
خارجہ پالیسی اور معیشت، چیلنج و مواقع
دس برسوں کے دوران اے کے پارٹی نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے اس میں چیلنج اور مواقع دونوں کا حسین سنگم موجود ہے۔ حالات کے مطابق جو روش اختیار کی گئی اس پر اس امر کا مدار ہے کہ چیلنج زیادہ ہیں یا مواقع۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دس برسوں کے دوران اے کے پارٹی نے خارجہ پالیسی کے میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے لازم سمجھی جانے والی اصلاحات متعارف کرانے پر خاص توجہ دی گئی۔ ساتھ ہی پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانا بھی ضروری سمجھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین اور نیٹو سے بہتر تعلقات ہی کی بدولت اے کے پارٹی کی قیادت بہت سے معاملات میں پورے اعتماد کے ساتھ بات کرنے کے قابل ہوسکی۔ رجب طیب اردغان نے اپنے ساتھی پروفیسر احمد داؤد اوغلو کو وزیرخارجہ بناکر ترکی کو خارجہ پالیسی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھانے کی راہ ہموار کی۔ احمد داؤد اوغلو نے تمام پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے علاقائی تنازعات کے حوالے سے بھی تحرک دکھایا ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر سے ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کے احیا کی باتیں ہونے لگیں تاہم وزیراعظم اردغان نے انہیں بے بنیاد قرار دیا۔ ہاں، شام کی صورتحال کے حوالے سے ترک حکومت کے رویے کو ابتدا میں اندرونی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ملک کی دوسری بڑی اپوزیشن پارٹی (نیشنلسٹ موومنٹ) کے ڈپٹی چیئرمین اوکتے وورال (Oktay Vural) نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں رجب طیب اردغان کے طرز عمل کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۹ء ڈیووس کے ورلڈ اکنامک فورم میں اسرائیلی صدر شمعون پیریز پر اردغان کی تنقید نے شام اور عراق کے حوالے سے پالیسی خراب کی اور بعد میں ایران کے خلاف میزائل نصب کیے جانے کی بھی راہ ہموار کی۔
اے کے پارٹی کے ۶۴ بانی ارکان میں سے ایک اور اے کے پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے یاسر یاکس (Yasar Yakis) کہتے ہیں کہ پڑوسیوں کے ساتھ کوئی بھی جھگڑا مول نہ لینے کی پالیسی ایک اچھا مثالیہ ہے۔ یہ آئیڈیل برقرار رہنا چاہیے یعنی جب تک کوئی مشکلات پیدا نہ کرے، ہم کچھ نہیں کریں گے اور امن سے رہیں گے۔ اب خارجہ پالیسی کے تعین میں وزیراعظم اور وزیر خارجہ مل کر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سب کچھ اچھی طرح طے کیا جاتا ہے تاکہ کوئی ابہام یا غیر ضروری اختلاف رونما نہ ہو۔ یاسر یاکس نے اس حوالے سے اپنی مثال دی کہ انہوں نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو نکات پارٹی کے لیے تحریر کیے تھے وہی بعد میں حکومت کی تشکیل پر خارجہ پالیسی کا حصہ بنے۔ یاسر یاکس نے شام کے حوالے سے ترک حکومت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک کی حمایت کی جانی چاہیے تھی، تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ بشارالاسد انتظامیہ سے رابطے رکھے جاتے تاکہ معاملات کو اچھی طرح نمٹایا اور سلجھایا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی پر بحث اور تبادلۂ خیال کے حوالے سے اے کے پارٹی میں بھی کوئی میکینزم یا طریق کار موجود نہیں۔ ایک مشاورتی گروپ ہے مگر اس کا اجلاس کم ہی ہوتا ہے۔ جب پارٹی بنی تھی تب اس کا اجلاس ہوا کرتا تھا۔ خارجہ پالیسی سے متعلق تمام امور پارٹی میں بھی اچھی طرح بحث و تمحیص کے مرحلے سے گزرنے چاہئیں۔
