
لبنانی وزیر صنعت پیری جمائیل کے قتل کے بعد امریکی و اتحادی ممالک کو توقع تھی کہ حزب اللہ دفاعی پوزیشن پر آجائے گی لیکن سید حسن نصراللہ نے لبنانی وزیراعظم فواد سینیورا کے خلاف مہم کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بیروت کے مرکزی علاقے میں زبردست دھرنے کا اہتمام کرکے امریکی و اتحادی توقعات کو خاک میں ملادیا۔ لبنانی دارالحکومت کے مرکزی علاقے میں دھرنا دینے والے کم و بیش دس لاکھ لبنانی باشندوں نے تادم تحریر وزیراعظم فواد سینیورا کے دفتر کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے اور وہ ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
حزب اللہ کے دھرنے سے سب سے زیادہ تکلیف امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کوہوئی ہے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ ایک منتخب حکومت اور منتخب وزیراعظم کو گرانے کی کوشش کررہی ہے جس پر اسے تشویش ہے حزب اللہ کا موقف ہے کہ وزیراعظم فواد سینیورا دراصل مغربی ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں اور ان کے متعدد اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک میں امریکی و مغربی عنصر کو بڑھنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ امریکی نائب ترجمان ٹام کیسے کا کہنا ہے کہ امریکا فواد سینیورا کی حمایت کرتا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ماہ نومبر کے آغاز میں حزب اللہ کے وزرانے وزیراعظم فواد سینیورا کی جانب سے سباق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل پر اقوام متحدہ کے ٹریبونل کو ملک میں قیام کی اجازت دینے پر بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا اور وزیراعظم سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ حزب اللہ ایک ملیشیا ہے جو منتخب عبوری حکومت کو گرانا چاہتی ہے جبکہ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ جب وہ اسرائیلی حملے کے خلاف ملک لبنان کا دفاع کرسکتی ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ مغربی اور امریکی لائن پر چلنے والی لبنانی حکومت کو گرا کر ایک ہم خیال قومی حکومت بنائے۔
ادھر معروف برطانوی جریدے دی گلوب اینڈ میل کے نمائندے مارک میک کینن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مغربی ممالک حزب اللہ سے مقابلے کے لیے ایک مسلح ملیشیا کے قیام کے لیے لبنانی حکومت کی امداد کررہے ہیں تاکہ حزب اللہ کا توڑ کیا جاسکے۔ مارک میک کینن کا دعویٰ ہے کہ اس کام میں لبنانی حکومت کی امداد کرنے والوں میں مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ خلیج فارس کی کئی عرب ریاستیں بھی تعاون کررہی ہیں۔ اس نئی ملیشیا میں زیادہ ترحزب اللہ مخالف لبنانی مسلمانوں اور عیسائی دھڑوں کو شامل کیا جائے گا تاکہ حزب اللہ‘ شام اور ایران کا جم کر مقابلہ کیا جاسکے۔
لبنانی وزیراعظم فواد سینیورا کی کابینہ کے ایک سینئر رکن سے بات کا دعویٰ کرتے ہوئے دی گلوبل اینڈ میل کے رپورٹر مارک میک کینن کا موقف ہے کہ حزب اللہ کے دھرنے سے قبل مغرب کی حامی فواد سینیورا کی سرکار نے خفیہ طور پر آٹھ ہزار مسلح سپاہی بلوا کر بیروت میں تعینات کئے ہیں۔ فواد سینیورا حکومت کے سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے مقابل مسلح ملیشیا کے قیام کی کوشش ۱۷ ماہ قبل شروع ہو چکی تھیں۔ ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ جب تک مغرب وزیراعظم فواد سینیورا کی حمایت کرتا رہے گا ان کی سرکار مضبوط رہے گی۔ اس لیے فواد سینیورا نے مغربی ممالک سے کہا ہے کہ وہ ۲۴ ہزار افرادی قوت والی مسلح ملیشیا کا قیام جلد از جلد عمل میں لائیں تاکہ وہ حزب اللہ سے نمٹ سکے۔
