
افغانستان کی صورتحال اُس وقت زیادہ خراب ہونا شروع ہوئی، جب سے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے یہاں سے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ اور طالبان رہنما کے درمیان ہونے والی ملاقات کو خطے میں، چین کے اثر و رسوخ میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے Janka Oertel اور Andrew Small کے درمیان ہونے والی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔
Janka Oertel: افغانستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتائیے۔۔؟
Andrew Small: افغانستان کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔طالبان نے ملک کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا ہے اور تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ امریکا طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکا یہ سلسلہ کب تک جاری رکھتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ طالبا ن اب کسی امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔طالبان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر انہیں مخلوط حکومت تشکیل دینا پڑی تو وہ اس میں اپنا ایک بڑا حصہ رکھیں گے۔
اس وقت افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی تعداد میں شہری ملک سے ہجرت کر رہے ہیں۔
Janka Oertel: اس صورتحال میں چین کا کیا کردار ہے اور وہ کس طرح اس مواقع سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔؟
Andrew Small: چین کو اندازہ ہے کہ وہ اس وقت فغانستان سے کسی اہم نوعیت کا فائدہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔افغانستان میں امریکا کی موجودگی کو جیوپولیٹیکل تناظر میں دیکھنا چاہیے۔جیساکہ سوویت یونین کی موجودگی کو دیکھا جاتا رہا۔
چین اپنے ملک میں اسلامی عسکریت پسندوں کو کچلنے او ر انہیں پیچھے دکھیلنے میں کامیاب رہا ہے۔ چین نے ان تمام نمایاں عسکریت پسندوں کا اپنے ملک سے خاتمہ کردیا یا انہیں حراستی مراکز میں قید کر دیا جس کے متعلق اسے خدشہ تھا کہ وہ امریکا کی ایما پر دہشت گردانہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ چین اس وقت کئی پہلوؤں سے موجودہ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ افغانستان چین کے عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکتاہے۔چین پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ملابرادر اور چین کے وزیر خارجہ کے درمیان حال ہی میں ہونے والی ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔طالبا ن اور چین کے درمیان کئی برسوں سے رابطے ہیں۔اگرچہ چین، طالبان کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن اسے طالبان کی سیاسی قوت کا اندازہ ہے۔چین چاہتا ہے کہ طالبان دیگر سیاسی قوتوں سے مل کر سیاسی معاملات آگے بڑھائیں اور کسی قسم کے انتقام سے گریز کریں۔ دوسری طرف چین طالبان کی کامیابیوں سے خائف بھی ہے کہ کہیں وہ اس کے لیے خطرہ اور مشکلات کا باعث نہ بن جائے۔لیکن اسے یہ اندازہ ہے کہ سیاسی طاقتوں سے کشیدہ تعلقات اس کے مفاد میں نہیں ہے۔
Janka Oertel: چین کے افغانستان میں معاشی حوالوں سے کیا مفادات ہیں۔۔؟
Andrew Small: چین کے افغانستان میں غیر معمولی نوعیت کے معاشی مفادات وابستہ نہیں ہیں۔ اگرچہ اس نے یہاں کوئلے کی کان اور توانائی کے شعبوں میں کچھ سرمایہ کاری کی ہے لیکن افغانستان کو BRT میں شامل کرنے کے حوالے سے اسے تحفظات رہے ہیں،اب بھی وہ افغانستان میں امن کے قیام سے پیشتر کسی غیر معمولی سرمایہ کاری سے گریزاں ہے۔ چین پاکستان میں اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں کے بعد، اس وقت افغانستان میں کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا۔
Janka Oertel: موجودہ صورتحال کا خطے میں،چین کے دہشت گردی کے حوالے سے بیانیے سے کیا تعلق ہے؟
Andrew Small: اس پورے منظر نامے میں بظاہر چین کابراہ راست تعلق نظر نہیں آتا۔ اس وقت چین کسی بیرونی دہشت گرد نیٹ ورک کا ہدف نہیں ہے۔چین میں ہونے والی تخریبی کارروائی اس کی اپنی سرزمین ہی سے ہوتی ہیں۔ پڑوسی ممالک سے چین کی سرزمین پر کسی مداخلت یا دہشت گردانہ کارروائی کا ثبوت نہیں ملتا۔ تاہم، وسطی ایشیا اور پاکستان کی صورتحال کا اثر چین پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے تاجکستان،افغانستان سرحد پر اپنی فوج کو تعینات کر رکھا ہے۔چین شمالی تاجکستان اسلامی تحریک اور اویغور عسکریت پسندوں کی جانب سے ممکنہ کسی بھی کارروائی سے خاصاپریشان ہے۔شام کی جنگ میں شمالی تاجکستان اسلامی تحریک ایک طاقتور گروہ کی حیثیت سے ابھری، اس کی افغانستان میں موجودگی کے شواہد بھی موجود ہیں۔ طالبان چین سے کسی قسم کا بھی معاہدہ یا وعدہ کریں تب بھی چین، سنکیانگ کے حوالے سے خائف ہے۔
Janka Oertel: موجودہ صورتحال میں جبکہ ایک بڑی تعداد افغانستان سے ہجرت کررہی ہے،کیا یورپ اس موقع پر چین کے ساتھ مل کر اس عالمی المیے کے تدارک کے لیے کام کرے گا۔۔؟
Andrew Small: یہ حقیقت ہے، افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کی بنا پر بہت بڑی تعداد میں مہاجرین اس طرف رخ کریں گے۔جیسا کہ ماضی میں ہوا۔ترکی میں پہلے ہی مہاجرین کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔ افغانستان سے چین اور یورپ کا براہ راست تعلق نہیں بلکہ امریکا کے مفادات وابستہ ہیں۔ چین افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا خواہاں ہے۔ چین کا سب سے قریبی حلیف پاکستان ہے،جس کے ساتھ طالبان کے گہرے تعلقات ہیں۔آنے والی صورتحال میں چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دوطرفہ تعلقات پر زور دے گا۔ایسے موقع پر مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے یورپ کو چین کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اس حوالے سے یورپ کے ساتھ کام کرنے پر بظاہر آمادہ نہیں ہے۔
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“After the withdrawal: China’s interests in Afghanistan”. (“ecfr.eu”. August 5, 2021)
Leave a Reply