احمد شلابی: امریکی بے وفائی کا تازہ شکار

امریکا کی خصلت سے کون واقف نہیں۔ اپنے مطلب کے لیے لوگوں کو استعمال کرنا اور کام نکل جانے کے بعد نہ صرف ان سے ناطہ توڑ لینا بلکہ امریکا کے ساتھ ان کی وفاداری کی سزا دینا اس کی عادتِ ثانیہ ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کیا طالبان کو افغانستان کے خلاف امریکا نے ہی استعمال نہیں کیا تھا؟ کیا اسامہ بن لادن کو آج کا مضبوط اسامہ بنانے میں امریکا نے اہم رول ادا نہیں کیا؟ یہ الگ بات ہے کہ امریکا ان دونوں ہی محاذ پر بری طرح ناکام رہا ہے۔

وہ ان دونوں کے ذریعہ وہ مقاصد نہیں حاصل کر پایا جو کہ اس کی منشا تھی۔ حالانکہ ان دونوں کی مدد سے وہ سوویت روس کے ٹکڑے کرنے میں کامیاب رہا تاہم اگر یہ کہا جائے کہ ان دونوں کے معاملے میں امریکا نے منہ کی کھائی تو غلط نہ ہو گا۔ لیکن اس کے برعکس عراق کے معاملے میں وہ کافی کامیاب واقع ہوا۔ اس کی چال کو صدر صدام حسین بڑی تاخیر کے بعد سمجھ سکے۔ امریکا نے نہ صرف ایران کے خلاف عراق کا کامیاب استعمال کیا بلکہ بتایا جاتا ہے کہ کویت پر حملہ بھی عراق نے امریکا کی اجازت کے بعد ہی کیا تھا تاہم یہ امریکا کی اپنی چال تھی جسے صدام سمجھ نہ سکے اور بعد میں اسی حملہ کو جواز بنا کر اس نے عراق پر حملہ کیا۔

امریکی ابن الوقتی کی داستانوں کی یہ فہرست کافی طویل ہے جس میں ایک نام احمد شلابی کا بھی ہے۔ احمد شلابی کبھی امریکا کے نورِ نظر ہوا کرتے تھے اسی وجہ سے انہیں صدام کے بعد عراق کے ممکنہ صدر کی حیثیت سے دیکھا جارہا تھا۔ کیونکہ عراق پر امریکی حملہ کے لیے راہیں ہموار کرنے میں انہوں نے کافی اہم رول ادا کیا ہے۔

یہ احمد شلابی ہی ہیں جن کے ذریعہ دی گئی معلومات نے امریکا کو عراق پر حملہ کا جواز فراہم کیا۔ تاہم اب شلابی کا الزام ہے کہ عام تباہی کے ہتھیاروں کے بابت معلومات انہوں نے نہیں بلکہ اس وقت کے سی آئی اے چیف جارج ٹینٹ نے فراہم کی تھیں۔

کبھی امریکا کے نورِ نظر سمجھے جانے والے شلابی آج کل بڑی پریشانیوں میں ہیں۔ ان کا سابق آقا ان سے ناراض ہے اور عراق کے اس ممکنہ صدر کے لیے عبوری حکومت میں ایک کارکن کی حیثیت سے بھی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ شاید امریکا سے ان کی وفاداری کا انہیں یہ انعام ملا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکا کے خلاف ایران سے مخبری کی ہے اور ایران کو وہ خفیہ کوڈ فراہم کر دیے ہیں جن کی مدد سے امریکا ایران کی جاسوسی کیا کرتا تھا۔ تاہم شلابی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی معلومات ایران کو فراہم نہیں کی۔ وہ خود سوال کرتے ہیں کہ ’’بھلا اتنے اہم راز تک میری رسائی کیسے ممکن ہے؟‘‘

احمد شلابی کے اس جواز میں بھی وزن موجود ہے کہ اگر امریکا اپنے دعوے کو صحیح ثابت کرنا چاہتا ہے تو پہلے اسے یہ قبول کرنا ہو گا کہ خود امریکی سی آئی اے نے شلابی کو یہ راز فراہم کیا تھا اگر ایسا ہے تو پھر شلابی سے بڑے مجرم خود سی آئی اے کے ممبران ہیں۔ شاید اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس معاملے کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے جو کہ سی آئی اے اور اس کے چیف کی حیثیت سے ان کے لیے بہتر نہیں ہوں گے۔ جارج ٹینٹ اور پھر ان کی نائب نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے ہیں۔

