ابویوسف دہوک کی عمر ۶۰ سال ہے، مگر وہ ۷۵ یا ۸۰ سال کے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ وہ ایک بدو ہیں، جو لوہے اور شیٹس کو باندھ کر بنائی گئی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ۱۲۰ بکریاں ہیں، جو اُن کے ۱۷ بچوں کی ملکیت ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوجی اور پولیس کے سپاہی ان سے چند سو فٹ دور کھڑے ہیں اور ان کی جھونپڑی کو مسمار کرکے انہیں وہاں سے بھگانے کے لیے تیار ہیں۔
اس فلسطینی کی دو بیویاں تھیں، جن میں سے ایک ۱۸ برس قبل انتقال کرگئی جبکہ دوسری بیوی نے انتہائی گرم صبح میں ہماری گرم گرم چائے سے تواضع کی۔ انہیں اپنی چراگاہ سے تین مرتبہ نکالا گیا۔ پہلی مرتبہ اسرائیلی قصبے بیر شیوا کے قریب واقع ٹیل ارض سے، دوسری مرتبہ ۱۹۶۷ء میں مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے بعد اور پھر ۱۹۷۴ء میں۔
اب اسرائیلی ہائی کورٹ آف جسٹس نے جہالین قبیلے کے ۱۸۰؍افراد کو اپنے گھروں سے محروم کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ انہیں اب کوڑے کے بڑے ڈھیر کے قریب ابودیس میں جانا ہوگا، مگر یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کی اجازت سے ان گھروں کی مسماری کے بعد اسرائیلی مکینوں کو شاہراہ کے اور قریب شفٹ ہونے کا موقع مل جائے گا اور اس طرح یروشلم کو جانے والی شاہراہ کے ساتھ ساتھ واقع فلسطینیوں کے آخری دیہات کو تباہ کیا جاسکے گا۔ اس طرح شہر کے گرد کنکریٹ کا ایک اور سرکل مکمل کیا جاسکے گا۔
ابویوسف بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ ’’نئے مکانات کی تعمیر جاری رہے گی اور پھر وہ ہمیں یہاں سے نکال باہر کریں گے۔ اب ہمیں اپنی بکریوں کے ساتھ عقب میں واقع وادی میں جانے کی اجازت نہیں ہے، اگر گئے تو یہودی آبادکار ہماری بکریاں چھین لیں گے۔ ہمیں اپنے مکان تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے ہم یہ دھاتی پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہیں، جبکہ آبادکار اپنے عالیشان گھر بنا سکتے ہیں جن میں بجلی، پانی اور باغیچہ بنانے کی سہولت بھی ہے اور ہم موسم سرما میں بھی اپنے لیے کچھ نہیں بنا سکتے۔ ہم اس دھاتی ڈھانچے کے اوپر پلاسٹک ڈال لیتے ہیں، تاکہ سوتے ہوئے پانی ہمارے اوپر نہ گرے‘‘۔
ابویوسف شاید خان الاحمر میں بھی زیادہ عرصہ نہیں سوسکے گا، کیونکہ فلسطینی اتھارٹی نے بھی اب تک ان بدوؤں کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھایا۔ فلسطینی کارکنوں سے لدی دو گاڑیاں وہاں پہنچیں جن کے ہاتھوں میں کیمرے تھے اور انہوں نے اس شاہراہ کو بلاک کرنے کی کوشش کی، جو محض ایک رسمی کارروائی نظر آتی تھی۔
اسرائیلی پولیس کے مرد و خواتین اہلکار اس شاہراہ ٹرانس سماریہ ہائی وے کو کھلا رکھنے کی کوشش میں مصروف تھے، جس کے اوپر پولیس سے زیادہ کیمرے نصب تھے، پھر سادہ لباس میں پولیس اہلکار اپنے کیمروں سمیت پہنچ گئے اور دھڑا دھڑ فلمیں بنانا شروع کر دیں۔ ان کیمروں کی زَد سے صرف وہاں موجود بوڑھے چرواہے اور ان کے بچے ہی محفوظ رہے، جو اس شاہراہ کے شمال میں کھدی ہوئی فرنٹ لائن خندق کے عقب میں کھڑے تھے۔ مغربی کنارے کی طرز پر ہونے والے ایسے اسٹیج ڈرامے ہم پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ اب یہ معمول کی کارروائی لگتی ہے۔
دو نیوز ایجنسیوں کے رپورٹر ایک ہی وقت میں روانہ ہونے پر آمادہ ہوگئے تاکہ پولیس کے حرکت میں آنے کی صورت میں دوسرے رپورٹر کو اپنی خبر اسکوپ کرنے کا موقع نہ ملے، مگر پولیس نے کوئی حرکت نہیں کی۔ کچھ چرواہے، سڑک کے قریب کھڑے نعرے لگا رہے تھے ’’فری فلسطین، فری فلسطین‘‘ پھر اسرائیلی بلڈوزر اس وادی سے پیچھے ہٹ کر شاہراہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
