
ترکی کا دیرینہ حل طلب مسئلہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک حکومت کے لیے کرد باغیوں کا مسئلہ انتہائی گھمبیر رہا ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے سے اب تک کرد باغیوں کی سرگرمیوں نے ہر ترک حکومت کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اے کے پارٹی کی حکومت کو بھی یہ مسئلہ ترکے میں ملا ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی دہشت گردی کے ہاتھوں ہزاروں جانیں گئی ہیں۔
۱۹۹۰ء کا پورا عشرہ اس معاملے میں ضائع ہوا۔ فوجی حکومت نے کسی بھی معاملے میں کردوں کی بات سننے سے صاف انکار کیا اور کرد باغیوں کا معاملہ طاقت کے استعمال کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔ کردوں کو چند ایک معاملات میں رعایت ملنی چاہیے۔ ان کے چند سنجیدہ مسائل ہیں۔ تمام ہی کرد، باغی نہیں۔ اے کے پارٹی نے پروجیکٹ آف نیشنل یونٹی اینڈ فریٹرنٹی (Kurdish Opening) کے ذریعے کردوں سے بات کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں صدر عبداللہ گل نے یہ منصوبہ لانچ کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ اب کردوں سے معاملات طے کرنے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملے گی۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب ۲۰۱۲ء کے آخری لمحات میں یہ بات صاف محسوس کی جاسکتی ہے کہ کرد باغیوں کے معاملے کو طے کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ جنوبی ترکی میں اب بھی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ کردوں سے مذاکرات کا معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ حکومت کے لیے کئی حوالوں سے مشکلات برقرار ہیں۔
اے کے پارٹی کے نائب سربراہ صالح کاپوسوز کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایمرجنسی رول ریجن (OHAL) اے کے پارٹی کی حکومت کے قیام سے بارہ دن قبل ہی ختم کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ’’علیحدگی پسند کرد پارٹی پی کے کے تمام ہی کردوں پر اپنے اثرات برقرار رکھنا چاہتی ہے‘‘۔ وہ علاقے میں کسی بھی نوع کی پیش رفت کے خلاف ہے۔ اے کے پارٹی چاہتی ہے کہ ’’کردوں کے چند جائز مطالبات پہلے مرحلے میں تسلیم کرلیے جائیں مگر زبان کے معاملے میں ان کی ترجیح کا احترام کیا جائے اور کرد زبان کا ایک ٹی وی چینل قائم کیا جائے‘‘۔
نیشنل موومنٹ پارٹی (MHP) کے ڈپٹی چیئرمین اوکتے وورال (Oktay Vural) کہتے ہیں کہ اے کے پارٹی نے قومی سطح پر پائے جانے والے اختلافات پر زیادہ توجہ دی ہے، جس کے نتیجے میں بہت سی بنیادی اقدار فراموش ہوکر رہ گئی ہیں۔ کہیں کہیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم معاشرتی اور سیاسی سطح پر محض طاقت کے استعمال ہی کو معاملات کے نمٹانے کا بہترین طریقہ سمجھنے لگے ہیں۔ طویل مدت تک فوجی اقتدار میں جینے کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ محمد تیکیلی اوغلو کہتے ہیں کہ ہابر کا سانحہ (Habur Incident) کرد بحران کے حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گیا۔ ہابر کے مقام پر عراق سے کرد باغی ترکی میں داخل ہوئے اور مقامی لوگوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ اس واقعے سے پورے ترکی میں کردوں کے خلاف غم و غصہ شدت اختیار کرگیا۔
سانحہ اولودیئر۔۔بحران کی جانب ایک اور قدم