بہرکیف کل کیا ہو گا اس سے قطع نظر ہم بات کر رہے تھے‘ شلابی کے گھر اور دفتر پر ہوئے حملے کی۔

ایران سے مخبری کے جرم میں امریکا نے شلابی کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارے جہاں سے کمپیوٹر اور دیگر کئی اہم دستاویز ضبط کیے گئے۔

احمد شلابی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ دیر رات تک کام کرنے کے عادی ہیں‘ نتیجتاً صبح تاخیر سے بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن ۔۲ مئی کے روز ان کی صبح کافی جلدی ہو گئی۔ صبح ۱۰ بجے ہی امریکی فوجوں نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ شلابی فوجیوں کو روکتے ہی رہ گئے اور انہیں اپنے گھر سے نکل جانے کا حکم ہی دیتے رہے مگر بھلا امریکی حکم کے سامنے شلابی کی کیا حیثیت۔

تاہم ایک عراقی پولیس اہلکار نے انہیں پہچاننے کے بعد ادب سے کہا کہ ان کی یہ کارروائی امریکی حکام کے اشاروں پر ہو رہی ہے۔ پولیس ان کے کچھ ملازمین کو گرفتار کر کے لے گئی۔ ان کے گھر پر چھاپہ کے فوراً بعد شلابی کی عراقی نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے دفتر چائنا ہائوس پر بھی چھاپہ مارا گیا‘ جہاں عراقی پولیس نے بندوقوں کے اشاروں پر شلابی کے محافظ کو دستہ کو حکم دیا کہ وہ آفس میں موجود تمام کمپیوٹر اور دیگر دستاویز پولیس کی گاڑیوں میں منتقل کر دیں۔

چائنا ہائوس کے باہر کچھ امریکی عراقی پولیس کی ان حرکات کو قابلِ تحسین نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ عراقی نیشنل کانفرنس کے اہلکاروں کے مطابق ان لوگوں نے اپنے آپ کو سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹ کے طور پر متعارف کرایا تاہم اپنے شناختی کارڈ نہیں دکھائے۔

شلابی کا ردِعمل:

شلابی کہتے ہیں کہ وہ امریکیوں کے منصوبوں پر معترض ہیں‘ اس لیے امریکی ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ تاہم اس آدمی کا اچانک زوال سب کے لیے حیرانی کا باعث بنا ہوا ہے‘ جسے واشنگٹن عراق کے متبادل رہنما کے طور پر آگے لارہا تھا۔

متنازع رہنما احمد شلابی کے گھر اور دفاتر پر عراقی پولیس کے ان چھاپوں کی وجہ سے عراقی گورننگ کونسل کے ارکان شدید حیرت کا شکار ہیں۔

احمد شلابی نے ان چھاپوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ چھاپے سیاسی مقاصد کے تحت مارے گئے اور ان میں امریکی ایجنٹ اور عراقی پولیس کے ارکان شامل تھے‘‘۔

احمد شلابی پر لگے الزامات میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کی کونسل کے ایک رکن وزارتِ خزانہ کی گاڑیوں کی مبینہ چوری میں ملوث ہیں۔ تاہم اس کشمکش کی ایک وجہ ایک ایسی دستاویز بھی بتائی جاتی ہے جو کانگریس کی تحویل میں ہے اور جس کا تعلق اقوامِ متحدہ کے پروگرام تیل کے بدلے خوراک کے مالیاتی گھپلہ سے ہے۔ اس کے علاوہ درپردہ مگر سب سے اہم الزام ان پر یہ ہے کہ احمد شلابی یا ان کے کسی اہلکار نے انتہائی حساس امریکی خفیہ اطلاعات ایران کو فراہم کی ہیں۔ یہ الزام سب سے پہلے نیوز ویک میں شائع ہوا اور اس کے بعد بارے میں ایک رپورٹ امریکی ٹیلی ویژن چینل سے جاری کی گئی۔ ان سب کے جواب میں احمد شلابی کا صرف یہ کہنا ہے کہ امریکا کی ان سے ناراضی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ عراق کو اقتدار کی منتقلی کے ان امریکی منصوبوں پر تشدید تنقید کر رہے ہیں جو اسی سال جون کے آخر میں متوقع ہے۔ احمد شلابی کہتے ہیں کہ امریکیوں کے منصوبے کے برخلاف عراق کو اقتدار کی جزوی نہیں مکمل منتقلی ہونی چاہیے اور عراقیوں کو اپنے معاملات خود نمٹانے کی مکمل خودمختاری حاصل ہونی چاہیے۔ انہیں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے خصوصی نمائندہ براے عراق‘ لخدار براہیمی کے عبوری انتظامیہ کے منصوبے پر بھی شدید اعتراض ہے۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)


احمد شلابی کے عروج و زوال کی کہانی

٭ ۱۹۵۸ء۔ صدام حسین کی بعث پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شلابی خاندان اپنا مال و متاع اور اثر و رسوخ گنوا بیٹھا اور لبنان کی طرف ہجرت کر کے وہیں سکونت اختیار کی۔ اس وقت شلابی کی عمر صرف ۱۴ برس تھی۔

٭ ۱۹۷۷۔ میتھس میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ایک امریکی یونیورسٹی میں درس و تدریس کی خدمات انجام دینی شروع کیں۔ لیکن پھر وہ لبنان منتقل ہو گئے‘ جہاں ’پیٹرابینک‘‘ قائم کی۔ اس بینک نے اپنے قیام کے دوسرے ہی سال ملک کی دوسری سب سے بڑی بینک ہونے کا شرف حاصل کر لیا۔

٭ اپریل ۱۹۹۲ء۔ شلابی کی غیرموجودگی میں ایک لبنانی عدالت میں بینک فراڈ کے ۳۱ مقدمات کی شنوائی کے بعد انہیں ۲۲ سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم اس سزا کے سنائے جانے سے ۳ سال قبل ہی شلابی لندن منتقل ہو چکے تھے۔

٭ جون ۱۹۹۲ء۔ سی آئی اے کی جانب سے فراہم کی گئی خفیہ رقم سے انہوں نے عراقی نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔

٭ مارچ ۱۹۹۵ء۔ صدام حسین کی حکومت گرائے جانے کے سی آئی اے کے پلان کے منظر عام پر آجانے کے بعد سی آئی اے اور شلابی کے باہمی تعلقات میں تلخی آگئی۔

٭ ۰۲۔۲۰۰۱ء۔ جارج بش کے صدر بننے کے بعد شلابی نے امریکا کے کئی دورے کیے اور انتظامیہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ صدام حسین کے پاس عام تباہی کے ہتھیار موجود ہیں۔

٭ ۲۰۰۳ء۔ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں کولن پاول نے دعویٰ کیا کہ صدام کے پاس ہتھیار بنانے کے لیے موبائل لیب موجود ہے۔ بعد میں اس بات کی وضاحت ہوئی کہ پاول کی یہ معلومات عراقی نیشنل کانگریس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مرہونِ منت ہے۔

٭ اپریل ۲۰۰۳ء۔ جس دن امریکا صدام حسین کے قوی ہیکل مجسمہ کو زمین بوس کیا اسی روز پینٹاگون نے شلابی کو ناصریہ پہنچایا‘ جہاں انہوں نے صدام حسین کی حکومت گرنے کی خوشی میں ایک ریلی کا اہتمام کیا۔

٭ جولائی ۲۰۰۳ء۔ شلابی کو عراقی گورننگ کونسل کا رکن نامزد کیا جاتا ہے۔

٭ جنوری ۲۰۰۴ء۔ شلابی واشنگٹن کا دورہ کرتے ہیں جہاں ایک وی آئی پی کی طرح ان کی خاطر مدارات کی گئی اور ایک اہم میٹنگ میں انہیں فرسٹ لیڈی لارا بش کے پیچھے جگہ فراہم کی گئی۔ اسی نشست میں امریکی حکام حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے ان پر تنقید کرتے ہیں۔

٭ مارچ ۲۰۰۴ء۔ امریکا کے ساتھ ان کے خراب ہوتے تعلقات کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب انہوں نے عراق کے عبوری آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

٭ اپریل ۲۰۰۴ء۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندے لخدر براہیمی نے اشارہ دیا کہ ۳۰ جون کے بعد کی عراقی حکومت میں شلابی کو شامل نہیں کیا جائے گا۔

٭ ۱۷ مئی ۲۰۰۴ء۔ معلومات کی فراہمی کے عوض میں امریکا کی جانب سے عراقی نیشنل کانگریس کو دی جانے والی ۳ لاکھ ۳۵ ہزار امریکی ڈالر کی رقم بند کر دی گئی۔

٭ ۲۰ مئی ۲۰۰۴ء۔ عراقی پولیس اور امریکی فوج نے شلابی کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا اور ان کے خلاف ایران سے ساز باز رکھنے اور امریکی راز ایران کو فراہم کرنے کے خلاف شلابی کے خلاف تفتیش کا آغاز کر دیا۔

{}{}{}

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*