
ترکی میں ۳ نومبر ۲۰۱۲ء کو جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے اقتدار کو دس سال مکمل ہوگئے۔ یہ بڑی کامیابی ہے کیونکہ ترکی میں اب تک کوئی بھی سیاسی جماعت اتنی طویل مدت تک اقتدار میں نہیں رہی اور اپنا ووٹ بینک مستقل بنیاد پر مستحکم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
بہتوں کو اب بھی اے کے پارٹی میں بہت کچھ عجیب لگتا ہے اور وہ رجب طیب اردغان کی قیادت، میڈیا سے نپٹنے کے طریقوں اور سیکولر عناصر کی طرزِ زندگی اور دیگر امور کے حوالے سے اے کے پارٹی کا خفیہ ایجنڈا تلاش کرتے پھرتے ہیں! عالمی معاشی بحران کے باوجود ایک پارٹی کا کسی بدلتی ہوئی معیشت میں دس سال تک اقتدار میں رہنا اور ملک کو خوش حالی کی طرف لے جانے میں بتدریج کامیاب ہونا ایسی اہم کامیابی ہے، جس کا تجزیہ کیا ہی جانا چاہیے۔
اے کے پارٹی کے دس برسوں کا تجزیہ کرنے کے لیے ’’ٹوڈیز زمان‘‘ نے پارٹی کے بانی اور نمایاں ارکان، اپوزیشن رہنماؤں، سیاسی تجزیہ نگاروں اور اخباری کالم نگاروں سے رابطہ کیا تاکہ پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکے۔ یہ ایک مختصر جائزہ ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکے گا کہ پارٹی نے دس برسوں میں کیا کچھ کیا ہے اور ملک و قوم نے کیا پایا ہے۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کا ظہور
۳؍ نومبر ۲۰۰۲ء کو اے کے پارٹی نے عام انتخابات میں ۳۴ فیصد نشستیں حاصل کیں اور سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ ۱۹۹۱ء کے بعد وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے تنہا حکومت بنائی۔ ۱۹۹۰ء کا عشرہ معاشی و سیاسی خرابی سے عبارت تھا۔ ۲۰۰۱ء کے آتے آتے سب کچھ تباہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ انتخابات میں ناکام رہنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی میدان چھوڑ دیا تھا۔ ۱۹۹۹ء کے زلزلے نے بھی ملک کی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ ایسے میں اے کے پارٹی کے اقتدار کا آغاز بہت خوش کن حالات میں نہیں ہوا۔ اے کے پارٹی نے نیشنل ویو (ملی گرو) سے جنم لیا تھا۔ اس کے ارکان نے ہمیشہ اصلاحات کی بات کی تھی۔ ملک میں انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا۔ معیشت کی کارکردگی بھی بہت خراب چل رہی تھی۔ ایسے میں عوام نے سوچا کہ ایک نئی پارٹی کو چانس دینے میں کوئی ہرج نہیں۔
اے کے پارٹی کے ۶۴ بانیان میں سے ایک اور موجودہ ڈپٹی چیئرمین صالح کاپوسوز (Salih Kapusuz) کہتے ہیں۔ ’’لوگوں نے کئی سیاسی جماعتوں کو آزمایا تھا مگر ان کی امیدوں پر ہر بار پانی پھرتا رہا تھا۔ ایسے میں انہوں نے سوچا کہ ایک نئی پارٹی کو آزمانے میں کوئی ہرج نہیں‘‘۔ کاپوسوز پارٹی کے پالیسی سازوں میں سے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ چالیس برسوں میں کسی بھی جماعت نے وہ نہیں کیا، جو اے کے پارٹی نے کر دکھایا۔ یہی سبب ہے کہ عوام نے اسے دوبارہ اور پھر سہہ بارہ منتخب کیا۔
اے کے پارٹی نے دوسری جماعتوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی بد گمانیاں دور کرنے کے لیے اقتدار میں آنے کے بعد ابتدائی دنوں میں اصلاحات نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ اس نے خود کو کرسچین ڈیموکریٹس طرز کی یورپی سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دیا۔ مقصود یہ تھا کہ پارٹی کے بارے میں یہ تاثر پروان چڑھایا جائے کہ جمہوری روایات کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
اے کے پارٹی نے مختلف محاذوں پر شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، مگر اب تک وہ سیکولراِزم کو سرکاری نظریے کے طور پر پیش کرنے والوں کی نظر میں قابل قبول نہیں ٹھہری ہے۔ ۳؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق مذاکرات کامیابی سے شروع کرنے والی اے کے پارٹی کو اس بات پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ ملک کے صدر کی بیوی سر پر اسکارف رکھتی ہے۔ فوج بھی اسکارف کی مخالف ہے اور اس نے اسی بنیاد پر صدر کا انتخاب روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اے کے پارٹی نے اس حوالے سے ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء کو جاری کیے جانے والے ای میمورنڈم کی شدید مخالفت کی۔ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے فوج کے خلاف جانے کا ترکی میں یہ پہلا موقع تھا۔ کاپوسوز کہتے ہیں کہ ’’قوم کا اعتماد ساتھ تھا اس لیے ہم فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے‘‘۔