شام کے معاملے میں جو پالیسی اپنائی گئی اس کے نتیجے میں عراق اور ایران بھی ترکی سے دور ہوگئے۔ ترک حکومت پر تنقید کی جارہی ہے کہ اس نے اپنی صلاحیت سے بڑھ کر اہداف مقرر کیے۔ وزارت خارجہ میں سینٹر فار اسٹریٹجک ریسرچ کے چیئرمین پروفیسر بلنت آراز (Bulent Aras) کہتے ہیں۔ ’’اے کے پارٹی کے تحت خارجہ پالیسی کو نفسیاتی فتح سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی گئی۔ قدرے جارحانہ رویہ اختیار کرکے پڑوسیوں اور عالمی برادری کو پیغام دیا گیا کہ ترکی محض تماشائی بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے قدرے بڑھ چڑھ کر جو کچھ کہا گیا اس کی پشت پر عملی اقدامات بھی تھے جن کے نتیجے میں ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں ترکی کی پوزیشن بہتر ہوئی اور یہ محسوس کیا جانے لگا کہ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے کسی بھی معاملے میں کوئی نئی بات کہنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ عملی طور پر کچھ کر دکھانے کے لیے اتنی ہی صلاحیت کا ہونا بھی لازم ہے۔ اے کے پارٹی نے اس حوالے سے بنیادی امور کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے‘‘۔
کیا شام کسی بھی اعتبار سے ترکی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟ کیا شام کی صورت حال ترکی کے لیے بڑا دردِ سر ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں یاسر یاکس کہتے ہیں۔ ’’شام سے زیادہ خطرناک ملک تو عراق تھا کیونکہ وہاں کرد بڑی تعداد میں تھے اور انہیں ہمارے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا، مگر ترک حکومت نے ثابت کیا کہ عراق کے معاملے میں اس کی پالیسیاں درست تھیں اور وہ مجموعی طور پر کسی بھی بڑی الجھن میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہی۔ شام کا معاملہ مختلف اور کم خطرناک ہے۔ توازن سے وضع کی جانے والی پالیسی شام میں ہمارے لیے مشکلات پیدا نہیں کرے گی۔ شام میں بہت سی تبدیلیوں کا مدار اس بات پر ہوگا کہ ترکی کیا کرتا ہے‘‘۔
اس وقت ترک خارجہ پالیسی کے بنیادی اور مرکزی کردار وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو ہیں۔ انہیں وزیراعظم رجب طیب اردغان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ خارجہ پالیسی کو عملی شکل دینے میں اردغان نے بھرپور دلچسپی لی ہے۔
ترک وزیر خارجہ کے معاون ڈاکٹر میست اوزکان کہتے ہیں۔ ’’ترکی کے لیے خطے کی صورتحال وہی ہے جو سرد جنگ کے دور میں مشرقی یورپ کی ہوا کرتی تھی۔ ترک حکومت خطے میں انقلابی تبدیلیاں چاہتی تھی اس لیے اس نے بشارالاسد سے روابط رکھے مگر جب شام میں انقلاب کی ہوا چلی تو ترکی کے لیے بھی تبدیل ہونا ناگزیر ہوگیا۔ صدر عبداللہ گل بھی جب وزیر خارجہ تھے تب انہوں نے ۲۰۰۳ء میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا تھا کہ عرب دنیا میں اصلاحات متعارف کرائی جانی چاہئیں۔ جو لوگ شام کے حوالے سے ترک پالیسی پر تنقید کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک ہیں جو زمینی حقائق کی بنیاد پر پالیسی مرتب کرتے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں‘‘۔
یہ معیشت ہے، احمق!
