
صحرائی افریقا کے ممالک کی آزادی کا سلسلہ ۶ دہائیوں پہلے شروع ہوا۔گزشتہ ساٹھ سالوں میں ان ممالک میں جمہوریت غیر مساوی طریقے سے فروغ پاتی رہی۔ سرد جنگ کے دوران اکثر افریقی ممالک میں روس یا امریکی حمایت یافتہ فوجی حکومتیں رہیں۔ بعدازاں کچھ ممالک میں تو جمہوری نظام نے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں، لیکن اکثر ممالک حقیقی جمہوریت قائم کرنے میں ناکام رہے۔آج افریقا کی صرف ۱۱فیصد آبادی ان ممالک میں رہتی ہے جنہیں صحیح معنوں میں آزاد کہا جاسکتا ہے۔تاہم تبدیلی کا عمل جاری ہے۔
۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان اس خطے کے ممالک میں ۹ دفعہ اقتدار ایک حکمران سے دوسرے کو منتقل ہوا۔ تاہم ۲۰۱۵ء سے اب تک ۲۶ دفعہ اقتدار ایک سے دوسرے حکمران کو منتقل ہو چکا ہے۔ اقتدار کی اس منتقلی میں کہیں کہیں ایک حکمران نے اپنے ہی منتخب کردہ کسی فرد کو اقتدار سونپا لیکن آدھے سے زیادہ واقعات میں اپوزیشن کے امیدوار نے حکمران جماعت کے امیدوار کو شکست دی۔ ایک اندازے کے مطابق ۱۹۵۰ء سے ۲۰۱۰ء کے درمیان افریقا میں ۸۷ فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ لیکن اب فوجی بغاوتوں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کے دن گزر چکے ہیں۔ ۲۰۱۵ء کے آغاز میں صحرائی افریقا کے ممالک میں ۴۹ سیاستدان اقتدار میں تھے، تاہم مئی ۲۰۱۹ء تک ان میں سے صرف ۲۲؍اقتدار میں موجود تھے۔ نئے آنے والوں میں سے صرف زمبابوے کے Emmerson Mnangagwa ہی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے۔
افریقا کے ان نئے حکمرانوں میں پرانے سیاسی کارکنان اور سابق فوجی شامل ہیں۔ان کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔ کوئی فٹبال کا کھلاڑی ہے،کوئی ڈی جے (Disc Jokey) اور کوئی دولت مند کاروباری۔ان حکمرانوں میں ایتھوپیا کے Abiy Ahmed، انگولا کے Joao Lourenco، جنوبی افریقا کے Cyril Ramaphosa، کانگو کے Felix Tshisekedi اور نائیجیریا کے Muhammadu Buhari کا کردار بہت اہم ہوگا۔ یہ ممالک فوجی اور عسکری حوالوں سے بھی طاقتور ہیں اور ان میں خطے کی تقریباً آدھی آبادی رہتی ہے۔ ان تمام حکمرانوں نے بدعنوانی اور بدانتظامی کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ افریقا میں ایک نئی اور پرامید قیادت آئی ہو۔ ۱۹۹۰ء میں سابق باغیوں پر مشتمل سیاست دانوں نے خود کو جمہوری مصلح کے طور پر پیش کیا تھا۔ ان سیاست دانوں میں اریٹیریا کے Isaias Afwerki، روانڈا کے Pual Kagame، ایتھوپیا کے Meles Zenawi اور یوگینڈا کے Yoweri Museveni شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب ہی آمریت کی طرف چلے گئے اور Meles Zenawi کے علاوہ یہ تمام آج تک اقتدار میں ہیں۔ سیاست دانوں کے دعوے کچھ بھی ہوں، دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو کوئی بھی بندوق کے سہارے اقتدار میں آیا ہے وہ کبھی بھی جمہوری طرز اختیار نہیں کر سکا۔ آج کے حکمران ماضی کے برعکس قدرے پرامن طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں، وہ طریقہ چاہے انتخاب ہو یا دیگر آئینی طریقے۔
افریقی ممالک کے نئے بننے والے حکمران آنے والے برسوں میں خطے کو نئی شکل دیں گے۔ اس خطے کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ یہ حکمران اصلاحات کے نفاذ، مقامی چیلنجوں سے نمٹنے اور دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ بیلٹ باکس اور عوامی مظاہرے، جو اس خطے میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ بنتے ہیں، حکمرانوں کو اپنے وعدے پورے کرنے پر مجبور کریں گے۔
