الفتح اسرائیل کا ساتھ نہ دے
منیٰ منصور مغربی کنارے سے فلسطینی قانون ساز اسمبلی کی رکن ہیں۔ وہ حماس کے شہید رہنما جمال منصور کی بیوہ ہیں۔ جمال منصور کو چھ سال قبل اسرائیلی حکومت نے شہید کر دیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کی مخالفانہ پالیسیوں اور اسرائیلی دبائو کے باوجود منی منصور نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے ۔ وہ حماس کے ان بیسیوں ارکان پارلیمنٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوشاں ہیں جنہیں اسرائیلی نے جیلوں میں ڈالا ہواہے وہ فلسطینی عوام میں سر گرم عمل ہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے اسرائیلی اور فلسطینی سیکورٹی فورسز کی ہم آہنگی سے مسئلہ فلسطین اور فلسطینی قومی وحدت کو پہنچے والے نقصانات اور حماس کی حکومت کے خلاف کی جانے والی مشترکہ اسرائیل امریکی فلسطینی سازشوں کے حوالے سے انٹرویو کیا انٹرویو کا متن پیش خدمت ہے ۔ واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کی سازش کے بعد غزہ کی پٹی پر مکمل طور پر حماس کا کنٹرول ہے مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس کی حکومت ہے جب کہ عملی طور پر اسرائیلی افواج کا قبضہ ہے ۔
٭ آپ کو فلسطینی عوام نے منتخب کیا ہے فلسطینی قانون ساز اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے؟
٭٭ میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی ہوں۔ میری زندگی میں یہ ایک نیا تجربہ ہے جو محنت ، کاوش، تفریح اور جدو جہد سے بھر پور ہے۔ اس دوران مجھے ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا میں نے زندگی میں سوچا تک نہ تھا۔اسمبلی میں پہلے دن سے لے کر آج تک ہمیں غیر متوقع واقعات کا سامنا ہے ۔ بد قسمتی سے ان میں سے اکثر ناخوشگوار واقعات ہیں ۔ شروع میں انتہائی جذبے ، محنت، سر گرمی اور سنجیدگی سے کام کیا۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ہم فلسطینی عوام کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے لیکن ابھی ہم نے کام شروع کیا ہی تھا کہ فتح والوں نے ناک چڑھانا شروع کر دیا۔ انہوں نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ ہمارے لیے یہ ایک غیر متوقع اقدام تھا۔ ہم پر طرح طرح کے دبائو ڈالے گئے ۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران فتح کی طرف سے اسمبلی کی عمارت کو جلانے کی کوشش کی گئی ۔ مسلح فلسطینیوں نے ارکان اسمبلی کو اغوا کیا۔ ہمیں رام اللہ میں بعض مسلح افراد کی جانب سے ایک عمارت میں محاصرے میں رکھا گیا۔ سب سے بڑا مشکل مرحلہ ۴۲ ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کا پیش آیا۔ فتح کے ارکان نے پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ہمارے ارکان گرفتار کر لیے گئے ۔ اسمبلی کے اجلاس کے لیے کورم پورا نہیں ہوتا تھا۔ یہ وہ سب سے بڑا مسئلہ تھا جو پارلیمنٹ کے کام میں رکاوٹ بنا۔
ہم نے ضلعوں میں قائم اپنے دفاتر میں پوری طاقت سے کام شروع کیا۔ میری ذمہ داری شمال مغربی کنارے کے علاقے میں تھی۔ شمال مغربی کنارے کے حماس کے تمام ارکان اسرائیلی جیلوں میں بند تھے۔ اتنی بڑی ذمہ داری، مشقت اور کاوش کے باوجود میں اپنے کام میں تفریح محسوس کرتی تھی۔ لیکن اب جب سے فتح کے مسلح افراد نے مغربی کنارے میں حماس کے تمام دفاتر جلا دیے ہیں ۔ ہمارے لیے کام میںبہت مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس نے سلام فیاض کی وزارت عظمیٰ میں ایمرجنسی حکومت تشکیل دی ہے ۔ حکومت کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لیے فلسطینی صدر نے اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ حماس کے تمام ارکان اجلاس میں شرکت کے لیے آئے لیکن جنہوں نے اجلاس بلایا تھا، وہ خود نہیں آئے ۔ اب ہم مغربی کنارہ میں ایک ایسی حکومت کے ساتھ کام کر رہے ہیں جسے پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل نہیں اور یہی بات شہریوں کے مسائل حل کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔
میرا خیال نہیں کہ جو مشکلات ہمیں پارلیمنٹ چلانے میں پیش آئی ہیں دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ پہ ایسے حالات نہ آئے ہوں گے ۔ بحیثیت خاتون میں اپنی زندگی کی بڑی کٹھن آزمائشوں اور مشکلات سے گزر رہی ہوں۔ میرے شوہر نے اسرائیلی اور فلسطینی اتھارٹی کی جیلیں کاٹیں ، ہمیشہ ان کا پیچھا کیا جاتارہا۔ بالآخر وہ شہید کر دیے گئے۔ لیکن گزشتہ ایک سال جو میں نے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے گزارا ہے، اس میں مجھے جن آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑا ہے وہ بیس سال پر بھاری ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رکن پارلیمنٹ کا تجربہ انتہائی مشکل اور صبر آزما تھا۔
٭ ان تکلیف دہ حالات میں بحیثیت رکن پارلیمنٹ اب آپ کے کام کی کیا نوعیت ہے؟
٭٭ میں ذاتی طور پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بیرونی میڈیا سے رابطے کرتی ہوں۔ ہماری کوشش ہے کہ اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے زمینی حقائق اور فلسطینیوں کی حالت زار دنیا تک پہنچائی جائے۔ میں خیراتی تنظیموں، اداروںسے رابطے کرتی ہوں، معذوروں، نابینائوں ، اورمحتاجوں سے ملتی ہوں اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ لوگوں کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتی ہوں ۔ ہم سیاسی قیدیوں سے ملاقاتوں کے لیے جاتے تھے لیکن اب قیدیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یورپی یونین کے ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ فتح کے علاوہ کسی اور فلسطینی گروپ کو دعوت دی گئی ہو ۔ لیکن میرا پاسپورٹ حکومت نے ضبط کیا ہوا ہے ۔ میں سفر نہیں کر سکتی۔ ترکی میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت ہے لیکن شریک نہیں ہو سکوں گی ۔
٭ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حماس سیاسی نا تجربہ کاری کا شکار ہوئی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گی؟
٭٭ حماس سیاسی طور پر نا تجربہ کار نہیں لیکن اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ سیاسی مہارت کا مطلب حقوق اور اصولوں سے دستبرداری ہے تو حماس فلسطینی عوام کے حقوق اور اصولوں کا کبھی سودا نہیں کرے گی ۔ حماس کی حکومت کو نام کام بنانے کے لیے اول دن سے ہی سازشیں شروع کر دی گئی تھیں۔ امریکی اسرائیلی سازش تھی کہ حماس کی حکومت چلنے نہ پائے۔ اس سازش میں ہمارے بھائی شریک تھے۔ملازموں کی تنخواہیں روک لی گئیں محصولات بند کر دیے گئے زندگی مفلوج کر دی گئی ۔ حماس کا یہ حال تھا کہ گو یا ہر طرف سے اس کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی گئی ۔
٭ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس بارے میں کیا کہیں گی، مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے درمیان ہم آہنگی اور غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے ؟
٭٭ مغربی کنارے میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے بالخصوص فلسطینی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی افواج کے درمیان ہم آہنگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ سیاسی قیدیوں کو فلسطینی سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں میں اسرائیلی رکاوٹوں سے گزر کر منتقل کیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ طاقت سے فلسطینی عوام کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے ۔ ایک طرف اسرائیلی افواج گرفتاریاں کر رہی ہے تو دوسری طرف فلسطینی سیکورٹی فورسز شہریوں کو جیلوں میں بند کر رہی ہے ۔ فلسطینی خود اسرائیل کے ہاتھ میں کھلونا بن گئے ہیں قبل ازیں ۱۹۹۶ء میں بھی ایک فوجی ہم آہنگی ہوئی تھی۔ حماس ابھی تک زخموں پر مرہم لگانے میں مصروف ہے تاکہ قومی وحدت کی حفاظت کی جا سکے ۔ فلسطینی صدر محمود عباس فلسطینیوں کی مجوزہ مشرق و سطی امن کانفرنس میں شریک ہو کر وہ اسرائیل کے شکنجے میں چلے جائیں گے۔ اسرائیل سے مذاکرات کرنے میں طاقت کا عنصر ہونابہت ضروری ہے۔ داخلی اختلافات کے باوجود کانفرنس میں شرکت محمود عباس کی بہت بڑی کمزوری ہو گی ۔
٭ گزشتہ دنوں میں آپ کو بہت دھمکیاں ملی ہیں۔ کیا آپ نے کوئی قانونی اقدامات کیے ہیں؟ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے سرکاری طور پر آپ کو کوئی تحفظ فراہم کیا گیا ہے؟
٭٭ جامعہ نجاح کی اسلامی جمعیت طالبات کی حمایت ، حق بات کہنے ، حقیقت سامنے لانے اور درست موقف اختیار کرنے کی وجہ سے مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں۔ میں نے دھمکیاں اور گالیاں دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے لیکن مغربی کنارے کے موجودہ حالات کے باعث کوئی وکیل میری وکالت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جو کوئی بھی میرا وکیل بنے گا اسے بھی دھمکیاں دی جائیں گی۔ البتہ فلسطینی عوام کی جانب سے میری بڑی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، تعاون کے لیے مجھے ان گنت فون موصول ہوئے ہیں۔ لوگوں نے فون کر کے دھمکیوں کی مذمت کی ہے اور ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی ہے عوامی محاذ کے رکن پارلیمنٹ خالد جرار نے فون کر کے دھمکی کے واقعات کی مذمت کی، اسلامی جہاد کی جانب سے جلوس پر لاٹھی چارج کیے جانے اور آنسو گیس پھینکے جانے کی مذمت کی گئی جس میں میں شریک تھی۔
٭ موجودہ داخلی بحران کے ہوتے ہوئے آپ کا کیا اندازہ ہے کہ حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات ہو سکتے ہیں؟
٭٭ یقینا ہماری زمین پر اسرائیل قابض ہے، وہ فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ پناہ گزینوں کا حق واپسی تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔ اپنے اہداف کے حصول اور حقوق کی واپسی کے لیے صرف اور صرف مذاکرات کا راستہ باقی ہے تاکہ متحد ہو کر قابض فوج کے خلاف مزاحمت شروع کی جائے ۔ موسم خزاں آرہا ہے ۔ پتے گرنے شروع ہو گئے ہیں ۔فلسطینی مفادات کے خلاف سیاست کرنے والے ننگے ہو جائیں گے ۔ شام کے دارالحکومت میں فلسطینی گروپوں کی مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ کون مذاکرات کا حامی ہے اور کون فلسطینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قومی وحدت سے فرار اختیار کرتا ہے ۔
(بحوالہ: پندرہ روزہ ’’ جہاد کشمیر ‘‘ یکم تا ۱۵ دسمبر ۲۰۰۷ء ، مظفر آباد)