میں ۴ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد میں ’’الجزیرہ‘‘ کے دفتر کی چھت پر کھڑا تھا۔ میرے چاروں طرف تیل کے شعلے اور جلتی ہوئی عمارتوں کے مناظر تھے ۔ دفتر سے قریبی پبلک پارک میں لگی اینٹی ایئر کرافٹ گنیں آسمانوں کی طرف گولے برسارہی تھیں۔ پورا شہر جیٹ طیاروں کی آواز سے گونج رہا تھا۔ میں الجزیرہ کے ہیڈ آفس قطر کے ساتھ رابطہ کرکے دو طرفہ انٹرویو شروع کرنے والا تھا کہ دریائے دجلہ کے اوپر سے ہوتا ہوا ایک امریکی راکٹ آیا‘ اس کی گڑگڑاہٹ سن کر قطر میں ہمارا ٹیکنیشن چیخنے لگا‘ اس نے اپنے ایئر فون پر راکٹ کی آواز سنی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا’’کیا یہ وہی کچھ ہے‘ جو میں سمجھا ہوں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’شاید تم ٹھیک سمجھے ہو!‘‘ اسی دوران ایک سفید کروز میزائل چنگھاڑتا ہوا دریائے دجلہ کے پل کے نیچے سے گزر کر غائب ہوگیا۔
میں ٹیلی ویژن کی ڈیمانڈکے مطابق بلندی سے بغداد شہر کے مناظر کی عکس بندی کرکے نیچے الجزیرہ کے نیوز روم میں پہنچا‘ جہاں فلسطینی بیورو چیف طارق ایوب اپنی اگلی رپورٹ کی تیاری میں مصروف تھا۔ میں نے اس سے کہا ’’تمہارا ٹیلی ویژن آفس دنیا کی خطرناک ترین جگہ پر واقع ہے۔‘‘ میں نے اسے مزید بتایا کہ ’’تمہارے ٹی وی کی نشریات پوری عرب دنیا میں دیکھی جاتی ہیں تم عراق پر امریکی بمباری کا شکار ہونے والے سویلین لوگوں کی کوریج کرتے ہو۔ اگر امریکی تمہاری کوریج روکنا چاہیں تو تمہارے دفتر کو بڑی آسانی سے ٹارگٹ بناسکتے ہیں۔‘‘ طارق نے جواب دیا ’’رابرٹ! آپ فکرمند نہ ہوں۔ ہم نے اپنے دفتر کے صحیح محل وقو ع کے بارے میں امریکیوں کو بتادیا ہے لہٰذا وہ ہمیں نشانہ نہیں بنائیں گے۔‘‘ ٹھیک تین روز بعد طارق ایوب مارا گیا۔
الجزیرہ نے پنٹاگون کو اپنے دفتر کے نقشے فراہم کردیئے تھے قطر مین امریکی محکمہ خارجہ کا افسر تعلقات عامہ نبیل کھوری‘ جو لبنانی نژاد تھا ۶ اپریل کو الجزیرہ کیا نتظامیہ کو یقین دہانی کرانے گیا کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ پھر ۷ اپریل کو سات بج کر ۴۵ منٹ پر طارق ایوب اسی چھت سے کوریج کررہا تھا جہاں کچھ دن پہلے میں کھڑا تھا۔ ایک امریکی جیٹ دریائے دجلہ کی اوپر سے اڑتا ہوا آیا اور ایک میزائل الجزیرہ پر فائر کیا۔ طارق اس کے دھماکے کی نظر ہوگیا ۔ یہ حملہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں تھا۔ طارق کے ساتھی تاثیر الونی نے مجھے بتایا ’’جہاز اتنا نیچا تھا کہ ہمیں یوں لگا یہ چھت پر اتر جائے گا۔‘‘ تاثیر کو یاد ہونا چاہیے جب وہ ۲۰۰۱ء میں کابل میں الجزیرہ کا نمائندہ تھا‘ تو ایک میزائل اس کے دفتر سے آٹکرایا تھا( اس کا دفتر اس وقت خالی تھا) الجزیرہ افغانستان سے اسامہ بن لادن کی دھمکی آمیز تقریریں نشر کررہا تھا امریکی اسے غلطی کہتے تھے مگر اس وقت کسی کو بھی شک نہیں تھا کہ یہ حملہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا تھا۔
۲۰۰۳ء میں طارق ایوب کی موت پر اظہار افسوس کے لئے پنٹاگون نے ایک پھسپھسا سا خط جاری کیا جس میں حملے کی وجوہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی اور ایسا کیوں ہوتا؟ اسی دن ایک امریکی یم ۔۱ ‘ اے ۱ ۔ ٹینک نے فلسطین ہوٹل پر گولہ پھینکا جس سے مزید تین صحافی جاں بحق ہوگئے۔ امریکی کہتے تھے کہ عمارت سے چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ ہورہی تھی۔ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ اس حملے پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ چند سال پیشتر ۱۹۸۸ء میں بلغراد میں امریکیوں نے سربیا ٹیلی ویژن ہیڈکوارٹرز کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا تھا‘ جس پر میں نے اگلے روز لکھا تھا کہ یہ ایسا عمل ہے جس سے نیٹو کو ان مردوں اور عورتوں کو ٹارگٹ بنانے کی اجازت مل گئی‘ جن کا جرم یہ تھا کہ وہ ان کے خلاف زبان کھولتے تھے۔ اس سے آنے والے دنوں کے لیے کیسی مثال قائم ہوئی؟ مجھے اس کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا۔
۲۰۰۴ء میں الجزیرہ پر بمباری کے لیے صدر بش کی خواہش کے پس پردہ کون سی انوکھی بات تھی؟ ٹونی بلیئر جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے صدر بش کو اس حماقت سے منع کیا تھا۔ اب اگر وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت برطانوی پریس کو حقیقت افشانی سے روکیں تو یہ طاقت کے اس نشے کے عین مطابق ہوگا جسے ہم بش بلیئر اتحاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
جب ۲۰۰۳ء میں امریکی جہازوں نے بغداد میں بے گناہوں کو موت کے منہ میں دھکیلا تھا تو برطانوی وزراء بزدلی سے امریکی جھوٹ دہراتے رہے۔ صدر بش اگر اپنے خیالی دشمن پر خواہ وہ کتنے ہی بے گناہ کیوں نہ ہوں‘ دوبارہ بمباری کی خواہش کریں تویہ وزراء ان کی صفائی میں پھر دن رات ایک کردیں گے۔
جب الجزیرہ نے پہلی دفعہ عرب دنیا میں اپنی نشریات کا آغاز کیا تو امریکیوں نے اسے مشرق وسطیٰ کی آمریت کے درمیان آزادی کی ایک علامت قرار دیا۔’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے کالم نگار ٹام فریڈمین نے اسے آزادی کی شمع کہہ کر خراج تحسین پیش کیا۔ امریکی اہلکاروں نے الجزیرہ کی نشریات کو بطور ثبوت پیش کیا کہ عرب عوام اب آزادیٔ اظہار کے خواہشمند ہیں‘ اس بات میں کسی حد تک سچائی بھی تھی۔ جب الجزیرہ نے لبنان کی خانہ جنگی پر جس سے بیروت ٹی وی جان بوجھ کر گریز کرتا تھا سولہ اقساط پر مشتمل سیریز نشر کی تو لبنان میں میرے گھر کے سامنے ساحل پر لوگوں کا ہجوم ختم ہوجاتا تھا۔
عرب عوام سچ دیکھنا ور سچ سننا چاہتے تھے جس سے ان کے اپنے لیڈروں نے انہیں محروم رکھا تھا۔ مگر جب اسی الجزیرہ ٹی وی نے اسامہ بن لادن کے پیغامات نشر کرنا شروع کردیے تو فریڈمین اور امریکی محکمہ خارجہ کا سارا جوش ٹھنڈا پڑگیا۔ امریکی نائب وزیر دفاع پال وولفوڈنز جو خود کو جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے ہیں ‘ مگرجب ۲۰۰۳ء میں جمہوری طور پر منتخب تُرک پارلیمنٹ نے عراق پر حملے کے لئے امریکی فوجیوں کو تُرک سرزمین سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تو انہوں نے فرمایا کہ تُرک جنرل اس معاملے میں کیوں نہیں بولتے۔ وہی پال وولفوڈنز لغو بیانی سے کام لیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ الجزیرہ امریکی فوجیوں کی زندگیوںکو خطرے میں ڈال رہا تھا۔
ان کے باس ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اس سے بھی بڑا جھوٹ بولا کہ الجزیرہ عراقی باغیوں کے ساتھ تعاون کررہا تھا۔ میں نے ان دعوئوں کی تصدیق میں کئی دن صرف کیے لیکن یہ تمام کے تمام جھوٹ ثابت ہوئے۔ امریکی افواج پر گوریلا حملوں کی ویڈیو ٹیپ گمنام لوگوں نے الجزیرہ کو فراہم کی تھیں ‘ انہیں الجزیرہ ٹی وی کے عملے نے نہیں فلمایا تھا۔ مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ عراق کی نومنتخب حکومت نے الجزیرہ کو ملک سے نکال کر اپنے نام نہاد جمہوری دعوئوں کا ثبوت فراہم کردیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح صدام نے ۲۰۰۳ء کے شروع میں دھمکی دی تھی۔
اس نے اگر ایک طرف اسامہ بن لادن کے تھکا دینے والے خطبات خوبصورت انداز میں پیش کئے‘ تو دوسری طرف مغربی لیڈروں کے القاعدہ کی باریش قیادت کے بارے میں سخت انٹرویو پیش کرکے ایک توازن قائم کیا۔ الجزیرہ مڈل ایسٹ کی حریت کی آواز ہے‘ اسی بناء پر اسے کابل بغداد اور تقریباً قطر میں بھی حملے کا نشناہ بنایا گیا۔ لہٰذا اگر برطانوی صحافی اس تاریک اور خونیں گڑھے میں سے بھی خبریں نکالنے سے باز نہ آئے‘ جس میں بش اینڈ بلیئر کمپنی نے ہمیں گرادیا ہے تو ٹونی بلیئر کو چاہئے کہ وہ انہیں سختی سے دبادیں۔
(بشکریہ: ڈیلی ’’انڈی پینڈنٹ‘‘۔ لندن)
Leave a Reply