اے کے پارٹی کے بانی رکن اور پارلیمان میں یورپی یونین ہارمونائزیشن کمیٹی کے سربراہ پروفیسر محمد تیکیلی اوغلو (Tekelioglu) کہتے ہیں: ’’وزیراعظم رجب طیب اردغان نے مشکل حالات میں جس قدر تحمل کا مظاہرہ کیا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی‘‘۔ روزنامہ ’’بگون‘‘ کے کالم نگار گلے گوکترک کہتے ہیں: ’’اے کے پارٹی نے اقتدار اور معاشرت کے ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلی کو بہت عمدگی سے سنبھالا۔ عام طور پر ایسی کسی بھی تبدیلی کے رونما ہوتے وقت تصادم ناگزیر سا دکھائی دیتا ہے، مگر اے کے پارٹی نے تصادم بھی ٹالا اور ملک کو استحکام کی منزل تک بھی پہنچایا۔ یہ سب کچھ غیر معمولی منصوبہ بندی ہی سے ممکن ہوسکتا تھا۔ اے کے پارٹی نے ملک کے اہم ترین معاملات میں فوج کی مداخلت ختم کرکے واقعی کارنامہ انجام دیا ہے۔ فوج کی مداخلت سے ملک میں گھٹن کا احساس شدت اختیار کرگیا تھا۔ رجب طیب اردغان کو اس حوالے سے کامیابی کا بھرپور کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنا نام قومی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھوا لیا ہے‘‘۔
۲۰۰۷ء کے بعد سے صدر عبداللہ گل، وزیراعظم رجب طیب اردغان اور نائب وزیراعظم بلند ایرنک (Bulent Arinc) قومی سیاست کی مضبوط ترین شخصیات کے روپ میں ابھرے ہیں۔ غیر معمولی تبدیلیوں اور کامیابیوں کے باوجود اے کے پارٹی کو چند چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ اس پر یورپی یونین سے تعلقات بہتر بنانے اور رکنیت کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں سے دانستہ گریز کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ایک اہم الزام یہ بھی ہے کہ اے کے پارٹی جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی راہ میں مزاحم ثابت ہو رہی ہے۔ کرد باغیوں سے نپٹنے کے معاملے میں بھی اے کے پارٹی پر خراب کارکردگی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ نئے آئین پر بحث کا سلسلہ جاری ہے، ایسے میں طاقتور اپوزیشن کو معرض وجود میں لانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
تیکیلی اوغلو اے کے پارٹی کے ابھرنے کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ۱۹۶۰ء میں اناطولیہ کے علاقے میں خوش حالی کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عدنان میندریس کے زمانے میں اناطولیہ کے لوگوں نے بیرون ملک جاکر کمانا شروع کیا اور خوش حالی کا شاندار دور شروع ہوا۔ یاد رہے کہ عدنان میندریس کو ۱۹۶۰ء میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ ۱۹۶۰ء، ۱۹۷۱ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں فوجی مداخلت کے باوجود اناطولیہ کی غیر معمولی ترقی نے استنبول میں بڑے سرمایہ کاروں اور اسٹیک ہولڈرز کو ہلاکر رکھ دیا، جس کے نتیجے میں قومی سیاست میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔ جب سیاسی جماعتوں کے لیے نئی بات کرنا ممکن نہ رہا تو Erdemliler Haraketi (موومنٹ آف دی ورچیوئس) کے بطن سے اے کے پارٹی پیدا ہوئی، جس نے اصلاحات کو اپنے منشور کا بنیادی حصہ بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ اے کے پارٹی نے اصلاحات کو محض اپنے مفاد کے لیے ایجنڈے کا حصہ بنایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے ملک میں لوگوں کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر معاشی فوائد پہنچانے کی روایت ختم کی۔ بہت سے سیاست دان اب بھی چند ایک امور میں زیادہ معاشی فوائد دیے جانے کی وکالت کر رہے ہیں مگر اے کے پارٹی نے اس کی راہ مسدود کردی ہے۔
اے کے پارٹی کی اسکارف پہننے والی بانی رکن ایسے بوہرلر کہتی ہیں: ’’۱۴؍ اگست ۲۰۰۱ء کو جب اے کے پارٹی قائم ہوئی تب پبلک پراسیکیوٹر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ ایک بانی رکن سر پر اسکارف رکھے ہوئے ہے۔ ہم ملک کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنانا چاہتے تھے۔ ہمارے ایجنڈے کا جھکاؤ لبرل ازم کی طرف تھا، نہ قوم پرستی کی طرف۔ ہم نے سوشل ڈیموکریٹ اقدار کی بات کی ہے۔ میڈیا نے ہمیں اسلام نواز قرار دیا جبکہ ہم نے بارہا کہا کہ ہم پر یہ لیبل چسپاں کرنا درست نہیں‘‘۔
