
نوشہرہ کے ایک گھر میں ۱۲ جنوری ۱۹۳۱ء کو آنے والا یہ موجۂ بہار پہلے سید احمد شاہ اور بعد میں احمد فراز کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کی زندگی کے ابتدائی دن پشاور کے ایک کوچے ’’چڑی ماراں‘‘ میں گزرے۔ بعد میں وہ کوہاٹ منتقل ہو گئے اور اسلامیہ ہائی اسکول کوہاٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر ایڈورڈز کالج پشاور اور پشاور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہے۔ جہاں سے انہوں نے اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
ان کا تعلق کوہاٹ کے ایک سیّد گھرانے سے ہے۔ ان کے پردادا کا مزار کوہاٹ شہر کے وسط میں آج بھی خاص و عام کی زیارت گاہ ہے اور اُس سے ملحقہ ان کے آبائی قبرستان میں صرف آپ کے گھرانے کے لوگ مدفون ہیں۔
بچپن سے ہی انہیں خاکسار تحریک کے نعروں اور ولولوں کی گونج سنائی دی، جس نے ان میں ایک مجاہدانہ جذبہ بیدار کر دیا۔ احمد شاہ جب خاکی وردی پہنے نوعمر بیلچہ برداروں کو پشاور کی سڑکوں پر پریڈ کرتا دیکھتا تو اُس کا جذبہ جاں سپاری عود کر آتا۔ خوش آواز اور خوش چہرہ تو وہ تھا ہی اس کیفیت نے اسے خوش اندام بھی بنا دیا۔ مارشل آرٹ سے زندگی کا آغاز کرنے والے اس نوجوان کو بھرپور ادبی ماحول ملا۔
بقول رضا ہمدانی ’’سید احمد شاہ نے جس ماحول میں زندگی کا آغاز کیا وہ ادبی ماحول تھا۔ اِدھر اُدھر شاعری کے چرچے تھے۔ پھر جس گھر میں اس نے جنم لیا اور پرورش پائی وہ بھی شعری نعمت سے خالی نہ تھا۔ اس کے والد آغا شاہ برق فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شعر کہتے تھے۔ پشاور کی قدیمی ادبی انجمن ’’بزم سخن‘‘ پشاور کے سیکریٹری بھی تھے۔ حضرت علامہ تاجور نجیب آبادی کے ہونہار تلامذہ میں شمار ہوتے تھے۔ ’’پیشِ ماہ بنشیں کہ ماہ شوی‘‘ کے مصداق احمد شاہ بھی اس چاندنی میں کھو گئے اور جب اس چاند کی کرنوں نے اسے گدگدایا تو وہ احمد شاہ سے گوہر اور پھر شرر برقی بن گیا۔
پشاور میں مشاعرے بڑے تواتر کے ساتھ ہوتے۔ طرحی مصرعوں پر شعراء کا ایک ہجوم شعر گوئی کرتا۔ اس ہجوم میں یکایک ’’شرر برقی‘‘ کا اضافہ ہو گیا۔ ان دنوں شرر برقی اپنی غزلیں ایک نوٹ بک میں لکھ لیا کرتا تھا۔ یہ پاکٹ بک (بیاض) مقفل ہوتی تھی۔ وہ فرمائش پر غزل سنانے کے لیے جیب سے ننھی سی چابی نکال کر مقفل بیاض کا تالا کھولتا اور غزل سرائی کرتا۔ وہ خود بھی تازہ دم تھا۔ اس لیے اس کی تازہ اور کم سن غزل بھی تازہ فکر لیے ہوتی اور پھر وہ اپنے والد برق کی رعایت سے شرر برقی کے نام سے سامنے آتا رہا۔ شرر برقی سے پہلی غزل اسی مقفل بیاض سے میں نے کوہاٹ کے ایک مشاعرے میں سنی تھی۔ یہ مشاعرہ ڈاکٹر نذیر مرزا برلاس مرحوم کی صدارت میں ہوا تھا۔ یہ اس کی سعادت مندی تھی کہ اس نے غزل پڑھنے سے پہلے میرے ساتھ مشورہ بھی کیا تھا۔ پشاور میں تازہ اور نووار د غزل سرائوں میں شرر برقی کا اپنے ہم عصروں میں خاصا چرچا تھا اور پھر اس کا ادبی قد آہستہ آہستہ نکلنا شروع ہوا۔ شعور پختہ ہوتا گیا یہاں تک کہ شرر برقی نے اپنی کرنوں کی فراوانی سے اپنے عہد کے سینئر شعراء اور اساتذہ کو بھی چونکا دیا۔
