ رکھتا ہے۔
جب طالبان سپاہی کابل کی طرف حتمی اور فیصلہ کن پیش رفت ممکن بنارہے تھے، تب روسی افواج تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مشقیں کر رہی تھیں۔ جب طالبان نے کابل فتح کرلیا روس نے تاجکستان کی درخواست پر سی ایس ٹی او کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے پر رضامندی ظاہر کردی اور تاجک افواج کے لیے اضافی ہتھیاروں کی فراہمی کی منظوری بھی دی۔
اگر افغانستان میں سیاست و معیشت مکمل ناکامی سے دوچار ہوئی، یا اِس سے ملتی جلتی کوئی صورتِ حال پیدا ہوئی تو سی ایس ٹی او کے لیے امتحان کی گھڑی آجائے گی۔ پچھلے بحرانوں میں اور بالخصوص گزشتہ برس کے آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان مناقشے کے موقع پر سی ایس ٹی او نے زیادہ آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنے سے گریز کیا۔ ماسکو سی ایس ٹی او کو زیادہ طاقتور بنانے اور علاقائی سطح پر ہم آہنگی کے فروغ میں اس کا کردار بڑھانے پر زور دیتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اُس نے اس حوالے سے عملی سطح پر کچھ زیادہ نہیں کیا۔ سی ایس ٹی او کے رکن ممالک کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ تمام معاملات روس کے ہاتھ میں چلے جائیں اور وہ اپنی آزادی و خود مختاری ہی سے محروم ہوجائیں۔ سی ایس ٹی او کے پاس پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ریپڈ ریسپانس فورس موجود ہے مگر اِسے فورس کو کسی بھی مناقشے کے خاتمے کے لیے تعینات کرنا آسان نہیں کیونکہ وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے آپس کے تنازعات انہیں اس سمت بڑھنے سے روکتے ہیں۔ رواں سال کرغیزستان اور تاجکستان کے درمیان سرحدی تنازع پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خطے کی ریاستوں کو روس کی طرف سے طاقت کے استعمال اور برتری کے حصول کی کوششوں کا بھی خطرہ لاحق ہے۔
روس اور خطے کے بھاری بھرکم ملک ازبکستان کے درمیان سلامتی کے معاملات میں اشتراکِ عمل بڑھتا جارہا ہے۔ ازبکستان نے ۲۰۱۲ء میں سی ایس ٹی او سے الگ ہونے کے بعد سے اب تک واشنگٹن، ماسکو اور بیجنگ سے متوازن تعلقات استوار رکھے ہیں۔ اپریل میں ماسکو اور تاشقند نے ایک نئے اسٹریٹجک پارٹنرشپ ایگریمنٹ پر دستخط کیے۔ چند ایک روسی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال ایک اچھا موقع ہے کہ ازبکستان کو سی ایس ٹی او کے دائرے میں واپس لانے کی کوشش کی جائے۔ تاشقند نے اب تک تو اس تجویز کو ماننے سے انکار کیا ہے تاہم امریکی انخلا کے بعد دیگر پڑوسیوں کی طرح ازبکستان پر بھی دبائو بڑھتا جارہا ہے کہ علاقائی سلامتی اور استحکام یقینی بنانے میں روس کے وسیع تر کردار کو قبول کرے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگرئی لاروف نے بھی تصدیق کی ہے کہ روس ’’ماسکو فارمیٹ‘‘ کے تحت خطے کے تمام ممالک کو ایک لڑی میں پروکر زیادہ سے زیادہ علاقائی استحکام یقینی بنانے کے حوالے سے مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ اس صورت میں افغانستان کی بحرانی کیفیت ختم کرنے کے حوالے سے لائحۂ عمل ترتیب دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس عمل میں ماسکو اپنے آپ کو علاقائی سطح پر پاور بروکر یا بادشاہ گر کی حیثیت سے نمایاں کرنے کا مقصد بھی حاصل کرسکتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ وسطِ ایشیا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان نئے روابط بھی استوار ہوں گے۔ ازبکستان اور تاجکستان اس تصور کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر یہ تصور کامیاب ہوگیا تو صرف روس کو فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ یہ کامیابی مجموعی طور پر پورے خطے کے مفاد میں ہوگی۔
ایک طرف روس کو علاقائی سطح پر استحکام پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے اور دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو یہ کہتے ہوئے درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب واشنگٹن کی توانائی اور وسائل کو عالمی سطح پر چین کو منہ دینے اور روس کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکے گا۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ چین اپنی بات منوانے کے حوالے سے جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہا ہے جبکہ روس وسطِ ایشیا اور جنوبی ایشیا کو غیر مستحکم کرنے کے درپے ہے۔ امریکی انخلا افغانستان اور اس کے اطراف روسی موجودگی میں واضح اضافے کا باعث بنے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑھی ہوئی موجودگی امریکا کے اثرات کم کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Afghanistan will put Russia’s regional ambitions to the test”(“thefrontierpost.com”. Sept. 7, 2021)
Leave a Reply