’’اسکارف اور کرد باغیوں کا معاملہ نیا نہیں، ۹۰ سال پرانا ہے۔ اس لیے اس سے نپٹنے میں بھی وقت لگے گا۔ میڈیا نے اے کے پارٹی کو آسانی سے قبول نہیں کیا۔ ابتدا ہی سے معاندانہ رویہ رکھا گیا ہے۔ فوج نے ایک صدر کے انتخاب کو محض اس لیے رکوانے کی کوشش کی کہ اس کی بیوی سر پر اسکارف رکھتی ہے۔ اے کے پارٹی کو عوام کا بھرپور اعتماد حاصل ہے۔ ریفرنڈم جیتنے کے بعد ہم چاہتے تو پارلیمان میں اسکارف والی خواتین بڑی تعداد میں پہنچا سکتے تھے مگر پارٹی نے ایسا نہیں کیا۔ ہم تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سب کچھ طریقے سے کیا جائے تاکہ کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو‘‘۔
ہیڈ اسکارف کا معاملہ اب سرد خانے میں ہے۔ بہت سی جامعات میں طالبات سر پر اسکارف رکھ کر تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ کاروباری اداروں میں اسکارف کی بنیاد پر امتیاز برتنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسکارف پر پابندی کا قانون موجود نہیں۔ مگر خیر، اسکارف کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی راہ روکنے والا کوئی ضابطہ بھی نافذ نہیں۔
یورپی یونین سے تعلقات میں نشیب و فراز
اکتوبر میں یورپی یونین نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کی رو سے اے کے پی کی حکومت اس سے بہتر تعلقات کی خواہش مند نہیں اور مکمل رکنیت کے لیے بھرپور کوششیں نہیں کر رہی، مگر دوسری طرف خود اے کے پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تعلقات خراب کرنے میں مرکزی کردار خود یورپی یونین نے ادا کیا ہے۔ پروفیسر تیکیلی اوغلو کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے حوالے سے ترک تناظر میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ تحریک یا تحرک کی کمی واقع ہوئی ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ چند باب بند ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اے کے پارٹی نے بیشتر اصلاحات یورپی یونین کے معیارات اور مطالبات کے مطابق کی ہیں۔ اقلیتوں کو ملکیتی حقوق کی واپسی یقینی بنانا اور مرکزی سطح پر محتسب کا تقرر اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ عدالتی ڈھانچے میں اصلاحات کے حوالے سے چوتھا پیکیج زیر غور ہے۔ یہ بھی یورپی یونین کے معیارات کے مطابق ہے۔ تیکیلی اوغلو نے پارٹی کے رہنما پروفیسر برہان کوزو کی جانب سے یورپی یونین کی رپورٹ کو فرش پر دے مارنے کی مذمت کی ہے۔ برہان کوزو کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں ترکی کی تمام کامیابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ناکامیوں کو شمار کیا گیا ہے اور انہیں غیر تعمیری گردانا گیا ہے۔
کاپوسوز کو اس بات کا شکوہ ہے کہ ترکی کے معاملے میں یورپی یونین دہرا معیار اپنا رہی ہے۔ ترکی نے یورپی یونین کے حصول کے لیے یورپ کے معیارات کے مطابق ۳۰۰ قوانین اور ۱۸۰۰ سے زائد قواعد و ضوابط اپنائے۔ کاپوسوز کے مطابق ترکی نے یورپی یونین سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک علیحدہ وزارت بھی قائم کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کی مدد نہیں کی، ویزا کی پابندیاں نرم نہیں کیں اور قبرص کے معاملے کو خواہ مخواہ بیچ میں لانے کی کوشش کی۔ یورپ کے اقدامات سے ترکی میں یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے اس امر کی تردید کی کہ ’’اے کے پارٹی نے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کو اپنے ایجنڈے اور ترجیحات سے نکال دیا ہے‘‘۔ ان کا استدلال ہے کہ ’’علاقائی اور عالمی سطح پر ابھرتا ہوا ترکی یورپی یونین کی ضرورت ہے‘‘۔ بوہرلر (Bohurler) نے یورپی یونین پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قیدیوں پر تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی کے باوجود ترکی سے رکنیت کے حوالے سے بات چیت سست رکھی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر Tanel Demirel کا کہنا ہے کہ حکومت نے یورپی یونین کے معاملے کو بالائے طاق رکھ کر اچھا نہیں کیا۔