گو کہ امریکا ماضی میں اسٹیٹس کو کی حمایت کرتا رہا ہے تاہم اہم افریقی ممالک میں نئے حکمرانوں کے آنے کے بعد امریکا کو ان لوگوں کی حمایت کرنی چاہیے، جو تبدیلی کے منتظر ہیں۔ افریقا میں اپنی خاطر خواہ سفارتی، عسکری اور معاشی حیثیت کی وجہ سے امریکا ان حکمرانوں پر خطے کی ترقی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔
ایتھوپیا اور انگولا:
۱۰ کروڑ آبادی والے ملک ایتھوپیا نے سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلی کا سامنا کیا۔ ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت نے تمام پارلیمانی نشستیں جیت لیں۔ اس نتیجے نے ملک کے ظاہری کثیر الجماعتی سیاسی نظام کی حقیقت واضح کردی۔ اگلے سال ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر ملک کی محدود سیاسی فضا اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف مظاہرے کیے۔ خاطر خواہ سیاسی قد و قامت نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت کے وزیراعظم Hailemariam Desalegn ملک کو بحران سے نکالنے میں ناکام رہے اور فروری ۲۰۱۸ء میں مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد حکمران جماعت نے وزیراعظم کے لیے Abiy Ahmed کو منتخب کیا۔ Abiy نے تیزی سے بہت جرأت مندانہ اور ماضی میں ناممکن سمجھی جانے والی اصلاحات کیں۔ انھوں نے ہزاروں سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا، اریٹیریا کے ساتھ صلح کی، سول سوسائٹی پر عائد پابندیاں ختم کیں اور ملک کی سرکاری مواصلاتی کمپنی اور قومی فضائی کمپنی کی نجکاری کا عمل شروع کیا۔
Abiy کے اقدامات نے عام شہریوں میں تو ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا، لیکن ملک کی سیاسی اشرافیہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس اشرافیہ کی اکثریت تیگرای نامی لسانی اقلیت سے ہے۔ یہ لسانی گروہ ملک کے دفاعی معاملات پر اپنی گرفت رکھتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ Abiy کی اصلاحات ان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ Abiy کا کہنا ہے کہ وہ اکتوبر ۲۰۱۸ء میں فوج کی طرف سے ممکنہ بغاوت کو بھی روک چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آبادی پر حکومت کی مضبوط گرفت کم کرنے سے ملک میں گروہی اور لسانی کشیدگی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب Lourenco کے اقتدار میں آنے کے بعد انگولا کا سیاسی ماحول بھی تبدیل ہوا ہے۔گزشتہ چالیس برسوں سے ملک پر Jose Eduardo Dos Santos کی حکومت تھی، جنھوں نے ملک میں موجود تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنے خاندان کی دولت میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔ ۲۰۱۶ء میں ۳۷ سالہ Jose Eduardo نے اعلان کیا کہ وہ اگلے سال اقتدار چھوڑ دیں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے جانشین کے طور پر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر دفاع Lourenco کا انتخاب کیا۔ مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی Lourenco نے Dos Santos خاندان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات شروع کردیں۔
