
۱۲ ؍اور ۱۳ ستمبر کو ترک وزیراعظم کی جماعت انصاف و ترقی پارٹی (اے کے پی) نے اپنا سالانہ اجلاس انقرہ کے ایک وسیع و عریض ہال میں منعقد کیا۔ یہ پارٹی کا پہلا ایسا اجلاس تھا جس میں پارٹی کے ’’ابدی راہنما‘‘ رجب طیب ایردوان بنفسِ نفیس موجود نہیں تھے، کیونکہ ترکی کے آئین کے مطابق تکنیکی طور پر وہ ایک غیر جانبدار صدر ہیں۔ لیکن درحقیقت ایردوان کی روح ہر جگہ موجود تھی اور ہر دفعہ سے زیادہ فیصلہ کن انداز میں پارٹی پر اپنا اثر چھوڑ رہی تھی۔ نتیجتاً اے کے پارٹی کے کچھ کلیدی آزمودہ کار، جنہوں نے بعض اوقات ایردوان سے اختلاف کرنے کی جرأت کی تھی اور جو جماعت سے باہر اعتدال پسندوں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جماعت کی مرکزی فیصلہ ساز کمیٹی سے بے دخل کر دیے گئے۔ جبکہ اسی دوران میں شدت پسندوں اور وفاداروں کو ترقیاں مل گئیں۔
اس قسم کا اجلاس اے کے پی ترکی کی دیگر جماعتوں کی طرح ہر سال منعقد کرتی ہے جس میں ترکی بھر سے ایک ہزار کے قریب مندوبین شرکت کرتے ہیں اور جماعت کے راہنما اور مرکزی کمیٹی کو منتخب کرتے ہیں۔ اے کے پی میں یہ کمیٹی ۵۰ ارکان پر مشتمل ہے جو پابندی سے ملتے ہیں اور پالیسی متعین کرتے ہیں۔ تاہم درحقیقت اے کے پی کا نظام ’’نیچے سے اوپر‘‘ کے بجائے ’’اوپر سے نیچے‘‘ کے انداز میں زیادہ کام کرتا ہے۔ دیگر الفاظ میں مندوبین اور مرکزی کمیٹی جماعت کے راہنما کے فیصلوں کی توثیق کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔
اس سال جبکہ ایردوان ابدی راہنما کے طور پر چھائے ہوئے تھے، اس بات کو آسان لیا جارہا تھا کہ موجودہ وزیراعظم احمد دائود اولو دوبارہ پارٹی سربراہ منتخب ہو جائیں گے۔ لیکن اجلاس سے چند روز پہلے ذرائع ابلاغ کو دائود اولو اور ایردوان کے درمیان کشیدگی کے بارے میں رپورٹیں ملیں اور یہ خبر ملی کہ صدر کے پاس ایک ’’پلان۔بی‘‘ ہے جس کے مطابق وہ اپنے ایک وفادار سابق وزیر ٹرانسپورٹ بِنالی یلدرم کو نیا پارٹی سربراہ بنانا چاہتے ہیں۔ مبینہ طور پر دائود اولو نے مرکزی کمیٹی کے لیے ناموں کی ایک فہرست مرتب کی تھی مگر ایردوان نے اسے پسند نہ کیا اور اپنی الگ فہرست تجویز کی۔ جب دائود اولو نے مزاحمت کی تو ایردوان کے آدمیوں نے ۹۰۰ مندوبین کو خالی کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے راضی کرلیا، جس کے بعد اگر ایردوان دستخط کر دیتے تو وہ یلدرم کی حمایت کرنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ آخری لمحوں میں دائود اولو پیچھے ہٹ گئے۔ آخر میں ایردوان کی فہرست منظور ہو گئی اور بحران ٹل گیا۔ جو مرکزی کمیٹی ایردوان نے ترتیب دی ہے، وہ نمایاں طور پر ایسے کئی لوگوں سے خالی ہے جنہیں دائود اولو نے اپنی ٹیم میں رکھنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
ایردوان اور عبداللہ گل کے ساتھ ساتھ بلند آرِنَس اے کے پی کے تین بانی ستونوں میں سے ایک ہیں۔ آرِنَس جماعت کے اندر کئی برس سے ایک اعتدال پسندی اور توازن کی حامی آواز رہے ہیں۔ خواتین کے معاشرے میں کردار پر ان کے کچھ قدامت پرست بیانات نے حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کو بالکل صحیح ناراض کیا تھا، لیکن اس کے علاوہ انہوں نے اے کے پی کی دوسری مدت کے دوران سیکولروں کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی۔ انہوں نے ۲۰۱۳ء میں غازی پارک کے مظاہرین کے خلاف ایردوان کے شدت پسندانہ موقف کی بھی مخالفت کی تھی اور حال ہی میں انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کرنے اور ایک آدمی کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش پر ایردوان پر تنقید کرنے کی جرأت کی۔ ۱۱؍ستمبر کو شائع ہونے والے انٹرویو میں جس کا بہت زیادہ حوالہ دیا جارہا ہے، آرِنَس نے کہا کہ ’’ہم ’ہم سب‘ کی جماعت تھے مگر اب ہم ایک ’میں‘ کی جماعت میں بدل گئے ہیں‘‘۔
