
افغانستان کے باشندوں میں وطن کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ دو سال کے دوران بیرونِ ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں تیزی سے نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ اور بظاہر خوش حال زندگی بسر کرنے والے افغان بھی بیرونِ ملک قیام کو ترجیح دے رہے ہیں۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ بیرونِ ملک تعلیم اور روزگار کے مواقع تلاش کرنے والے افغانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی پناہ کے خواہش مند افراد میں سب سے زیادہ تعداد افغانوں کی ہے۔ صومالیہ اور عراق جیسے تباہ حال ممالک کے لوگ بھی اپنے ملک سے اس حد تک مایوس نہیں جس قدر افغان ہیں۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال ۰۵۷,۲۷؍افغانوں نے بیرون ملک سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی جو اس بات کا اشارہ ہے کہ افغانستان میں امن و امان کی بحالی سے متعلق امریکا اور نیٹو کے دعوے سراسر بے بنیاد ہیں۔
بیرونِ ملک قیام کے خواہش مند افغانستان میں اکثریت عمر کی دوسری اور تیسری دہائی میں ہے۔ ان میں بیشتر تعلیم یافتہ ہیں اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے ذریعے بہتر قیام اور مستحکم روزگار حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ لوگ پاکستان اور ایران کے ذریعے جعلی پاسپورٹ اور ویزا پر یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور کینیڈا جانے کے لیے بیس ہزار ڈالر تک دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے افغان اس سلسلے میں جان جوکھم میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
افغانستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں لوگ لڑائی سے تنگ آچکے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور خوش حال افغان بھی ملک کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں روزگار کے مواقع ہیں نہ تعلیمی سہولتیں۔ کچھ لوگ اعلیٰ تعلیم کے نام پر ملک سے باہر جاکر ملازمت کرتے اور اہل خانہ کو رقوم بھیجتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اہل خانہ کو بھی بیرونِ ملک بلالیتے ہیں۔
امریکا اور نیٹو نے افغانستان میں امن و امان کی بحالی سے متعلق جتنے بھی دعوے کیے ہیں ان پر اب کسی کو یقین نہیں رہا۔ لوگوں میں جنگ کے حوالے سے عدم تحمل بڑھتا جارہا ہے۔ طالبان کو شکست دینے کی صلاحیت امریکی اور نیٹو افواج میں دکھائی نہیں دیتی، ایسے میں کون یہ مانے گا کہ طالبان کو افغان فورسز زیر کرلیں گی؟ نیٹو نے ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا ہے۔ تب تک افغان فورسز کو ملک کا کنٹرول مرحلہ وار منتقل کیا جائے گا۔ افغانوں کی اکثریت کو یقین نہیں کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی پرامن طور پر انجام کو پہنچ سکے گی۔
افغانستان کے انڈی پینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک کمشنر احمد نادر نادری کا کہنا ہے کہ بیشتر افغانوں کو مستقبل پر یقین نہیں۔ لوگ بیرونی افواج کے انخلا کی بات سے خوفزدہ ہیں۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں اتنا دم نہیں کہ طالبان کو اقتدار میں آنے سے روک سکے۔
ترک وطن کرنے والے افغانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بہت سے ممالک نے سخت امیگریشن قوانین اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سال رواں کے دوران آسٹریلیا کو ۷۰۵,۲ افغانوں کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ آسٹریلوی حکام نے صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے۶ ماہ کے لیے تمام کیسز پر پابندی عائد کردی جو اکتوبر میں اٹھائی گئی، ایک تہائی سے بھی کم درخواستوں کو منظور کیا گیا ہے۔
یورپ میں تارکینِ وطن اور سیاسی پناہ سے متعلق پالیسی یکساں نہیں۔ سیاسی پناہ کے طالب سیکڑوں افغانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بہت سوں کو خصوصی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ امریکا میں سیاسی پناہ طلب کرنے والے افغانوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہوتی جارہی ہے۔ بیشتر افغان یورپ یا آسٹریلیا میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے دوران صرف ۱۱۳؍افغانوں نے امریکا میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروس کے مطابق یہ ۲۰۰۲ء کے بعد اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
بیرونِ ملک تعلیم اور روزگار کے لیے افغان باشندے جان پر کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پشاور اور جلال آباد میں ایسا نیٹ ورک موجود ہے جو لوگوں کو بیرونِ ملک بھجوانے کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ انڈسٹری ایک ارب روپے سالانہ کی ہے۔ یو این آفس آف ڈرگز اینڈ کرائم کا کہنا ہے کہ پشاور میں قائم نیٹ ورک جعلی پاسپورٹ، ویزا، بینک اسٹیٹمنٹ اور تعلیمی اسناد کا اہتمام کرتا ہے۔
افغانستان کے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح وطن واپس آکر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں وہ بھی تنگ آکر دوبارہ بیرون ملک جانے کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ کی طالبہ نسیم ماجدی نے افغانستان میں دوبارہ آباد ہونے والے ۱۰۰؍افراد سے بات کی تو ان میں سے ۷۰ نے یہی کہا کہ وہ بیرونِ ملک آباد ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ ملک میں دوبارہ آباد ہونا بہت مشکل امر ہے۔
امریکی اور نیٹو افواج اب تک حالات پر پوری طرح قابو نہیں پاسکیں۔ طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا ناٹک بھی اب ختم ہوچکا ہے۔ افغان عوام کو اس بات کا ذرا بھی یقین نہیں کہ اتحادی افواج کے انخلا سے ملک میں امن قائم ہوسکے گا۔ انہیں خوف ہے کہ ملک کے مختلف حصوں پر دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہو جائے گی اور وہ زیادہ توانا ہوکر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ یہ تبدیلی ایک نئی خانہ جنگی کو جنم دے سکتی ہے۔ افغانوں کا اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہونا اس بات کی واضح علامت اور ثبوت ہے کہ امریکا اور نیٹو کی افواج افغانستان کے معاملات کو درست کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور ان سے مایوس ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ افغان حکومت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ بیرونی افواج کے انخلا کی صورت میں طالبان کے آگے بند باندھنا بہت مشکل ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۲۸ نومبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply