
امریکی سفارت کار اس ہفتے وسط ایشیا کے رہنماؤں کو رام کرنے کی کوششیں تیز کرنے والے ہیں، جن کا مقصد افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد وہاں بیرونی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں کو کچلنے کے لیے کسی اسٹیجنگ ایریا کا حصول یقینی بنانا ہے۔
امریکی سفارت کار خطے کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسری طرف افغانستان کے ہمسایوں میں امریکا سے سلامتی کے معاملے میں شراکت داری یا اشتراکِ عمل کے حوالے سے تحفظات ابھر رہے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں جو کچھ ہوا تھا یہ سب اس کے بالکل برعکس ہے۔ تب یعنی نائن الیون کے فوراً بعد وسط ایشیا کے ممالک نے القائدہ سے نمٹنے کے لیے امریکی فوجی اڈوں، فوجیوں اور دیگر معاملات کے لیے اپنی زمین بخوشی پیش کی تھی۔
سابق امریکی سفارت کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں محض جزوی کامیابی سے ہم کنار کرنے والی جنگ اور علاقائی و عالمی سطح پر نشیب و فراز سے دوچار امریکی عسکری شراکت داری کو دیکھتے ہوئے امریکا کو عسکری معاملات میں طویل المیعاد بنیاد پر شراکت دار بنانے کے حوالے سے شدید بے اعتمادی پائی جاتی ہے۔ روس نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ وسط ایشیا میں کوئی مستقل امریکی فوجی اڈا یکسر ناقابل قبول ہے۔
دریں اثنا طالبان قیادت نے، جو ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں بین الاقوامی سطح پر شناخت کی غیر معمولی خواہش مند ہے، اس موسِم گرما کے دوران بیشتر علاقائی ممالک کے دارالحکومت اور ماسکو کا دورہ کرکے یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ کابل حکومت سے ان کی لڑائی کا چاہے جو بھی انجام ہو، وہ علاقائی سلامتی، امن اور تجارت یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
۲۰۰۱ء میں ازبکستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے وسط ایشیا تک امریکا کی عسکری رسائی یقینی بنانے والے جان ہربسٹ کہتے ہیں کہ میں تو اس بات کو سمجھ سکتا ہوں کہ وسط ایشیا میں امریکی فوجی اڈا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، مگر اس وقت خطے کا کوئی بھی ملک شاید ہی اس کی اہمیت محسوس کرتا ہو۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ افغانستان میں ناکامیوں کے نتیجے میں امریکا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ امریکا نے کسی طور القاعدہ کو تو غیر موثر کردیا تاہم کابل میں مضبوط حکومت یقینی بنانے کے لیے بنیاد پرست افغان طالبان سے نمٹنے میں امریکا کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ہربسٹ کے خیال میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا کے لیے امکانات بالکل ختم ہوگئے ہیں مگر ہاں، طالبان عنصر بہت مضبوط ثابت ہوا ہے۔
وسط ایشیا میں یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے سابق افسر اور یونیورسٹی آف پٹزبرگ میں وسط ایشیا کے امور سے متعلق محقق جینیفر برک مرتضاشولی کہتی ہیں کہ افغانستان سے جڑی ہوئی وسط ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں نے امریکا کی جانب سے بیرون ملک جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی پرجوش پکار کئی سال تک سنی، پھر براک اوباما آئے جنہوں نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالنے اور اس ملک کے معاملات سے غیر متعلق ہو جانے کی بات کی اور اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے مکمل طور پر لاتعلق ہو جانے پر زور دیا۔ جینیفر مزید کہتی ہیں کہ اس معاملے نے امریکا کو بہت حد تک عدم مقصدیت سے دوچار کیا ہے۔ امریکا خاصے طویل عرصے کے دوران وسط ایشیا میں طویل المیعاد حکمت عملی یا مضبوط موجودگی یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔
سرِدست حقیقت یہ ہے کہ وسط ایشیا کی ریاستوں سے تعلقات رکھنا بائیڈن انتظامیہ کے لیے سلامتی یقینی بنانے کا معاملہ ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ طالبان بیرونی اسلام پسندوں کو امریکا یا کسی اور کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان کو اڈا بنانے کی اجازت نہ دیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نک پرائس نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوجانے کے بعد امریکا سے اشتراکِ عمل یا تعاون کی سطح کا تعین وسط ایشیا کی ریاستیں اپنے طور پر پوری خود مختاری سے کریں گی۔ نک پرائس کا مزید کہنا ہے کہ یہ بات صرف امریکا کے نہیں بلکہ افغانستان کے ہمسایوں کے حق میں ہے کہ افغانستان محفوظ اور مستحکم ہو۔