یورپی پارلیمنٹ میں خان الاحمر کے بارے میں بہت بحث و تکرار کے بعد اس نے یہ وارننگ جاری کی کہ اگر ان چرواہوں کے گھروں کو گرایا گیا تو اسرائیلی اہلکار جنگی جرائم کے مرتکب سمجھے جائیں گے۔ اس نے ۲۲۷ کے مقابلے میں ۳۲۰ ووٹوں سے ایک قرارداد پاس کی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل تمام نقصان کی تلافی کرے۔ یورپی یونین میں شامل ممالک خان الاحمر کو انسانی بنیادوں پر مالی امداد فراہم کر رہے ہیں، جن میں ایک پرائمری اسکول بھی شامل ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر گھروں کو مسمار کیا گیا یا یہاں کے مکینوں کو زبردستی یہاں سے نکالا گیا تو یہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔ بالفاظ دیگر فورتھ جنیوا کنونشن کے تحت یہ ’’جنگی جرم‘‘ کہلائے گا۔
یورپی یونین کی فارن پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے پارلیمان کے ارکان کو بتایا کہ خان الاحمر کی تباہی سے ’’فلسطینی ریاست کے قابل عمل ہونے اور اس طرح دو ریاستی حل کی کوششوں کو شدید دھچکا لگنے کا امکان ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ فلسطینی شہریوں کے لیے مغربی کنارے کے ایریا سی میں گھر تعمیر کرنے کی اجازت لینا ناممکن ہے۔ اس طرح اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ چرواہوں نے اپنی جھونپڑیاں غیر قانونی طور پر بنا رکھی ہے، خود بخود اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ ایریا سی مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے، اس لیے یہودی آبادکار کہتے ہیں کہ اسے فوری طور پر اسرائیل میں ضم کرلیاجائے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے کے ۶۰ فیصد پر مشتمل ہے۔ آخر اسرائیل دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والوں کو ان توسیع پذیر یہودی بستیوں میں آکر آباد ہونے کی حوصلہ افزائی کیوں کر رہا ہے؟
ابویوسف بلاشبہ سو سال قبل ہونے والے بَیلفور ڈیکلریشن اور اس کے تحت فلسطین کے غیر یہودی باشندوں کے تحفظ کے جھوٹے وعدوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ اس کی خستہ حال جھونپڑی میں بیٹھے ہوئے، میں نے اور میرے ساتھیوں نے عرصہ پہلے مر جانے والے برطانوی وزیر خارجہ کی طرف سے معذرت کی۔ جلد بے گھر ہونے والے بدو نے کہاکہ ’’تم نے ہی یہ مسئلہ پیدا کیا ہے۔ تم جانتے ہوکہ اگر انہوں نے ہمیں اردن کی طرف مزید دھکیلا تو اس سے یہاں مختلف گروہی تنازعات جنم لیں گے۔ تمہیں بیلفور کی طرف سے معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ ایک پائپ سے لیک کرنے والے پانی کی طرح ہے تمہیں چاہیے کہ اپنے بدتمیز بچے اسرائیل پر دباؤ ڈالو کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے۔ ہم نے ۲۵ سال قبل اوسلو میں امن کا دامن اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور ہم ابھی تک اس سے پیچھے نہیں ہٹ رہے‘‘۔
اس نے بتایا کہ وہ یو این ریلیف اینڈ ورک ایجنسی سے خوراک اور ادویات لیا کرتا تھا، مگر اب امریکا نے اس کی فنڈنگ بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب ہمیں کچھ نہیں ملتا اور ہم کتنی مرتبہ اس توہین آمیز سوال کا سامنا کریں؟ میں نے ابویوسف سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی فلسطینی ریاست میں رہے گا۔ اس نے کہاکہ جہاں تک میرا خیال ہیں میں تو نہیں، اپنی زندگی میں تو نہیں۔ اوسلو معاہدے کو ہوئے ۲۵ برس بیت گئے ہیں اور ابھی تک کچھ نہیں بنا، اگر لیڈر تبدیل ہو جاتے تو شاید کوئی راہ نکل آتی۔ ہم ایمان دار لوگ ہیں، سیاست دان نہیں، مگر زندگی نے ہمیں بہت کچھ سکھا دیا ہے‘‘۔
یقیناً موغیرینی کو یہاں آکر اس آدمی سے بات کرنی چاہیے۔ فلسطینی ریاست کے وجود کو دھچکے والی بات کو تو چھوڑ ہی دیں، اب کون فلسطینی ریاست کی بات پر یقین کرسکتا ہے۔ اس کا وجود اتنا ہی محفوظ ہے، جتنی اس غریب آدمی کے سر پر تنی ہوئی پلاسٹک شیٹ۔ اس کا وجود محض اب ایک داستان ہے، جس کی حقیقت اب یورپی یونین کی اسٹراسبرگ قرارداد میں موجود ہے۔ بکریاں بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں۔
“After meeting Bedouins whose homes are being destroyed, I can’t see how a Palestinian state can ever happen”.(“independent” … 21 September 2018 )
Leave a Reply