عالمی برادری نے افغانستان کے لیے مزید امداد کا اعلان کیا ہے۔ مگر کیا امداد سے افغانستان کے تمام مسائل عمدگی سے حل ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ ۸ جولائی کو ٹوکیو میں افغانستان پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عالمی برادری نے عہد کیا کہ وہ جنگ سے تباہ حال اس ملک کو چار برسوں میں مزید ۱۶؍ ارب ڈالر دے گی۔ افغان فوج اور پولیس کو سیکورٹی کی ذمہ داری مکمل طور پر سنبھالنے کے قابل بنانے کے لیے جو کچھ دیا اور کیا جائے گا وہ اس کے علاوہ ہے۔
امریکا میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے۔ چند ایک اعلانات خاصے مبہم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا نے جو رقم دینے کا اعلان کیا ہے وہ ساری کی ساری نئی نہ ہو۔ مگر افغان حکام کہتے ہیں کہ اپریل میں امریکا سے ہونے والے تزویراتی معاہدے کی طرح امداد کی رقم بھی سنجیدگی کا مظہر ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ ۲۰۱۴ء میں نیٹو فورسز کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد بھی امریکا اپنے وعدے نبھاتا رہے گا۔
افغانستان کو جس قدر امداد دینے کا عہد کیا گیا ہے وہ یقینا توقعات سے بڑھ کر ہے۔ عالمی معیشت کی سست رفتاری، جنگ سے عمومی بیزاری اور کرپشن پر قابو پانے میں افغان حکومت کی ناکامی کے پیش نظر خیال کیا جارہا تھا کہ عالمی برادری افغانستان کو زیادہ امداد دینے کا کوئی وعدہ نہیں کرے گی۔ عالمی برادری کا موقف یہ ہے کہ افغانستان کو اس لیے زیادہ امداد دی جارہی ہے کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں سویت یونین کی افواج کے انخلا کے بعد میدان خالی چھوڑا گیا تھا تو خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں طالبان کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تھا۔ اس غلطی کو دہرانے کی گنجائش نہیں۔
مغربی ممالک نے طویل مدت تک افغانستان کو امداد دی ہے۔ اب زیادہ امداد دینے کا وعدہ کیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا غیر ملکی امداد پوری ایمانداری سے خرچ ہو پائے گی، اور کیا مستقبل میں افغانستان اپنے پیروں پر اس قدر کھڑا ہو پائے گا کہ بیرونی امداد کی ضرورت ہی باقی نہ رہے؟
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف غزہ کی پٹی، غرب اردن اور لائبیریا ہی بیرونی امداد پر اس قدر منحصر رہے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کو بیرونی امداد سے کچھ خاص فائدہ پہنچا نہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۲ء کے بعد سے اب تک افغانستان کو بیرونی امداد کی مد میں ۵۵؍ارب ڈالر ملے ہیں مگر اس امداد کا بڑا حصہ غیر ملکی اسٹاف کی تنخواہوں اور بیرونی ٹھیکیداروں کے منافع پر خرچ ہو جاتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی ٹھیکیداروں کے شروع کیے ہوئے منصوبوں میں صرف ۱۰ تا ۲۵ فیصد فنڈ ہی افغان سرزمین پر خرچ ہو پاتے ہیں۔ بیرونی امداد سے کرپشن کو بھی فروغ ملا ہے، جس سے افغان حکومت اور سرکاری مشینری کی ساکھ مزید خراب ہوگئی ہے۔ ٹوکیو میں افغانستان سے متعلق کانفرنس کے دوران کئی افغان گروپوں نے مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کرپشن روکی جائے اور فنڈ کے درست استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ بڑی محنت اور جاں فشانی کے بعد جو چند ادارے افغانستان میں کام کرنے کے قابل ہو پائے ہیں ان کے استحکام کو ذرا سی سہولت اور سکون کی خاطر طالبان سے کوئی معاہدہ کرکے غارت نہ کیا جائے۔
افغان حکومت اور عطیات دینے والے ممالک دونوں ہی جانتے ہیں کہ افغانستان کا استحکام اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے پیروں پر کب کھڑا ہوتا ہے اور بیرونی امداد کے بغیر جینا کب سیکھتا ہے۔ ٹوکیو کانفرنس میں افغانستان کے لیے جن اربوں ڈالر کا وعدہ کیا گیا ہے وہ افغان حکومت کو تو چلتا رکھیں گے تاہم ادارے مستحکم نہیں ہوسکیں گے اور معاملات وہیں کے وہیں رہیں گے۔ افغانستان کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ مگر سرمایہ کار چاہتے ہیں کہ پہلے انہیں اور ان کے سرمائے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ افغانستان کے پاس اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ معدنیات کی دولت پر اکتفا کیا جائے۔ چین اور بھارت اس حوالے سے بہت کام کر رہے ہیں۔ افغانستان میں معدنیات کے حصول کے لیے کھدائی آسان نہیں۔ ملک میں سیکورٹی کا مسئلہ اب تک پریشانی کا باعث ہے۔ افغانوں کو اب اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ٹھوس اور جامع فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ امداد خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، اس پر بھروسا کرکے حالات درست نہیں کیے جاسکتے۔
(“Afghanistan’s Economy: The Hand that Feeds”… “Economist”. July 20th, 2012)
Leave a Reply