بائیڈن انتظامیہ نے اس حوالے سے کم ہی تفصیلات ظاہر کی ہیں کہ وہ خطے میں سلامتی کے حوالے سے کس نوعیت کی رسائی چاہتی ہے اور کن ممالک سے چاہتی ہے۔ امریکا خلیجی ممالک اور طیارہ بردار جہازوں سے بھی افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم (اسٹیجنگ ایریا کے لیے) قربت زیادہ کارآمد اور موزوں ہے۔ افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ کارروائیوں کے حوالے سے قربت زیادہ کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی معاہدہ خاصا محتاط نوعیت کا ہوگا۔
امریکا نے افغان مترجمین اور دیگر امریکی ملازمین کو عارضی طور پر بسانے کے لیے بھی افغانستان کے ہمسایوں کی طرف دیکھا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے اسی ہفتے تصدیق کی ہے کہ امریکا اب بھی وسط ایشیا کے ممالک سے رابطے بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان سے قریب تر سہولتوں اور بنیادی ڈھانچے سے مستفید ہونے کے امکانات کی تلاش میں خطے کے ممالک سے گفت و شنید کر رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے اس سلسلے میں ماہِ رواں کے اوائل میں ازبکستان اور تاجکستان کے وزرائے خارجہ کو واشنگٹن بلایا اور انہیں سفارتی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت دی۔
اندرونی سلامتی کے حوالے سے صدر جوبائیڈن کی مشیر الزابیتھ شروڈ رینڈل افغانستان کے حوالے سے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور دیگر امریکی اعلیٰ حکام کے ساتھ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند روانہ ہوئیں جہاں تمام علاقائی ممالک کے صدور اور وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہو رہی ہے۔ امریکی افواج کے انخلا بعد اگر افغانستان میں انتہا پسندوں کو پھر پناہ ملی تو یہ تمام ممالک فوری اور بلاواسطہ طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ خشکی سے گھرے ہوئے ازبکستان کو بیرونی منڈیوں تک پہنچنے کے لیے پاکستان تک رسائی درکار ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ افغانستان میں امن ہو کیونکہ وہاں سے گزرے بغیر پاکستان تک رسائی ممکن نہیں۔
امریکا کے لیے ازبکستان کے سفیر جیولان وخابوف کہتے ہیں کہ ’’ہمارے لیے افغانستان میں استحکام کی غیر معمولی اہمیت ہے‘‘۔ ازبکستان کے دورے میں امریکی حمایت یافتہ کابل حکومت اور طالبان کے نمائندوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ بیرونی منڈیوں تک رسائی کے ازبک منصوبے کی کامیابی یقینی بنانے کے حوالے سے بھرپور تعاون کریں گے۔ وخابوف کہتے ہیں کہ انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ اس (راہداری) منصوبے پر لوگ حملہ نہیں کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو ازبک قانون اس سابق سوویت ریاست کو کسی بھی بلاک کا حصہ بننے سے روکتا ہے، وہی قانون انسدادِ دہشت گردی کی کسی بھی بیرونی کارروائی کی میزبانی کی بھی ممانعت کرتا ہے۔ اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا کے لیے ازبکستان کے عمومی جذبات مثبت ہیں۔
سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پورا خطہ اس وقت یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ، افغانستان میں متحارب طاقتوں کا حال خواہ کچھ ہو، طالبان اچھے پڑوسی ثابت ہونے سے متعلق اپنے عہد پر کاربند رہتے ہیں یا نہیں۔ اگر طالبان اپنے عہد پر کاربند نہ رہے تو سلامتی سے متعلق امریکی مقاصد کے لیے تعاون یا اشتراک عمل کی سطح بلند ہوگی۔
جان ہربسٹ کہتے ہیں کہ خطے کے تمام ممالک کا طالبان کے ارادوں سے متعلق فکرمند ہونا فطری امر ہے۔ اگر طالبان اپنا رویہ درست رکھیں تو اچھی بات ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو خطے کے ممالک کو مدد کی ضرورت پڑے گی اور یہ مدد امریکا کی طرف سے ہوگی۔
(اس نیوز فیچر کی تیاری میں اے پی کے سفارتی امور کے تجزیہ کار میتھیو لی نے بھی معاونت کی۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Afghanistan’s neighbors wary as US seeks nearby staging area”. (“AP”. July 15, 2021)
Leave a Reply