علی بابا جان اور محمد سِم سیک دو اہم وزراء ہیں جنہوں نے کئی سالوں تک کافی کامیابی کے ساتھ ترکی کی معیشت کی نگرانی کی۔ خاص طور پر بابا جان، جو ۲۰۰۲ء سے اب تک وزارت سنبھالے رکھنے والے اے کے پی کے واحد رکن ہیں جو کاروباری برادری اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سامنے معاشی منطق پسندی اور استحکام کی علامت بن کر سامنے آئے۔ دونوں نے حال ہی میں اپنی حیثیت کھو دی۔ کیونکہ وہ ایردوان کے ’’شرح سود لابی‘‘ کے بارے میں سازشی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے اور دونوں نے اس وقت مرکزی بینک کی آزادی کا دفاع کیا جب ایردوان نے اس پر غداری کا الزام لگایا۔
بابا جان اور سِم سیک کا چلے جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک نئی معاشی سوچ اے کے پی کی راہنمائی کرے گی جو مغربی سازشوں اور زیادہ قوم پرستانہ، آزاد ماڈل میں یقین رکھنے جیسی خصوصیات سے مزیّن ہوگی۔ ایردوان کے کلیدی معاشی مشیر (اور مرکزی سازشی نظریہ ساز) یِجیت بُلَت نے اپنے ۱۲؍ستمبر کے اخباری کالم میں کچھ اسی قسم کا اعلان کیا ہے۔ وہ خوشی خوشی لکھتے ہیں کہ ’’نیو لبرل ماتحتی کا دور ختم ہو رہا ہے‘‘ توقع ہے کہ ایردوان کے داماد بَیرت البائیرک، جو ہم خیال سوچ رکھتے ہیں اور مرکزی کمیٹی میں منتخب بھی ہیں، معیشت میں اس نئے دور کو لانے کے لیے بااثر کردار ادا کریں گے۔
سعداللہ ایرگِن ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۱ء تک اے کے پی کے وزیر انصاف تھے، اس وقت جب اے کے پی نے لبرل قانونی اصلاحات نافذ کی تھیں، جنہیں یورپین یونین نے بھی سراہا تھا۔ ایرگِن گزشتہ دو سال میں قانون کی حکمرانی سے انحراف کے ناقد سمجھے جاتے تھے۔ کُرد قوم پرست ملیشیا کردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ ’’امن عمل‘‘ کے کلیدی خالقوں میں سے ایک بصیر اتالائے بھی اعتدال پسندوں میں سے سمجھے جاتے تھے۔ یہ تمام نمایاں اعتدال پسند جماعت کے اولین سالوں کی سیاست کی واپسی کے خواہاں رہے ہیں اور ایردوان کے ’’صدارتی نظام‘‘ پر قائم نیا آئین بنانے کے خبط کے حامی نہیں ہیں۔ ان سب میں کچھ اور مشترک ہے اور وہ ہے سابق صدر عبداللہ گل کے ساتھ ہمدردی اور تعلقات۔ عبداللہ گل کو ایردوان نے لبرل سیاسی نظریات کی وجہ سے کنارے لگا دیا ہے۔
دریں اثنا پارٹی کے اجلاس میں جن لوگوں کو سراہا گیا، ان میں اے کے پی کے ابھرتے ہوئے ۲۸ سالہ رکنِ قومی اسمبلی عبدالرحیم بوائینو کلین بھی شامل ہیں، جو اے کے پی کی نوجوان تنظیم کے سربراہ ہیں۔ بوائینو کلین ۷ ستمبر کو شہہ سرخیوں میں آئے جب انہوں نے ایردوان کے حامیوں کے ایک بڑے گروہ کی قیادت کرتے ہوئے روزنامہ ’’حریت‘‘ کے دفاتر پر حملہ کیا اور ایک رپورٹ کے بارے میں احتجاج کرتے ہوئے کھڑکیاں توڑ ڈالیں، جس میں ان کے خیال میں ایردوان کی بے عزتی کی گئی تھی۔ پرتشدد احتجاج کے دوران بوائینو کلین نے ’’حریت‘‘ کے ناشر ’’دوگان میڈیا گروپ‘‘ کی مذمت کی اور اسے دہشت گرد تنظیم کہا اور عزم ظاہر کیا کہ آنے والے نومبر انتخابات کے بعد یہ تنظیم ترکی سے نکال باہر کی جائے گی۔ اے کے پی نے اس واقعہ پر معذرت نہیں کی ہے بلکہ اس کے برخلاف جنگجو بوائینو کلین کی تقرری طریقہ کار بہتر بنانے والے بیورو میں کرکے انہیں مزید ترقی دے دی گئی۔
مختصراً یہ کہ اے کے پی جس نے شاندار لبرل اصلاحات نافذ کرکے ترکی کو یورپی یونین کے ساتھ کھڑا کیا تھا، اب وہ نہیں رہی۔ اعتدال پسند، جن میں زیادہ تر انہی یادگار سالوں کی باقیات ہیں، ایک ایک کرکے جارہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جو ابھی بھی کشتی میں سوار ہیں اور وہ تمام لوگ جو فی الوقت اسے چلا رہے ہیں، ان کے انتخاب کا ایک ہی سادہ معیار ہے اور وہ ہے ایردوان سے وفاداری اور ان کے دشمنوں کے لیے مخاصمت۔
اے کے پی درحقیقت ’’ایک ’میں‘ کی جماعت‘‘ بن چکی ہے۔ جیسا کہ آرانک نے کہا تھا اور یہ ’میں‘ بہتر بلند پرواز، جارحانہ اور غصہ ور ہے۔
“AKP to its moderates: don’t let the door hit you on your way out”. (“al-monitor.com”. Sept. 16, 2015)
Leave a Reply