اے کے پارٹی نے معیشت کے حوالے سے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ معیشت کے مختلف شعبے تیزی سے مستحکم ہوئے ہیں۔ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات میں تنوع پیدا کرنا بھی ممکن ہوا ہے۔ ترکی نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے ماہرین تیار کیے ہیں جو قومی معیشت کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ خدمات کے شعبے میں برآمدات بڑھی ہیں۔ ایک عشرے کے دوران شرح نمو پانچ اعشاریہ تین فیصد رہی ہے۔ عالمی معیشت کی خرابیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی بری کارکردگی نہیں۔ ایک عشرے کے دوران فی کس آمدنی ساڑھے تین ہزار ڈالر سے بڑھ کر دس ہزار ڈالر ہوچکی ہے۔ افراطِ زر ۷۰ فیصد کی سطح سے گراکر اب معمولی سطح پر لایا جاچکا ہے۔ بیروزگاری ۳ء۱۰ فیصد سے کم کرکے اب ۴ء۸ فیصد کی سطح پر لائی جاچکی ہے۔ اس حوالے سے ترک حکومت نے عالمی اداروں پر زیادہ انحصار کیا جس کی بدولت معیشت کو مستحکم رکھنے میں مدد ملی ہے۔ وزیراعظم اردغان نے اپنی تقاریر میں کئی بار کہا ہے کہ اب ترکی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو پانچ ارب ڈالر کے فنڈ فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
اے کے پارٹی پارلیمانی گروپ کے ڈپٹی چیئرمین نورالدین سینیکی فخریہ بتاتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں اور ثقافت کے شعبے میں اے کے پارٹی نے فنڈنگ دگنی کردی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ معیشت کے مختلف شعبوں کو فروغ دینے سے متعلق حکومتی حکمتِ عملی مجموعی طور پر کامیاب رہی ہے۔ سرکاری شعبے کے اداروں میں بڑھتی ہوئی فنڈنگ نے عوامی خدمات کے شعبے میں بھی معاملات درست کرنے میں مدد دی ہے۔ ملک میں زیادہ خوشحال زندگی بسر نہ کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ ۷۵ لاکھ سے گھٹ کر ۸۵ لاکھ ہوگئی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنائی گئی ہے تاکہ کم آمدنی والے لوگ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرسکیں۔ عام آدمی پر مختلف مدوں میں پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے جو بالعموم کامیابی سے ہمکنار دکھائی دی ہے۔
نورالدین سینیکی کہتے ہیں کہ بینکوں کو ایسے قرضے جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے، جن کے حاصل کرنے والے ان قرضوں کے اہل نہ ہوں۔ اس صورت میں وسائل کا ضیاع رُکا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں سرکاری شعبے کا ہلک بینک (Halkbank) اپنے ۹۲ فیصد قرضے دوبارہ وصول کرنے میں ناکام رہا تھا مگر ۲۰۱۲ء میں صرف ۵ فیصد قرضے ڈوبے ہیں۔
حزب اختلاف کے مطابق، اے کے پارٹی کی فتح میں بیشتر حصّہ ’’بین الاقوامی صورتِ احوال‘‘ کا تھا۔ حزبِ اختلاف کی ممتاز سیاسی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی کے نائب چیئر مین: فائق ازتراک کا یہ کہنا تھا کہ’’ اے کے پارٹی نے کمال درویش (جو اُس وقت کے وزیر اقتصادیات تھے)کے اقتصادی منصوبہ سے بھرپور فائدہ اُٹھایا ، جو اُس نے سابقہ حکومت سے ورثہ میں پایا تھا، اس کے ساتھ ’’بین الاقوامی صورتِ احوال‘‘ کا بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا‘‘۔ ازتراک نے مزید کہا کہ: ’’اُس وقت کی حوصلہ افزا‘ اقتصادی فضا کی وجہ سے ہر شخص نے ترقی کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے، لیکن وہ لوگ جو پہلے سے ہی اِس راستہ پر گامزن تھے وہ ہم سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھ گئے‘‘۔ وہ پہلے پچھلے دس سالہ مدت کی بابت کہتے ہیں: ’’ کہ وہ دس سالہ عہد جو ترکی نے گنوا دیا، باوجود یہ کہ عمومی طور پرلوگوں کو ادراک تھا‘‘۔
ازتراک استدلال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’عام لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ آرام سے ہیں کیونکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں کسی بڑے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ وہ اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ عام آدمی کے کندھوں پر بھاری قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے،: ’’۲۰۰۲ء کے دوران قرض کا بوجھ آمدنی کا چار (۴) فیصد تھا، جواب بڑھ کر آمدنی کا باون (۵۲) فیصد ہوگیا ہے‘‘۔ ازتراک ساتھ ساتھ ہی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ـ’’[حکومت] سرکاری شماریات میں من مانی ردوبدل کر کے بے روزگاری کے حوالے سے اعداد وشمار پیش کررہی ہے‘‘۔
وورال Vural کہتے ہیں ’’یہ نازیوں کا سا حربہ ہے کہ لوگوں کو پچھلی حکومتوں کے دوران ہونے والے اقتصادی بحران سے ڈرایا جائے‘‘۔ مزید کہتے ہیں کہ: ’’اقتصادیات کی نجکاری کی وجہ سے معاشرے میں بیگانگی کا عمل پھیل رہا ہے‘‘۔
دوسری جانب، اے کے پارٹی، ازمیر کے ڈپٹی محمد تکلی اوغلو، جو کہ پارٹی کے بانیان میں سے ایک ہیں، کہتے ہیں کہ ازمیر کے تاجر جو کہ اے کے پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے، لیکن وہ یہ چاہتے بھی ہیں کہ اے کے پارٹی جیت جائے تاکہ اقتصادی استحکام برقرار رہے، وہ اس کے ساتھ سب کو تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ غور کریں کہ :’’استنبول اور اناطولیہ کے سرمایہ (جو کاروبار میں شامل تھا) کے درمیان ۲۰۰۰ء میں کیا تناسب تھا اور آج کیا ہے؟‘‘، یہ اُن کی جانب سے ایک کوشش تھی کہ وہ ثابت کر سکیں کہ پچھلے دس سال میں ان کی پارٹی کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ہر شخص کو فائدہ پہنچا۔
فضائی سفر کسی زمانے میں تعیشات میں شمار ہوتا تھا، مگر اب لاکھوں ترک باشندے ہر سال فضائی سفر کرتے ہیں۔ حکومت نے ذرائع آمدورفت کے شعبے کو غیر معمولی حد تک ترقی دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہائی ویز کی تعداد اور طوالت بڑھانے پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ترکی کے دور افتادہ علاقوں کا سفر بھی خاصا آسان اور سستا ہوگیا ہے، جو عوام کے لیے اے کے پارٹی کی حکومت کا بہت اچھا تحفہ ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ برقرار ہے مگر مجموعی طور پر معیشت کے مختلف شعبے ترقی کی کہانی سنا رہے ہیں۔ جن امور سے ترقی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ اب تک نمایاں ہیں۔ عوام کا معیار زندگی اور مختلف شعبوں میں کارکردگی کا گراف بلند ہوا ہے۔ بینکوں کی اصلاح کا عمل بہت حد تک مکمل ہوچکا ہے۔ اب کوئی بھی شخص میرٹ ہی کی بنیاد پر قرضہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جارہا ہے کہ لوگ قرضے واپس کریں۔ بینکاری سے متعلق قوانین اور قواعد و ضوابط کو مربوط اور متوازن بنانے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔
حال ہی میں ہونے والی پارٹی کانگریس میں رواں سال کے لیے ۲۰۷۱ اہداف مقرر کرنے کے علاوہ اردوغان نے پارٹی کے نئے کارکنان پر زور دیا کہ وہ زیادہ پُرجوش طریقے پر کام کریں تاکہ پارٹی کی جانب سے حالیہ مقررہ اہداف حاصل کیے جاسکیں اور ترکی کے جمہوریہ بننے کے سوسالہ جشن کو بھرپور طریقہ سے منایا جا سکے اور یہ بھی کہ ہر شخص کی سالانہ آمدنی پچیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہو جائے اور اس طرح ترکی دنیا کی دسویں بڑی اقتصادی قوت بن سکے۔