۲۰۱۱ء میں اولودیئر کے واقعے نے بھی کرد بحران کو مزید سنگین کردیا۔ باغیوں کی موجودگی کی (غلط) اطلاع پر ترک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے کردوں کی ایک پارٹی پر بم برسا دیے جس کے نتیجے میں ۳۴؍ افراد مارے گئے۔ اس واقعے نے اے کے پارٹی میں کرد بحران پر اختلافات پیدا کردیے۔ ملک گیر سطح پر طویل بحث چھڑی اور اے کے پارٹی پر بھی ریاستی مشینری کا حصہ بننے اور معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی راہ پر گامزن ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ لبرل کالم نگار گُلے گوکترک (Gulay Gokturk) کا کہنا ہے کہ اے کے پارٹی اولودیئر کے معاملے میں فوج کی ہم نوائی کرتی دکھائی دی۔ نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن کیس میں اس نے انڈر سیکرٹری ہاکان فدان (Hakan Fidan) کی ہم نوائی کی۔ انڈر سیکرٹری سمیت پانچ اعلیٰ افسران کو اولودیئر کیس میں گواہی کے لیے طلب کیا گیا۔ سلیم سادات اے کیس میں بھی اے کے پارٹی نے اس پولیس افسر کا ساتھ دیا جبکہ یورپی یونین کے انسانی حقوق کے شعبے نے قیدیوں کو اذیت دینے کے حوالے سے اس پر تنقید کی تھی۔ ایسے ہی کئی معاملات میں اے کے پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ریاست در ریاست کا درجہ اختیار کرتی جارہی ہے۔
اے کے پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے ڈپٹی چیئرمین نوریتن سینیکی کہتے ہیں کہ اولودیئر کیس میں یہ بات اب تک ثابت نہیں ہوسکی کہ بمباری جان بوجھ کر کی گئی تھی۔ قانونی طور پر کوئی بھی کارروائی محض مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ ہم نے پارلیمانی ہیومن رائٹس انویسٹی گیشن کمیشن کے چیئرمین سے بھی بات کی۔ جنہوں نے تسلیم کیا کہ فوٹیج کی مدد سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ دانستہ کیا گیا تھا۔
اے کے پارٹی پر معاملات کو جوں کا توں رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے مگر صالح کاپوسوز کہتے ہیں کہ ایسا ہوتا تو اے کے پارٹی ہرگز اقتدار میں نہ ہوتی۔ معاملات کو بدلے بغیر اقتدار میں رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ اے کے پارٹی نے تعلیم، توانائی، صحت اور قومی یکجہتی پر غیر معمولی توجہ دی۔ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول اور سر پر اسکارف رکھنے کی ممانعت کے خلاف سینہ سپر ہوئی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پارٹی کسی بھی چیلنج سے ڈرنے والی نہیں۔ کو آپریشن فار سکیورٹی اینڈ پبلک آرڈر پروٹول کا خاتمہ شجر ممنوعہ تھا مگر یہ کام پارٹی نے کیا۔ اس پروٹوکول کے تحت فوج کو کہیں بھی کارروائی کے لیے سویلین حکومت سے منظوری یا تائید درکار نہ تھی۔
سی ایچ پی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین فیض اوزتریک کا کہنا ہے کہ اے کے پارٹی نے معاملات کو جوں کا توں رکھنے پر زیادہ توجہ دی ہے۔
سینیکی کا کہنا ہے کہ کورٹ آف اکاؤنٹس لا سے کسی بھی طور فوج کے اکاؤنٹس کو بالائے احتساب نہیں رکھا جاسکتا۔ ان کا استدلال ہے کہ نئے آڈٹ سسٹم کے تحت کسی بھی اعتبار سے کوئی ادارہ استثنٰی نہیں پاسکتا۔ ماضی میں آڈٹ بھی تحاکمانہ اور آمرانہ انداز سے ہوا کرتا تھا۔ اب فوجی اکاؤنٹس کا بھی آڈٹ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ٹرکش اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ فاؤنڈیشن (TESEV) کی رپورت حقائق بیان نہیں کرتی۔
سیاسی تجزیہ نگار تانیل دیمیرل کہتے ہیں کہ حکومت کچھ تھکی ہوئی سی لگتی ہے۔ دائیں بازو کے لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ انفرادی سطح پر تو خرابی، کرپشن اور بیڈ گورننس ممکن ہے مگر خود حکومت یا ریاست کوئی غلط کام نہیں کرسکتی! اب اے کے پارٹی کے لیے بظاہر کوئی خطرہ نہیں رہا، اس لیے قوم پرستی کے نام پر یہ تصور ابھارا جارہا ہے یا ابھر رہا ہے کہ ریاست کوئی غلطی نہیں کرسکتی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ تانیل دیمیرل کہتے ہیں کہ اے کے پارٹی میں کسی بھی بحران سے نپٹنے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی بحران سر اٹھاتا ہے، تب اے کے پارٹی میں اس سے نپٹنے اور مصالحت کو اپنانے کا میکینزم ابھر آتا ہے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
Leave a Reply