یورپی یونین کی رکنیت کا معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سیاسی مبصرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ ابھی چند ماہ تک یہ معاملہ قومی سیاست سے چمٹا رہے گا۔
فوج نے ہتھیار ڈالے ہیں یا نہیں؟
ترک سیاست میں عسکری کلچر اس قدر رچ بس گیا تھا کہ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ کبھی فوجی اقتدار ختم ہوگا اور سویلین سیٹ اپ کو حقیقی معنوں میں آگے آنے کا موقع مل سکے گا۔ سیاست میں عسکری قوتیں اس قدر مستحکم تھیں کہ عوام کو بھی یقین نہیں تھا کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا، جب سیاست میں سیاست دان ہی نمایاں ہوں گے اور فوج کو بیک سیٹ لینا پڑے گی۔
ایک عشرے کے دوران ترک حکومت نے کئی ایسی اصلاحات نافذ کی ہیں جن کی مدد سے فوجیوں کے اقتدار کو کمزور کرنے میں مدد ملی۔ ۲۰۱۰ء کے ریفرنڈم میں عسکری مخالف اصلاحات کو ۵۸ فیصد ترکوں کی حمایت حاصل رہی۔ کاپوسوز بتاتے ہیں کہ اے کے پارٹی نے آئین کو بہت حد تک جمہوری بنایا۔ یہ آئین فوج نے ۱۹۸۰ء میں اقتدار پر قبضے کے بعد تیار کیا تھا۔ اسٹیٹ سکیورٹی کورٹس کو ختم کردیا گیا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کو قدرے شہری اور جمہوری بنادیا گیا اور اس کی سربراہی بھی غیر فوجی شخصیت کو سونپی گئی۔ کاپوسوز کے خیال میں سویلین نوعیت کا آئین تیار نہ کر پانا ایک بڑی ناکامی ہے۔ اب نیا آئین تیار کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی افسران پر مقدمے کا چلایا جانا بھی بہر حال بہت بڑی کامیابی ہے۔
دس سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ترکی میں کسی فوجی افسر کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ یہ اچھی تبدیلی ہے مگر اسے ادارہ جاتی سطح پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ استنبول کی سیہر یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر اُمِت سیزرے کا کہنا ہے کہ سویلین اقتدار آچکا ہے اور اداروں پر سویلین شخصیات کی بالا دستی بھی قائم ہوچکی ہے مگر اس کے باوجود بہتر یہ ہے کہ تمام اہم تبدیلیوں کو باضابطہ ادارے کی شکل دی جائے۔ اے کے پارٹی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے فوج کی یہ سوچ ختم کی ہے کہ ملک کی حقیقی محافظ وہی ہے اور باقی سب تو بس تماشائی ہیں۔ اب سیاست میں فوج کی مداخلت کا امکان خاصا کم ہوگیا ہے۔
سیزرے کا کہنا ہے کہ یورپ کی جانب سے فلیگ شپ سکیورٹی منصوبے ختم کردیے جانے کے بعد ترک حکومت نے پولیس اور فوج کے موجودہ سیٹ اپ ہی پر بھروسا کیا اور فوج کو مجموعی طور پر متحرک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ۲۰۱۱ء میں جنرل Necdet Ozel کو چیف آف جنرل اسٹاف مقرر کیا گیا، جو بظاہر حکومت سے اچھے تعلقات کے حامل تھے۔ فوج نے بغاوت کے مرتکب فوجیوں کو سزا سنائے جانے پر ردعمل میں یہ کہا کہ سماعت منصفانہ انداز سے نہیں ہوئی جبکہ اسے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ایسی اصلاحات نافذ کی جائیں گی جن کے ذریعے آئندہ فوجیوں کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی روش کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ڈاکٹر دیمیرل کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا سادگی کی انتہا ہوگی کہ اب کبھی فوج اقتدار پر قبضے کی کوشش نہیں کرے گی۔ ۱۹۹۰ کے عشرے میں بھی یہی سوچا جارہا تھا مگر پھر اقتدار پر قبضہ ہوگیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آج کا ترکی کل کے ترکی سے بہت مختلف ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب فوجی افسران کے کسی بھی گروپ کے لیے منتخب حکومت کا تختہ الٹنا آسان نہ ہوگا۔
گوکترک کا کہنا ہے کہ اب فوج کی جانب سے سیاسی امور میں مداخلت کا امکان بہت گھٹ گیا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اب یہ تصور عام ہوگیا ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت جرم ہے۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(“AK Party Legacy a Mixed Record on Democratization, EU Reforms”… “Today’s Zaman” Turkey. Oct. 31st, 2012)
Leave a Reply