
گزشتہ برس ۱۱؍فروری ۲۰۱۱ء کو حسنی مبارک کے صدارت چھوڑنے کے بعد کے حالات و معرکوں میں متعدد اصطلاحات بار بار ابھرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام پسند ’’دینی اسٹیٹ‘‘ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، حالانکہ اسلام پسند بار بار اس کی نفی کرتے ہیں اور خود اسلام بھی اس طرح کی حکمرانی کا قائل نہیں ہے، نیز اسلام پسندوں نے پارلیمانی اکثریت اور صدارتِ جمہوریہ کا منصب حاصل کرنے کے بعد بھی ایسا کوئی اقدام نہیں کیا ہے، نہ آئندہ کے لیے ارادہ ظاہر کیا ہے، لیکن اسلام پسندوں کو بے معنی بحث و تکرار میں الجھانے کے لیے ایسے الزامات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے تاکہ جواب میں پھنس کر ان کی توجہ تعمیر و ترقی کے اپنے منصوبوں سے ہٹ جائے۔
اصلاحات کے اسی کھیل میں ایک اور الزام یہ ہے کہ انقلاب کے بعد مصر کا پہلا دستور بنانے والی آئینی اسمبلی پر اسلام پسند حاوی ہو گئے ہیں اور مملکت کے تمام شعبوں پر اپنا اثر و رسوخ جما رہے ہیں، اس کے مقابلے کے لیے سیاسی جماعتوں و طاقتوں کے انضمامات و اتحادات کے ذریعے بھانت بھانت کی لبرل، قومی اور بائیں بازو کی طاقتیں جمع ہو رہی ہیں اور بکھر رہی ہیں، جن کا واحد مقصد خود ان کے اعتراف کے مطابق اسلام پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے، گویا کہ اسلام پسند شیطانی گھاس پھوس ہیں جن سے مصر کی سرزمین کو پاک و صاف کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے بعض تو برملا اس ارادے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ اسلام پسندوں کے خلاف آئندہ معرکے میں ان کو ان کے حتمی انجام تک پہنچانا ہے، یعنی مبارک سرکارکی طرح ان کو دوبارہ جیلوں اور قید خانوں میں ٹھونسنا ہے۔
یہ ہیں ان طاقتوں کے اسلام پسندوں کے بارے میں خیالات، گویا کہ مصر کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں، اس کی تعمیر و ترقی میں اسلام پسندوں کے سوا کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچی ہے، جب ان کو سیاسی منظرنامے سے ہٹا دیا جائے گا تو مصر کی تعمیر و ترقی کا راستہ صاف ہوگا، ان کو ہٹائے بغیر مصر میں کوئی بھلائی ہونے والی نہیں ہے، یہاں تک کہ انقلاب کے بعض دعویداروں کو اس بات پر افسوس ہے کہ اسلام پسندوں کو جیلوں سے کیوں رہا کر دیا گیا؟ جبکہ اسی وقت یہ لوگ قتل، چوری، اغوا اور سرکاری املاک پر حملوں کے مرتکب مجرموں کو فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کی نفی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کی طرف سے ہو رہا ہے جو عوامی آزادی کے داعی اور کسی بھی سیاسی گروہ کو حاشیے پر ڈالنے یا سیاست سے الگ رکھنے کے خلاف ہیں، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف ان لوگوں کی آزادی کے قائل ہیں جو اسلامی عمل کے دائرے سے باہر ہیں، ان کے نزدیک اسلامی رجحان کے سوا تمام طاقتوں اور گروہوں کو آزادی ملنی چاہیے تاکہ اسلام پسند مصر کو تاریکی، رجعت پسندی اور پیلی کتابوں کے دور تک نہ لے جاسکیں۔
ان لوگوں کو گزشتہ ساٹھ برس استبدادی نظاموں کے چھوڑے ہوئے مسائل و مشکلات اور جبر و قہر و تشدد کچھ نہیں دِکھتا، ان نظاموں میں آزادی تھی، نہ عزت و کرامت کا کوئی راستہ، مگر ان کو دِکھتا ہے کہ ان کی نشستیں، کرسیاں، عہدے اسلام پسندوں کے خاتمے پر موقوف ہیں، اس لیے ان کا بنیادی مقصد اسلام پسندوں کو جبراً جیلوں کے پیچھے غائب کرنا یا زبردستی ان کے منہ بند کرنا یا قہراً ان کا جسمانی صفایا کرنا ہے۔ بائیں بازو کی طاقتوں کو زور زبردستی وراثت میں ملے ہیں تاکہ وہ ان کو اسلام پسندوں پر آزمائیں، مگر ان کو معلوم نہیں کہ مصر میں انقلاب نو نے تمام آزادیوں کو کھول دیا ہے۔
