سوڈان کو تقسیم کرنے کی تیاری

سوڈان کے جنوب میں ابھرنے والی شورش اب رنگ لارہی ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر سوڈان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ جنوبی صوبے دارفر کے مکینوں کو آزادی دے۔ ۹؍جنوری کو ریفرنڈم ہونے والا ہے جس کے ذریعے یہ طے ہونا ہے کہ جنوبی سوڈان ملک کا حصہ رہے یا نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جنوبی سوڈان کے لوگوں کی اکثریت سوڈان سے علیٰحدگی کے حق میں ووٹ دے گی۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ریفرنڈم کے نتیجے کو خلوص دل سے قبول کریں گے اور اس کے مطابق عمل کریں گے۔ مگر مبصرین کو خدشہ ہے کہ عمر البشیر ایسے طریقے ضرور اختیار کریں گے جن کا مقصد تیل کی دولت سے مالا مال علاقے ابئی کو سوڈان ہی میں رکھنا ہوگا۔ ایسی کوئی بھی کوشش معاملات کو خراب کرنے کا باعث بنے گی۔

امریکا کے سابق صدارتی امیدوار اور سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین جان کیری نے حال ہی میں سوڈان کا دورہ کیا۔ وہ عمر البشیر کے لیے امریکی ہم منصب کی یہ پیشکش لے کر آئے تھے کہ اگر سوڈانی حکومت نے ریفرینڈم کا نتیجہ قبول کرلیا تو سوڈان کو دہشت گردی کی سرپرست ریاستوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔

شمالی سوڈان میں جنوبی سوڈان کے دس لاکھ سے زائد باشندے رہتے ہیں۔ عمر البشیر کا اصل امتحان جنوبی سوڈان کی علیحدگی کی صورت میں ان دس لاکھ افراد کے لیے شہریت کے لیے نئے قوانین متعارف کرانا ہوگا۔ عمر البشیر چاہیں گے کہ ابئی کا علاقہ (شمالی اور جنوبی سوڈان کے درمیان واقع ہے) کسی بھی طور ممکنہ آزاد ریاست میں شامل نہ ہو۔ اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی ۹ جنوری ہی کو ریفرینڈم ہو رہا ہے۔ سوڈانی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ ابئی کے مستقبل کا تعین کرنے کا معاملہ موخر کردیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی کوششیں ناکامی سے دوچار رہی ہیں۔ جنوبی سوڈان کے باشندے ابئی کے معاملے میں تاخیری حربے اختیار کیے جانے پر خاصے مشتعل دکھائی دیتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ابئی کے مستقبل کا فیصلہ بر وقت نہ ہوا تو ملک میں ایک بار پھر خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔

۲۰۰۵ء سے اب تک سوڈان میں مجموعی طور پر صورت حال پرامن رہی ہے تاہم اس دوران فریقین نے زیادہ سے زیادہ اسلحے کے حصول پر توجہ دی ہے۔ جنوبی سوڈان کا حکمراں طبقہ یوکرین سے زیادہ سے زیادہ اسلحہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے جرنیل زیادہ سے زیادہ آرام پسند ہوتے گئے ہیں۔ انہوں نے عسکریت پسندوں کی بہتر تربیت پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسی بڑی لڑائی کی صورت میں ان عسکریت پسندوں کو لڑانا بھلے ہی ممکن نہ ہو، منتشر کرنا کوئی بڑا درد سر ہرگز نہ ہوگا۔ جنوبی سوڈان کے قبائلی علاقوں دنکا، مرلے اور نوئر میں کشیدگی کو جواز بناکر مرکزی حکومت نے ریفرنڈم موخر کرنے کی کوشش کی تھی تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

سوڈانی حکومت کو اسلحے کے فروخت میں چین پیش پیش رہا ہے۔ ایسا کرنے میں اس کا مفاد نمایاں تھا۔ چین کو اپنی معیشت کا پہیہ چلتا رکھنے کے لیے توانائی کی اشد ضرورت ہے۔ سوڈان سے تیل درآمد کرنا چین کے مفاد میں تھا۔ اس نے سوڈان کے حالات کی پروا کیے بغیر عمر البشیر کی حکومت کی حمایت جاری رکھی۔ اب چین پیچھے ہٹتا جارہا ہے۔ چین جس قدر تیل درآمد کرتا ہے اس کا صرف ۶ فیصد اب سوڈان سے آتا ہے۔ یوگنڈا میں لیک البرٹا اور کانگو میں تیل کے نئے ذخائر کا پتہ چلا ہے۔ اب چین چاہے گا کہ ان علاقوں میں زیادہ سرمایہ کاری کی جائے جہاں تیل پایا جاتا ہے تاکہ اس کی معیشت کو تیل آسانی سے ملتا رہے۔ لیک البرٹا سے جنوبی سوڈان ہوتے ہوئے ۱۴۰۰ کلومیٹر (۸۷۰ میل) کی تیل پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ یہ پائپ لائن کینیا میں لامو کے مقام پر بنائی جانے والی بندرگاہ پر ختم ہوگی۔ چین ریلوے ٹریکس اور سڑکوں کی تعمیر کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ چین تجارتی ذہن سے سوچتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جنوبی سوڈان کی آزادی کی راہ میں وہ حائل نہ ہو کیونکہ اس سے بظاہر اس کے مفادات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو رہا۔ اس معاملے میں چین اور امریکا قدرے ہم آہنگی کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۱۳ نومبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*