محسن احسان بتاتے ہیں کہ پشاور کے اسی مشاعرے میں یہی نوجوان ایک کمبل میں دبکا بیٹھا تھا۔ میں جب مشاعرے میں آیا تو ایک طرف بیٹھ گیا، یہ کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر اشارے سے کہا کہ تم بھی اس کمبل میں آ جائواور آج تک ہم دوستی کے اسی کمبل میں لپٹے چلے آرہے ہیں، کچھ اس طرح کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے ہیں لیکن کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔
ان ہی دنوں صوبہ سرحد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل ہوئی، جس کا مرکزی دفتر پشاور میں بنایا گیا اور اس کے سیکریٹری جنرل فارغ بخاری تھے۔ جب کہ پشاور شاخ کا سیکریٹری احمد فراز کو بنایا گیا جو اب شرر برقی نہیں رہا تھااور پھر اسی احمد فراز نے دنیائے شعر و ادب میں وہ مقام پیدا کیا کہ دنیا بہت زمانوں تک یاد کرتی رہے گی۔ عام طور پر یہ کہنا تقریباً سب شاعروں کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے انہیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا۔ احمد فراز اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کی زبانی سنیے!
’’میرے والد شعر کہتے تھے اور وہ اردو اور فارسی کے عالم بھی تھے۔ زیادہ تر اردو فارسی میں شعر کہتے تھے۔ فارسی میں ان کی کتاب ’’فروغ جاوداں‘‘ کے نام سے دست یاب ہے۔ لیکن اس سے زیادہ جس چیز نے مجھے شاعری کی طرف مائل کیا وہ سبب میری ایک ہم جماعت لڑکی نے مجھے بیت بازی کی دعوت دے کر فراہم کیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم دونوں اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن اس نے مجھ سے دریافت کیا ’’تمہیں بیت بازی آتی ہے‘‘ میں نے کہا وہ کیا ہوتی ہے۔ جواب میں اُس نے مجھے بتایا کہ میں شعر پڑھوں گی، جس حرف پر وہ شعر ختم ہو گا اُس سے آپ شعر شروع کریں گے پھر میں پڑھوں گی اور پھر ہار جیت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہاں سے شعر یاد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر تادیر جاری نہ رہ سکا۔ کیونکہ اس لڑکی کے شعری ذخیرے کے مقابلے میں میرا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر تھا، چنانچہ ایک دن سوچا کیوں نہ شعر خود ہی تیار کیا جائے۔
شعر بنانے کا معاملہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا کہ ایک دن والد صاحب سیل سے کپڑا خرید کر لائے۔ میرے بڑے بھائی جو اس وقت ایف اے کے طالب علم تھے ان کے لیے سوٹ اور میرے لیے کشمیرا چیک لے آئے گو آجکل میں اس کا بڑا شوقین ہوں مگر اس وقت مجھے وہ کمبل کی مانند لگا اور میں نے اپنے جذبات کی ترجمانی میں ایک شعر بنایا اور کاغذ پر لکھ کر اس کپڑے کے ساتھ والد صاحب کے سرہانے رکھ دیا:
جب کہ سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
گو کہ فنی لحاظ سے یہ شعر اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا مگر طبقاتی ناہمواری کے بارے میں میرے اختلافی جذبات کا ترجمان ضرور تھا جو کہ میں نے احتجاج کے طور پر کہا تھا۔ میرے بعد کی احتجاجی شاعری کی بنیاد آپ اسی شعر کو کہہ سکتے ہیں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کراچی۔ ۲۷اگست ۲۰۰۸)
Leave a Reply