دی گلوب اینڈ میل کا کہنا ہے حزب اللہ کو ایک طویل عرصے سے ایران اور شام مالی و مسلح امداد فراہم کررہے ہیں اس بات کا ادراک کرنے کے بعد وزیراعظم فواد سینیورا اور ان کے اتحادی امریکا ‘ فرانس اور کئی مغربی ممالک اور چند عرب ریاستوں نے ۲۰۰۵ء کی ابتدا سے ہی ’’طاقت کا توازن‘‘ برقرار رکھنے کے لیے ایک مسلح ملیشیا کے قیام کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ دی گلوب کا دعویٰ ہے کہ اس نئی ملیشیا میں سنی مسلمانوں کو آگے رکھا گیا ہے تاکہ شیعہ اکثریتی حزب اللہ کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ سنی مسلمان مغربی ممالک کے حامی فواد سینیورا کے حامی ہیں جبکہ شیعہ مسلمان حزب اللہ میں شامل ہیں لیکن عیسائی عوام کی اکثریت اس وقت خاموش ہے۔
اخبارنے لکھا ہے کہ ۲۰۰۵ء میں جب سے لبنان سے شامی افواج کا انخلاء ہوا ہے امریکی اور فرانسیسی حکام نے ایک نئی فورس کو تربیت اور اسلحہ دینا شروع کردیا ہے۔ یہ نئی فورس Internal Security Force کہلاتی ہے اور ابھی چند ہفتے پہلے ہی متحدہ عرب امارات نے اسے کئی ہزار رائفلیں اور ایمونیشن بطور تحفہ دیا ہے۔
اخبار نے ایرانی اور عرب مسلمانوں کو آپس میں مخالف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستیں خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و نفوذ کی مخالف ہیں۔ وزیراعظم فواد سینیورا کی کابینہ کے اہم وزیر احمد فتفات کا کہنا ہے کہ اس نئی ملیشیا کو مصر‘ سعودی عرب اور کویت کے انٹیلی جنس کے شعبے حزب اللہ کے خلاف خفیہ معلومات فراہم کررہے ہیں۔
برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ اس نئی ملیشیاکے اراکین کو وزیراعظم فواد سینیورا کے خلاف حزب اللہ کی ممکنہ کارروائیاں روکنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے برطانو ی اخبار کے نمائندے مارک میک کینن نے لکھا ہے کہ اس ملیشیا کو حزب اللہ کے دھرنے کے دوران وزیراعظم ہائوس اور خصوصاً’’ریاض السہل‘‘ کے علاقے میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ملیشیا لبنانی فورسز کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جارہی ہے جس نے سپاہیوں کو “Panther” کہا جارہا ہے اور ان کی یونیفارم گہری نیلی اور اسلحہ انتہائی جدید ہے۔
برطانوی اخبار نے ریگولر لبنانی فورس اور فوج کو ’’بیکار‘‘ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی بداعتماد بھی۔ کیونکہ اسے لبنانی خانہ جنگی کے دور میں بنایا گیا تھا لیکن نئی ملیشیا کی تربیت میں مغربی ممالک نے بہت بھاری کام کیا ہے۔
حزب اللہ سے مقابلے کے لیے نئی مسلح ملیشیا کو امریکی امداد کے حوالے سے دی گلوب اینڈ میل نے لکھا ہے کہ امریکی حکام فواد سینیورا کی قیادت میں لبنان کو اپنے ’’نئے مشرق وسطیٰ‘‘ کا اہم ملک قرار دیتے ہوئے شاید اس لیے نئی ملیشیا کے قیام کے لیے امریکی سرکار نے حزب اللہ /اسرائیل مناقشت سے قبل ۱۵ لاکھ ڈالر کی امداد دی تھی جبکہ امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن/ایف بی آئی نے ملیشیا کے اراکین کو ’’تربیت‘‘ دی تھی اس امداد کے ساتھ واشنگٹن نے مزید امداد کا وعدہ بھی کیا تھا۔
مارک میک کینن کا کہنا ہے کہ اب تک یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ مزید امداد فراہم کی گئی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ بات ضرور پتا چلی ہے کہ نئی ملیشیا کے پاس ۳ کروڑ ڈالر مالیت کے حساس آلات موجود ہیں۔ مارک کا کہنا ہے کہ نئی ملیشیا اب عیسائی اور شیعہ ملیشیا کی جاسوسی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکن یونیورسٹی بیروت کے پروفیسر شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن تیمور گوکسل کا کہنا ہے کہ لبنانی پولیس پر اب کوئی اعتماد نہیں کرتا یہ ایک فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم فورس ہے۔ اس لیے نئی ملیشیا کا قیام اہمیت کا حامل ہے۔
دوسری طرف ایک فوجی و دفاعی تجزیہ نگار اور سابق جنرل امین مطط کا کہنا ہے کہ نئی ملیشیا ایک ثانونی حیثیت کی فوج ہوگی جس میں ۱۲ ہزار سپاہی شامل کیے گئے ہیں جو لبنان کی ۶۳ ہزار فوج کے مقابلے میں ثانوی فورس ہے انھوں نے انکشاف کیا کہ اس نئی ملیشیا میں شیعہ مسلمان بھی ہیں جو ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں، نئی فورس لبنانی حکومت اور اس کی تنصیبات کو بچانے پر مامور ہے۔ سابق جنرل کا کہنا ہے کہ نئی ملیشیا کے اراکین کا کام حزب اللہ کے دھرنا دینے والے مظاہرین کو قابو کرنا ہے جیسا کہ ماہ اکتوبر کے وسط میں مظاہرین کو اس نئی ملیشیا نے فائرنگ کرکے قابو کیا تھا اس واقعے میں دو بچوں سمیت ۱۲ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حزب اللہ کے دھرنا دینے والے لاکھوں کارکنوں میں سے ایک خاتون سیدہ علی ناجی کا کہنا ہے کہ نئی ملیشیا نے فائرنگ کرکے میرے بارہ سالہ بیٹے کو قتل کیا تھا میں آج بھی مظاہرے میں شریک ہوں اور نئی ملیشیا کی طرف سے کسی بھی اقدام کی توقع رکھتی ہوں۔ وہ جب اور جو چاہے گی کرسکے گی لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔
امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے بیروت میں حزب اللہ کے مظاہرے کے حوالے سے لکھا ہے کہ لاکھوں افراد جن میں بچے‘ بوڑھے‘ جوان اور خواتین شامل ہیں سخت سردی میں مظاہرہ کررہے ہیں یہ لوگ اپنے ساتھ اشیائے ضروری لے کر آئے ہیں۔ وادی بقا سے آنے والے اک پرجوش خاندان نے کہا کہ ہم بہت خوش اور پرامید ہیں کہ مغرب نواز حکومت کا خاتمہ ممکن ہوگا ہمیں یہاں بہت مزاآہا ہے۔ عالمی ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جنوری ۲۰۰۷ء میں پیرس میں ڈونر کانفرنس پر برا اثر پڑے گا جس میں لبنان کی تعمیرنو کے حوالے سے فیصلے کیے جانے ہیں۔
باالفاظ دیگر مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر فوادسینیورا کی حکومت گرائی گئی تو پھر حزب اللہ والے اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ لبنان کی تعمیر نو کے لیے ڈونرز کانفرنس کسی قسم کی مالی امداد دے گی۔ فلسطین کی اس سلسلے میں کافی روشن مثال موجود ہے۔ جہاں حماس کے برسراقتدار آتے ہی مغربی ممالک اور امریکا نے امداد بند کردی ہے۔
ادھر لبنانی روزنامے ’’اسٹار‘‘ نے اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ وزیراعظم فواد سینیورا کی حکومت کے خلاف حزب اللہ کے مظاہرے اور گھیرائو کی خبر پاکر سعودی بادشاہ ‘ شاہ عبداللہ نے انھیں فون کرکے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے اور کہا ہے کہ آپ ڈٹے رہیں‘ سعودی عرب آپ کی پشت پر موجود ہے دوسری طرف اردنی شاہ عبداللہ دوم نے بھی فواد سینیورا کی حمایت کا یقین دلایاہے اور لبنانیوں سے متحد رہنے کی اپیل کی ہے۔
ملاحظہ کیجیے: http:www.daily star.com
عالمی مبصرین اور لبنانی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کا حالیہ اقدام اس کی طرف سے لبنان کو مغربی بلاک میں جانے سے روکنا ہے جبکہ وزیراعظم فواد سینیورا حزب اللہ کے مقابل طاقت کا توازن چاہتے ہیں جس کے لیے وہ مغربی امداد کو اہم سمجھتے ہیں لیکن اس مناقشت کا سارا فائدہ اسرائیل کو ہوگاجس کی انٹیلی جنس مغربی اثر ورسوخ کی آڑ میں لبنان میں گھس چکی ہے امریکا چاہتا ہے کہ پیری جمائل کی موت کے بعد حزب اللہ کو ایک جھٹکا ضرور دیا جائے سو وہ اس کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’اُمت‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۳ دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply