سفارتی گفتگو میں اور کچھ ہو نہ ہو، بات نپی تلی ضرور ہوتی ہے۔ اس میں پایا جانے والا ابہام بعض مشکل اور چبھنے والی حساس باتوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ پھر بھی مقصد پورا ہو جاتا ہے۔
ہر طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ بھارت اور پاکستان اپنے مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔ لیکن ایسا کس طرح ممکن ہو یہ ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ نئی دہلی کا موقف یہ تھا کہ وہ ایسے حالات میں بات چیت شروع نہیں کر سکتا جب ممبئی واقعات کے ذمہ دار دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا اور جب پاکستان میں تربیتی کیمپ ختم نہیں کیے گئے۔
وزیراعظم من موہن سنگھ اور صدر آصف علی زرداری کا روسی شہر یکیٹرنبرگ کا دورہ ایک نوید بن کر آیا۔ دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے یہاں آئے تھے۔ یہ تنظیم جس کے ارکان میں برازیل، روس، انڈونیشیا اور چین جیسے ملک شامل ہیں اور بھارت اور پاکستان مبصر ہیں۔
یہ سچ ہے کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے شنگھائی سربراہ اجلاس کے موقع پر من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کے لیے باقاعدہ درخواست دی تھی۔ لیکن نئی دہلی ایسی صورت میں مذاکرات کا حصہ بننے سے گریزاں دکھائی دیتا تھا جب مذاکرات کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ پھر بھی دونوں کی ملاقات اس لیے ضروری تھی کہ کئی میل طویل مشترکہ سرحد کے حامل ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت دور کرنے کے لیے برف تو پگھلے۔
سو، سفارتکاری حرکت میں آ گئی۔ درمیانی راستہ تلاش کر لیا گیا۔ بتایا گیا کہ مذاکرات سربراہ اجلاس کے اطراف میں کہیں ہوں گے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ شیوشنکر مینن نے میڈیا بریفنگ میں کافی مشکل طرزِ تخاطب اپنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور صدر ’’ایک وقت میں ایک ہی کمرے میں‘‘ موجود ہوں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ نئی دہلی والے اس ملاقات کے معاملے میں ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے جسے وزیراعظم کی دہلی سے روانگی سے قبل ہی حتمی شکل دی جا چکی تھی۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ حکمران کانگریس رائے عامہ کے خلاف جانا نہیں چاہتی تھی جو ممبئی حملوں کے بعد سے پاکستان مخالف ہے۔ پارلیمنٹ نے بھی رواں مہینے میں اپنے پہلے اجلاس کے دوران سخت موقف اختیار کیا تھا اور ایک طرح سے من موہن سنگھ کو مینڈیٹ دے دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے زرداری کو اس وقت یہ بات بتائی جب میڈیا ان کی بات سن رہا تھا کہ انہیں (من موہن سنگھ کو) اس حد تک محدود مینڈیٹ حاصل ہے کہ پاکستان سے کہا جائے کہ وہ بھارت کو یقین دہانی کرائے کہ وہ دہشت گردوں کو بھارت پر حملے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو مذاکرات کا آغاز پہلے کر دینا چاہیے تھا۔ اس سے اسلام آباد پر دبائو پڑ جاتا۔ اگر دونوں کے درمیان مذاکرات چل رہے ہوتے تو پاکستان سپریم کورٹ میں جماعت الدعوۃ کے لیڈر حافظ سعید کی لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے رہائی کے خلاف اپیل دائر کر سکتا تھا۔ اسلام آباد اس کے برعکس چل کر بریک ڈائون کا خطرہ مول نہ لیتا۔ کسی بھی صورت میں سربراہ ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب حکومت نے رہائی کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امریکا بھی دونوں حکومتوں پر بے پناہ دبائو ڈال رہا ہے۔ واشنگٹن والے دونوں حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے اور مذاکرات کی ایک ایک لمحے کی پیشرفت سے آگاہ تھے۔ بدقسمتی سے امریکا شاید اس وقت تیسرا فریق بن کر بیٹھ جائے جب دونوں سیکریٹری خارجہ دہشت گردی پر بات چیت کے لیے مل بیٹھیں گے جس پر وزیراعظم اور صدر کے درمیان ملاقات میں اتفاق ہوا ہے۔
پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ ملاقات ایک مثبت قدم تھی۔ بالآخر ڈیڈ لاک تو ٹوٹ گیا۔ بھارت میں بعض مبصرین نے اس پر مخالفانہ ردعمل ظاہر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے ایک بار پھر کوئی ٹھوس چیز حاصل کیے بغیر اپنی برتری گنوا دی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی دبائو اس قدر زیادہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھارت کی شرائط تسلیم کرنے کو تیار ہو جاتا۔
میرا خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی دبائو اب نئی دہلی کی طرف آنا شروع ہو گیا تھا کہ وہ مذاکرات شروع کرے۔ بھارت میں بیشتر نقاد عقابی سوچ رکھنے والے ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ بہت پہلے بھارت کو پاکستان کے خلاف جنگ میں جھونک چکے ہوتے۔ بعض بھارتی ٹی وی چینل تو ہر وقت یہی ظاہر کرتے رہتے ہیں کہ کشیدگی کے سواکوئی متبادل نہیں۔
ظاہر ہے اب خارجہ سیکریٹری بیٹھیں گے تو وہ محض بھارت پر حملے کے لیے دہشت گردوں کی طرف سے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے پر تو بات نہیں کریں گے۔ بات چیت میں دہشت گردی کے تمام تر پہلوئوں پر بات ہو گی جو خود پاکستان کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا ہے کہ طالبان یہاں سے نکل کر بھارت میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔
بھارت کی بھی خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ اس پورے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے اور اس کے لیے پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک اپروچ وضع کی جائے۔ واشنگٹن بارہا نئی دہلی سے درخواست کر چکا ہے کہ وہ پاکستان آرمی کے ساتھ ساتھ لڑنے کے لیے اپنی فوج بھیجے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو بھارت میں اپنا اعتماد بڑھانا ہو گا۔ میری تو یہی خواہش ہے کہ چھوٹی موٹی سہی اس حوالے سے کوششیں تو ہوں۔
اس وقت پاکستان کی توجہ مالاکنڈ، وزیرستان اور اس سے آگے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی پر مرکوز ہے اور وہ بھارت کے خلاف کام کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان اگر تھوڑا آگے آتا ہے تو بھارت اس سے بھی زیادہ آگے آئے گا۔ پاکستان اس کا ثبوت اسی طرح دے سکتا ہے کہ وہ تربیتی کیمپ بالکل ختم کر دے۔ تربیتی مراکز کی موجودگی میں پاکستان کی سچائی پر بھارتی عوام کا قائل ہونا مشکل ہے۔
پاکستان میں سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ آیا دونوں خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان جولائی میں ہونے والی ملاقات کمپوزٹ ڈائیلاگ کی راہ ہموار کرے گی۔ ایک طرح سے کمپوزٹ ڈائیلاگ تو شروع ہو چکا ہے کیونکہ مذاکرات داخلہ سیکریٹریوں کی سطح سے بڑھ کر خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر آ گئے ہیں لیکن مذاکرات اگر دوبارہ شروع ہوئے ہیں تو پاکستان کو اسے اپنی اسٹریٹجک فتح کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ دونوں خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ایک اور موقع ہے۔
آپس میں بات چیت کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کر کے ہم بہت سا وقت اور بہت زیادہ وسائل ضائع کر چکے ہیں۔ دونوں ملکوں نے آزادی سے اب تک امن کا تجربہ نہیں کیا، ۶۲ سال تک اجنبیت اور ہر وقت جنگ کے خوف کے ساتھ رہنا ایک طویل عرصہ ہے۔
ہمارے فہم حقائق کے برعکس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ من موہن سنگھ کے سخت لب و لہجے پر زرداری کافی خفت کا شکار دکھائی دیتے تھے۔ بھارت میں زیادہ تر لوگ جس طرح پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں اسے سن کر تو زرداری اور زیادہ خفت کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ لوگ تو آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ انہیں پاکستان پر شبہ ہے۔ بہرحال سیاسی طور پر ہم ایک دوسرے سے جتنا مختلف سہی، جذباتی اور ذہنی طور پر تو ہم ایک جیسے ہیں۔ لوگوں کے درمیان زیادہ اور وسیع روابط کا موقع ملنا چاہیے۔ اس سے یقینا مدد ملے گی۔
من موہن سنگھ اور زرداری کے درمیان ملاقات کو ایسی قوتوں کے درمیان سمجھوتے کے طور پرنہیں لیا جانا چاہیے جو لبرل سوچ کی جگہ کٹر پسندانہ سوچ پر تُلے ہوئے ہیں۔ ملاقات ایسا اقدام ہے جس کا ایک مدت سے انتظار تھا اور اس سے شاید مخالفین اور عقابی سوچ رکھنے والوں کو بھی تسلی ہوئی ہو گی اور یہ بہرحال ایک لائق تحسین پیشرفت ہے۔
(بشکریہ: ’’ڈان‘‘۔ ۱۹ جون ۲۰۰۹۔ ترجمہ شاہد سجاد)
Leave a Reply