ایک ایسے ملک میں جو ماضی میں مارکسی نظریات کی حامل سیاسی جماعت کے زیر اثر رہا ہے وہاں Lourenco امریکا اور پرتگال کے ساتھ تعلقات استوار کر کے ایک نئی مثال قائم کر رہے ہیں۔ انھوں نے آئی ایم ایف پیکج سے مشروط بین الاقوامی امداد بھی قبول کر لی ہے۔ Lourenco نے ابھی تک چین کی جانب سے منہ نہیں موڑا ہے لیکن انھوں نے چین کو قرضوں کے عوض فراہم کیے جانے والے تیل کی ترسیل روکنے کا اعلان ضرور کیا ہے۔اس ترسیل کی وجہ سے انگولا مزید قرضوں میں جکڑا جارہا تھا۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ Lourenco ایک ایسا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دینا چاہتے ہوں، جو خود انہی پر مرکوز ہو۔ ان کی جانب سے شروع کی جانے والی بد عنوانی کے خلاف تحقیقات کا حدف صرف اور صرف Dos Santos خاندان ہی ہے۔ تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اصلاحات ہی ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہیں۔ اگروہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ۳ کروڑ آبادی، کم و بیش ۹۰ ہزار فوج، معدنیات اور تیل کی دولت سے مالامال انگولا خطے میں طاقت کا مرکز بن سکتا ہے۔
جنوبی افریقا:
جنوبی افریقا کے صدر Ramaphosa بھی ملک کو اپنے پیش رو Jacob Zuma کے دور کی مشکلات سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ Zuma نے اہم وزارتوں اور سرکاری اداروں میں تعینات اپنے قریبی افراد کو اپنی جیبیں بھرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔انھوں نے روس کے ساتھ جوہری پاور پلانٹ کا ایک مشکوک معاہدہ بھی کیا تھا۔ افریقا کی سب سے اعلیٰ معیشت کے لیے کم شرح نمو، کمزور ہوتی ہوئی کرنسی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ شرمندگی کا باعث بن چکی تھی۔ آخر کار فروری ۲۰۱۸ء میں Zuma کی جماعت افریقن نیشنل کانگریس نے انھیں مستعفی ہونے کے لیے مجبور کیا اور ان کی جگہ Ramaphosa کو منتخب کیا۔ Ramaphosa نے اگلے پانچ سال کے دوران ملک میں ۱۰۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانے اور قومی اداروں میں اصلاحات کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنے پیش رو کے دور میں ہونے والی بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی قائم کردیا ہے۔
مئی ۲۰۱۹ء میں Ramaphosa نئے انتخابی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ تاہم اس کے لیے انھیں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے افراد کی خوشنودی بھی حاصل کرنی پڑی۔یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ بغیر کسی معاوضے کے زمین کی ضبطی کے عمل کی حمایت کرتے ہیں۔یہ وہ اقدام ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کارملک میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی اپنی جماعت بدعنوانی اور نظریاتی اختلافات کا شکار ہے، جو کہ مکمل اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔رواں سال جنوبی افریقا سلامتی کونسل میں دو سال کے لیے غیر مستقل رکن بن گیا ہے، اس کے علاوہ ۲۰۲۰ء میں اسے افریقی یونین کی چیئرمین شپ بھی ملنے والی ہے۔ جنوبی افریقا G-20 میں واحد افریقی رکن اور South African Development Community کا سب سے زیادہ طاقتور ملک ہے۔ Ramaphosa کے پاس انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ملک کے خراب ریکارڈ کو درست کرنے کا اچھا موقع ہے اور وہ اس سمت میں کام بھی کر رہے ہیں۔ اگر Ramaphosa ملکی سیاست کو صاف کرنے اور معاشی اصلاحات لانے میں کامیاب ہوگئے تو جنوبی افریقا پورے خطے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اور اگر وہ عالمی پلیٹ فارم تک اپنی رسائی بڑھائیں تو جنوبی افریقا ۲۵ برس پہلے نسلی امتیاز کوختم کرنے کے اپنے تجربے کی وجہ سے دنیا میں بحرانوں کے حل کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کرسکتا ہے۔
(جاری ہے…)
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Africa’s Democratic Moment?”(“Foreign Affairs”. July/August 2019)
Leave a Reply