نئے آئین کی تشکیل کا سست رفتار عمل
نئے آئین کے معاملے پر اے کے پارٹی نے بہت پھونک پھونک کر قدم رکھے ہیں۔ اسے اندازہ ہے کہ آئین میں پایا جانے والا ذرا سا بھی عدم توازن معاملات کو خراب کردے گا۔ اس حوالے سے اپوزیشن کے احساسات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ مسودے میں ایسی کوئی بھی بات شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے، جس سے معاشرے میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں اقلیتوں کا رویہ بہت حساس ہے۔ اگر آئین میں کوئی بھی ایسی ترمیم متعارف کرائی جائے جس سے اقلیتوں کو ذرا سا بھی نقصان پہنچ سکتا ہو تو دنیا فوراً متوجہ ہوگی۔ چند ایسے قوانین نافذ کیے گئے ہیں جن کی مدد سے عیسائیوں کو ضبط شدہ املاک واپس ملنے کی راہ ہموار ہوئی۔ مگر خیر، اب بھی بہت سے مشنری ادارے بند ہیں اور ان کی بندش کا ختم ہونا قوم پرست اور سیکولر عناصر کے لیے شجرممنوعہ ہے۔
آئین کو معاشرے کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے یکساں تعداد میں نمائندے لے کر بنایا جانے والا پارلیمانی مفاہمتی کمیشن اپنے مشن میں ناکام رہا۔ شہریت کی تعریف پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ ۲۰۱۰ء کے ریفرنڈم کے ذریعے ترکوں نے اے کے پارٹی کو نئے آئین کی تشکیل اور تنفیذ کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔ مگر اس حوالے سے پارلیمانی کمیشن کی کارکردگی سست رہی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نیا آئین نافذ کیا جائے۔ سینکایا یونیورسٹی کے پروفیسر تانیل دیمیرل کہتے ہیں کہ جو لوگ اے کے پارٹی کے حامی نہیں تھے، انہوں نے بھی ریفرنڈم میں آئین کی تشکیل کے لیے اے کے پارٹی کو ووٹ دیے کیونکہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اے کے پارٹی اس معاملے میں کیا کرتی ہے، کس حد تک جاتی ہے۔ اس سے قبل ۲۰۰۷ء میں اے کے پارٹی آئین کی تشکیل نو کے معاملے میں ناکامی سے دوچار ہوچکی تھی۔
ایسے بوہرلر (Ayse Bohurler) کہتے ہیں کہ اے کے پارٹی کے تحت بہت پہلے نیا آئین سامنے آ جانا چاہیے تھا۔ کردوں کے معاملے میں جو مؤقف ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں اپنایا گیا تھا، وہ برقرار رہنا چاہیے۔
صالح کاپوسوز کہتے ہیں کہ پارٹی نیا آئین لانے کے موقف پر اب تک قائم ہے۔ فوجیوں کے خلاف مقدمات اور ان کے بنائے ہوئے آئین کو قبول کیے رہنا، زبردست تضاد کو جنم دے رہا ہے۔ اس تضاد کو ہر حال میں ختم کرنا ہوگا۔
اے کے پارٹی: ون مین شو؟
اے کے پارٹی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں ون مین شو چل رہا ہے۔ رجب طیب اردغان نے بظاہر تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ مصطفی کمال (اتاترک)، سلیمان دیمیرل، ترگت اوزال اور کنعان ایورن نے بھی ون مین شو چلایا تھا۔ ان پر بھی یہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے تھے اور کسی اور کے لیے برائے نام گنجائش چھوڑی تھی۔ وہ دور اب تک ختم نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ آمروں کے مقابلے میں اردغان جیسے رہنما زیادہ طلسماتی اور قابل قبول ہیں۔ ایسے میں اب پھر ون مین شو کی راہ کیوں ہموار نہ ہو؟ ستمبر ۲۰۱۲ء میں اردغان اے کے پارٹی کے کنونشن میں ’’فطری رہنما‘‘ (Natural Leader) کے طور پر ابھرے اور ان پر تنقید کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔
اسرائیل اور دیگر ممالک کے خلاف بول کر نمایاں ہونے والے اردغان کو اندرون ملک سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ وورال کہتے ہیں کہ ان کی یہ روش پسندیدہ نہ تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کو دبایا جارہا ہے اور میڈیا کے ذریعے یہ تاثر بھی عام کیا جارہا ہے کہ اور کوئی متبادل یا الگ راستہ نہیں ہے۔ بہت سے سینئر اور انتہائی قابل اعتماد صحافی بھی اردغان سے کوئی سوال نہیں کرسکتے۔ ایسا تو صرف بادشاہتوں میں ہوتا ہے۔
اے کے پارٹی نے میڈیا سے جو رویہ رکھا ہے، اس پر بھی شدید تنقید کی جاتی ہے۔ بوہرلر کہتے ہیں کہ حکومت چاہتی تو میڈیا سے تعلقات کے معاملے میں زیادہ نرم دلانہ اور دوستانہ رویہ اختیار کرسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اردغان اچھے سامع ہیں۔ وہ سب کی بات سنتے ہیں اور پھر اپنی رائے دیتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی میٹنگ میں وہ جب بولتے ہیں تو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کو سننے کے بعد ان کی رائے حتمی نوعیت کی ہو جاتی ہے۔ پارٹی کے اجلاس میں بانی ارکان اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں تو یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔
اردغان کے چند فیصلوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ اے کے پارٹی میں ون مین شو چل رہا ہے۔ انہوں نے ایک متنازع علاقے (Camlica Hill) میں مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک پرائیویٹ پریپ کورس کی بندش سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ وہ کسی کی بات نہیں سنتے اور صرف اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں مختلف ایشوز کے حوالے سے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ چند ایک امور میں ون مین شو کا تاثر ضرور ملتا ہے، جیسے آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ۔ چند ایک معاملات میں اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ روزانہ ٹی وی چینلوں پر حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
٭ خلاصہ
ترکی ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں کئی معاملات عشروں سے الجھے ہوئے ہیں۔ بہت سے مسائل کا اب تک کوئی بھی حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ ایسے میں کسی بھی حکومت کے لیے ناممکن ہے کہ اس کا مکسڈ ریکارڈ نہ ہو۔ چند ایک معاملات میں ناکامیاں بھی ہاتھ آتی ہیں اور چند معاملات بھرپور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا سراسر بے بنیاد ہے کہ اے کے پارٹی میں ون مین شو چل رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج پارٹی کے ۷۰ لاکھ رجسٹرڈ ارکان نہ ہوتے۔ بوہرلر اور کاپوسوز کا کہنا ہے کہ اے کے پارٹی مجموعی طور پر عوامی پارٹی ہے۔ اس نے اب تک جمہوریت کی طرف سفر اچھی طرح طے کیا ہے۔
لاکھ کوشش کے باوجود مخالفین یہ ثابت نہیں کرسکے کہ پارٹی مغربی طاقتوں سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔ تمام بڑی مغربی طاقتوں سے بہتر تعلقات استوار کیے گئے ہیں۔ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے بھی اے کے پارٹی زیادہ قابل مذمت کبھی نہیں رہی۔ مجموعی طورپر جمہوریت کے لیے اے کے پارٹی کا کردار بہت اچھا رہا ہے۔ اس نے کوشش کی ہے کہ معاملات کو کسی نہ کسی طور سلجھایا جائے، مسائل حل کیے جائیں۔
پارٹی نے اب تک مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ اصلاحات پر توجہ دی ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے لبرل عناصر بھی مانتے ہیں اور اِسی کی بنیاد پر وہ اے کے پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پارٹی کے قائدین اور سیاسی تجزیہ کاروں کی اجتماعی رائے یہ ہے کہ اے کے پارٹی نے اب تک یہ تاثر دیا اور ثابت کیا ہے کہ وہ اصلاحات پر یقین رکھتی ہے۔ کہیں کہیں ریاست زیادہ بھاری دکھائی دیتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بھی جمہوریت اور اصلاحات کے لیے اے کے پارٹی کی کمٹمنٹ کم نہیں ہوئی، جذبہ سرد نہیں پڑا۔
جب کہ دیمرل کا کہنا ہے کہ وہ (اے کے پارٹی) اب ایک ماہر شماریات کے طور پر عمل کر رہی ہے، لیکن وہ ترکی کی سیاسیات میں بہر طور ایک بہتر ایکٹر کی مانند باقی رہے گی۔ ان کے خیال میں: ’’یہ تمام تنقیدات ،ایک ردعمل کی طرح ہیں کہ ترکی نے مواقع گنوا دیے‘‘۔ افسوسناک اقدامات جیسے کہ: انقرہ میں ۲۹ اکتوبر کو جشنِ جمہوریت کے دن عوامی مارچ پر پابندی لگائی گئی کہ اس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی کا اندیشہ تھا، جس کی وجہ سے اے کے پارٹی پر تنقید بڑھ گئی اور لوگ کہنے لگے کہ پارٹی حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہے۔ دیمرل نے اس واقعہ کی بنیاد پر کہا کہ ’’اے کے پارٹی کوئی ایسی کوشش نہیں کررہی جس سے ۲۵ سے ۳۰ فی صد تک ووٹروں کے خدشات دور ہو سکیں اور جو بہت بڑی حد تک اس کے انتہائی مخالف ہیں‘‘۔لیکن اس کے باوجود یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ معاشرے کا ایک حصّہ جو اے کے پارٹی کا مخالف ہے ، وہ صرف تماش بین ہے۔
اگرچہ اے کے پارٹی کی خارجہ پالیسی پر حالیہ دنوں میں زبردست تنقید کی گئی اور جس بات کے لیے اس کو ہدف بنایا گیا وہ یہ کہ اُس نے غیر ضروری طور پر علاقائی لیڈر بننے کی کوشش کی، جس کے لیے نہ تو اس کی صلاحیت تھی اور نہ ہی علاقے کے زمینی حقائق کا ادراک تھا۔ داخلی امور میں تمام سروے رپورٹوں کا کہنا تھا کہ اے کے پارٹی کے ایسے ووٹر جو پارٹی پالیسیوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں، ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی اصلاحات جس کو عام طور پر ۴+۴+۴ کہا جاتا ہے، ایسی ہی ایک مثال ہے، جس کی بنیادی وجہ وہ عملی مشکلات ہیں جو طلبہ کو عمومی طور پر اسکول میں پیش آتی ہیں، جنہیں اچانک ایک طریقہ کار سے بدل کر ایک نئے طریقہ کار کا پابند بنایا گیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے ضروری اقدامات کیے ہی نہیں گئے تھے، جن کی فی الواقع ضرورت تھی۔
اے کے پارٹی کے پچھلے کارناموں کے باوجود یہ جانچنا بھی ضروری ہے کہ ممکنہ متبادل کیا ہے، بابوجودیہ کہ ترکی کو بہت بھاری مسائل کا سامنا ہے۔ یہ کہنا کسی طرح بھی پیش بینی نہیں ہوسکتی کہ اے کے پارٹی اور اس کے قائد اردوغان کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی جائے کہ وہ نئی جمہوریہ ترکیہ میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں۔ لیکن اے کے پارٹی کا ورثہ اس بات پرمنحصر ہے کہ اردوغان کی خواہش ہے کہ وہ صدر بن جائیں اور موجودہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کر سکیں، جس کو وہ بہر طور ’’دو سر والا ‘‘ (Double-Headed) نظام تصور کرتے ہیں، تاکہ وہ ۲۰۱۴ء میں ہونے والے انتخابی معرکہ میں حصّہ لے سکیں، اور آنے والے سالوں کے دوران اس کے بہرطور اثرات ان کی پارٹی پر مرتب ہوں گے۔
(“AK Party Legacy a Mixed Record on Democratization, EU Reforms”…”Today’s Zaman” Turkey. Oct. 31st, 2012)
Leave a Reply