ان میں اکثر لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسلام پسند انقلابیوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار تک پہنچے، لیکن یہ لوگ عام طور سے اسلامی جماعتوں کے نوجوانوں کے اس حصے کو بھول جاتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، جنہوں نے میدانِ تحریر میں ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء سے حسنی مبارک کے سقوط تک پورے اٹھارہ دن اس وسیع میدان کے حدود کی حفاظت کی اور خونیں مجرمین کے حملوں سے مظاہرین کو بچایا۔
موجودہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں محاذ کے سامنے مصر میں اسلامی رجحان کو ہٹانے کے سوا کوئی مسائل و مشکلات نہیں ہیں، اس لیے لبرل طاقتوں کا حزب المؤتمر میں اتحاد و انضمام اور ناصری جماعتوں کا الحزب الناصری میں اور اشتراکی و قومی طاقتوں کا التحالف الشوریٰ میں ہوا ہے، سب کا علانیہ مقصد اسلامی رجحان کو ہٹانا ہے۔ یہ کوئی نیا کام نہیں بلکہ ۱۹؍مارچ ۲۰۱۱ء کو دستوری ترمیمات پر استفتا (ریفرنڈم) کے وقت سے ان کا بنیادی مقصد ہے، لیکن اب وہ اس کو زیادہ حقیقت پسندی سے اتحادات و انضمامات کی شکل میں ترتیب دے رہے ہیں، ورنہ پہلے سے وہ اسلام پسندوں کے حاوی ہونے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بھی تعمیری حصہ لینے کے بجائے انہوں نے پارلیمان کے سامنے احتجاجوں و مظاہروں کے ذریعے اسلام پسندوں کو ناکام کرنے کے لیے ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی، یہاں تک کہ مکرو فریب سے دستوری محکمے کی نائب صدر کے ذریعے فوجی کونسل سے پارلیمان کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کرایا تاکہ اسلام پسندوں کا رسوخ مضبوط نہ ہوں، پھر اس سے بڑھ کر عیاری سے کونسل نے دستوری محکمے سے گزشتہ برس نصف جون میں پارلیمان کو تحلیل کرنے کا ایک عیب دار حکم جاری کرایا جو محکمہ کے اختیار سے باہر تھا، اس کے بعد پہلی آئین ساز اسمبلی بھی تحلیل کرا دی اور اب دوسری کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، بلکہ صدارتی انتخاب کو دوبارہ کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس لیے کہ موجودہ صدر ان کے بقول تمام مصریوں کا نمائندہ نہیں ہے۔
اسی طرح روزانہ نئے نئے مطالبات ہیں کہ اگر ان میں کامیاب نہ بھی ہوں تو اسلام پسندوں کو مسلسل پریشان کرنے سے ان کو کسی کام کے لائق نہ چھوڑیں اور وہ رائے عامہ کے نزدیک مصریوں کے مسائل حل کرنے سے عاجز و بے بس نظر آئیں۔ اسی لیے بائیں بازو کی طاقتیں اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مصر میں تمام مظاہروں و احتجاجوں کی تائید کر رہی ہیں یہاں تک کہ انقلاب کے زمانے کے زخمیوں اور شہیدوں کے خاندانوں کے مسائل کی بھی تجارت کر رہی ہیں اور صدر مرسی سے ان پر سودا کر رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس مصر کے موجودہ بحرانوں کے حل کا نہ کوئی منصوبہ ہے نہ تجویز۔ بلکہ ان کو بھڑکانے، بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان کو بیرون ملک برآمد کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے آئینی اسمبلی کے مسئلے کو بین الاقوامی بنانے کی اہمیت اور بڑی طاقتوں سے اس کو تحلیل کرنے یا اس کے مباحثات کو معطل کرنے کے مطالبے کی برمَلا جرأت کی! مصری عوام میں اگرچہ ان کی کمزور پوزیشن واضح ہو چکی ہے لیکن اپنے میڈیا پروپیگنڈے سے مصریوں کے لیے دردسر بنے ہوئے ہیں، ان کی آواز بلند ہے، مغرب سے بھیک مانگتے رہتے ہیں، ابلاغ عامہ کی طاقت کے مالک ہیں، مگر رائے عامہ ان سے اُکتا چکی ہے، خاص طور سے بار بار اس تذکرے کے بعد کہ اسلام پسندوں کو ووٹ دے کر عوام نے صحیح کام نہیں کیا ہے۔ پارلیمان کے دوبارہ انتخاب میں ان کی ناکامی مزید واضح ہو جائے گی اور عوام میں ان کا حقیقی وزن سب کو معلوم ہو جائے گا۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘۔ بیروت)
Leave a Reply