اپنی صدارت کے دوسرے دور کے آغاز کے موقع سے خطاب کرنے سے پہلے صدر بش کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ روز ویلیٹ‘ چرچل اور ٹرومین میں کیا بات قدرِ مشترک تھی؟ وہ کیا خوبی تھی جس نے انہیں تاریخ کی عظیم شخصیت میں تبدیل کر دیا۔ اگرچہ ان عظیم شخصیات میں سے ہر ایک پر بے شمار عالمانہ کتابیں تصنیف کی گئی ہیں لیکن اس کا جواب بہت مختصر ہے اور وہ یہ کہ ان شخصیات نے تاریخی رخ اور اعتماد کا حوصلہ بخش احساس نمایاں کیا اور جب کبھی انہیں کسی تاریخی چیلنج کا سامنا ہوا تو یہ اپنے سیاسی حریفوں کے پاس بھی جا حاضر ہوئے تاکہ وہ مشترک مقاصد کے لیے مل جل کر کوئی عہد کریں۔ اپنے دشمنوں کے برعکس یہ خوف و ہراس پیدا کرنے کے عمل میں مصروف نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی سستے نعرے بازی میں یہ مگن ہوتے تھے اور یہی وہ خصوصیت تھی جس نے انہیں آزاد دنیا کے جمہوری رہنمائوں کی صفِ اول میں لاکھڑا کیا۔ آج بھی گذشتہ صدی کی مانند دنیا کو پھر سے امریکا کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکا کو بھی دنیا کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر دنیا کبھی بھی پہلے سے زیادہ پرسکون یا خوشحال اور جمہوری نہیں ہو سکے گی اگر امریکا اپنے آپ کو تنہا کر لیتا ہے اور بالخصوص اپنے روایتی یورپی حلیفوں سے منہ پھیر لیتا ہے جن کے ساتھ اس کا بنیادی جمہوری اقدار پر حقیقی اشتراک ہے۔ نہ ہی امریکا پہلے سے زیادہ محفوظ رہ سکتا ہے اگر یہ اپنے آپ کو ایک دشمن دنیا میں واقعہ تنہا قلعہ کے طور پر تبدیل کر لیتا ہے۔ ایک تضاد امریکا کو پریشان کیے ہوئے ہے وہ یہ کہ ایک طرف یہ دنیا کا سب سے طاقتور ترین ملک ہے اور دوسری طرف امریکی قوم گیارہ ستمبر کے بعد سے سب سے زیادہ خوف زدہ قوم ہے۔ اگرچہ دوسرے ممالک بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے لیکن کسی بھی ملک نے دہشت گردی کے شاذ واقعہ کو قومی تشویش و فکرمندی کا درجہ نہیں دیا۔ امریکا کی جانب سے مبہم ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو اپنا اصل مشن قرار دینے میں یہ خطرہ پوشیدہ ہے کہ تمام متعصب مذہبی‘ سیاسی اور لسانی گروہ امریکا کے خلاف متحد نہ ہو جائیں۔ اس خطرے کا امکان اسلام سے وابستہ گروہ کی جانب سے بہت زیادہ ہے‘ جو تنہائی سے دوچار امریکا کی نفرت میں سرگرم ہوں گے۔ صدر بش اس خطرے سے ہوشیار ہیں جیسا کہ انہوں نے ۴ اگست کو فرمایا کہ ’’درحقیقت ہم نے دہشت گردی کے جنگ کو غلط نام دے دیا ہے۔ اس کا نام ’’نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد‘‘ ہونا چاہیے جو آزاد معاشرے میں یقین نہیں رکھتے‘‘۔ اور ان کا یہ خیال مطلقاً درست ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ جدوجہد صرف فوجی طریقے سے نہیں ہونی چاہیے بلکہ سیاسی طور سے بھی ہونی چاہیے‘ جمہوری ریاستوں کے ایک عظیم اتحاد کی تشکیل کے ذریعہ۔ اوپر کی گفتگو سے ایک مرکزی اور اسٹراٹیجک نوعیت کی ترجیح ابھر کر سامنے آتی ہے اور وہ ترجیح صرف یہ ہے کہ امریکا اور یورپ اتحاد کو پھر سے زندہ اور متحرک کیا جائے۔ یہ یادگار اتحاد باہمی تعاون پر مبنی عالمی انتظامات کا ایسا جال بچھائے جو نظریاتی انتہا پسندوں کو جن کا آزاد معاشروں پر یقین نہیں ہے‘ پہلے تنہائی سے دوچار کر دے اور پھر انہیں شکستِ فاش دے دے۔ صرف امریکا اور یورپی یونین کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ مسلمانوں‘ چینیوں‘ ہندوستانیوں اور کچھ دوسرے گروہ جو تاخیر سے سیاسی طور پر بیدار ہوئے ہیں‘ پر مشتمل تقریبا ۵ ارب آبادی کو تعمیری کاموں میں مصروف رکھنے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی وقار کے طالب ہیں اور جو عالمی عدم مساوات سے پوری طرح باخبر اور اس پر بری طرح خفا ہیں اور جنہیں نظریاتی انتہا پسند اپنا حامی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ مشن ہے جس کی قیادت صرف امریکا جیسا پُراعتماد ملک ہی کر سکتا ہے‘ ایک بار پھر یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہمیں اپنے آپ سے خوف کے علاوہ اور کسی کا خوف لاحق نہیں ہے۔ نوعِ انسانی کی اکثریت کی سیاسی بیداری نے ۲۱ویں صدی کا ایجنڈا ایک بنیادی انتخاب کو قرار دیا ہے یعنی عالمی بے چینی یا عالمی برادری۔ دہشت گردی اس بے چینی اور شورش کی صرف ایک علامت ہے۔ امریکا بہت ہی المناک طریقے سے خود اپنی شکست کا سامان کرے گا اگر اس نے اپنے عالمی رول کو محض دہشت گردی کے خلاف کارروائی تک محدود کر لیا۔
اس طرح کی سطحی مصروفیت کا وہ ریاستیں استحصال کریں گی جو امریکا کو بحیثیتِ مجموعی اسلام کے ساتھ ایک طویل جنگ میں الجھا دینا چاہتی ہیں۔ عالمی بے چینی و شورش کو دور کرنے کے لیے ایک جامع کوشش کی جانی چاہیے اور اس کا آغاز مشرقِ وسطیٰ کے گرداب سے ہونا چاہیے۔ یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا ان مہلک خطرات کا تنہا مقابلہ کر سکتا ہے جو فلسطین و اسرائیل المیے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں‘ اور جو عراق پر حملے اور ایران کے قوی عزائم کی پیدا کردہ ہیں‘ ان تمام مسائل پر یورپی یونین کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امریکا کا فطری حلیف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ یکجہتی کے عزمِ نو کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز انتہائی مخلصانہ اور سنجیدہ امریکا یورپ اسٹراٹیجک ڈائیلاگ سے ہونا چاہیے جس میں مشترکہ سیاسی اہداف پر گفتگو ہونی چاہیے۔ اس ڈائیلاگ کا مقصد متفقہ فیصلے لینا ہو اور باہم ایک دوسرے کے بوجھ کو بانٹنا ہو۔ پوری دنیا بحیثیتِ مجموعی ایک صدائے لازمی کی منتظر ہے جو امریکا کے لیے عالمی رول کا تعین کرتا ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک مشترکہ ویژن کی نمود کا سبب ہو جو قوتِ محرکہ کا کام کرے‘جو تاریخی اعتماد عطا کرے‘ جو ساکھ کو پھر سے بحال کر دے اور اتفاقِ رائے کا دائرہ وسیع کر دے۔
روز ویلیٹ‘ چرچل اور ٹرومین ایک مرحلے پر سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بہت ہی زیادہ منقسم تھے اور ذاتی طور پر ان کی شخصیتیں ناپسندیدہ تھیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھے‘ جب تقدیر کے ساتھ ان کا تباہ کن اور قیامت خیز مقابلہ ہوا۔ لہٰذا ہمیں پُرامید رہنا چاہیے۔
(بشکریہ: ’’نیوزویک‘‘۔ اسپیشل ایڈیشن۔ دسمبر ۲۰۰۴ء تا فروری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply